تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     30-09-2025

حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ…(2)

سفانہ بنت حاتم نے اپنے بھائی عدی کو بتایا کہ قید میں جب تیسرا دن تھا اور محمد(ﷺ) قیدیوں کے پاس آئے۔ میں مایوس ہو چکی تھی مگر رسول کریمﷺ کے پیچھے ایک شخص چلا آ رہا تھا جس نے مجھے اشارے سے کہا کہ میں اپنا معاملہ پیش کروں؛ چنانچہ میں نے اپنی درخواست دہرائی۔ میری درخواست سن کر رسولﷺ نے فرمایا: میں نے تم پر احسان کیا اور تمہیں آزادی دے دی ہے مگر جلدی نہ کرنا‘ یہاں انتظار کرو‘ یہاں تک کہ تمہاری قوم کا کوئی معتمد آدمی یا قافلہ ادھر سے گزرے پھر ان کے ساتھ چلے جانا اور جانے سے پہلے مجھے اطلاع دے دینا۔ میں نے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے مجھے نیک مشورہ دیا تھا۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب ہیں‘ رضی اللہ عنہ۔ انہی کی قیادت میں مسلم لشکر نے ہمارے قبیلے کے خلاف چڑھائی کی تھی۔ ان کے دستے میں سو افراد شامل تھے۔ سبھی سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ حضرت عدیؓ اور ان کا پورا خاندان حضرت علیؓ کو اپنا محسن اور ہمدرد سمجھتا تھا اور آپؓ سے بہت محبت کرتا تھا۔ حضرت علیؓ کی خلافت کے دور میں حضرت عدیؓ نے ہر مشکل مرحلے پر ڈٹ کر آپؓ کا ساتھ دیا اور اس دوران خلیفہ راشد کی خاطر انہیں بہت سی قربانیاں بھی دینا پڑیں جو ان کی سیرت کا اہم باب ہیں۔
بنت حاتم طائی اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں آنے جانے والے قافلوں کے بارے میں پوچھتی رہی‘ بالآخر قبیلہ بلی یا قبیلہ قضاعہ کا ایک کارواں آیا۔ وہ لوگ شام جا رہے تھے اور ان سے ہماری جان پہچان تھی۔ میں بھی اپنے بھائی کے پاس شام جانا چاہتی تھی۔ میں نے رسول پاکﷺ کو اطلاع دی تو آپﷺ نے مجھے نئے کپڑے عطا فرمائے‘ سواری دی اور راستے کا خرچ دے کر عزت وتکریم سے رخصت فرمایا۔ میں اس کارواں کے ساتھ شام چلی گئی۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ بنت حاتم نے کہا ''اے اللہ کے رسولﷺ! میں اس باپ کی بیٹی ہوں جو کمزوروں اور بے بسوں کی سرپرستی کیا کرتا تھا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میرے قبیلے کی خواتین اور بچے غلامی میں جکڑے رہیں اور میں ان کو چھوڑ کر چلی جائوں‘‘۔ آپﷺ نے یہ بات سن کر عظیم باپ کی عظیم بیٹی کے جذبے کو سراہا۔ ساتھ ہی صحابہ کرام سے فرمایا کہ سب قیدیوں کو رہا کر دو۔ یہ سن کر سفانہ بنت حاتم بہت خوش ہوئیں اور سب قیدی بھی بہت زیادہ ممنون ہوئے۔
عدی کہتے ہیں: خدا کی قسم میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ شام میں مقیم تھا مگر سخت پریشان تھا۔ دھیان ہر لمحے اپنی بہن کی طرف رہتا تھا۔ پتا نہیں اس پر کیا بیت رہی ہو گی۔ جنگوں میں قیدیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا کرتا وہ انتہائی دردناک ہوتا تھا۔ میں ایک روز اپنے اہل وعیال کے ساتھ پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ سامنے سے ایک قافلہ آتا نظر آیا۔ ایک اونٹ پر محمل میں کوئی پردہ نشین خاتون سوار تھی۔ وہ قافلہ ہماری جانب بڑھ رہا تھا۔ میں نے دل میں کہا یہ حاتم کی بیٹی چلی آ رہی ہے‘ جب وہ پاس پہنچی تو وہی تھی۔ میرے پاس پہنچتے ہی اس نے مجھے لعن طعن اور ملامت کرنا شروع کر دی۔ ''قطع رحمی کرنے والے‘ ظالم تُو نے اپنے بال بچوں کو اپنے ساتھ سوار کرکے فرار کی راہ اختیار کر لی اور اپنے باپ کی بیٹی اور اس کی عزت کو چھوڑ آیا‘‘۔ میں خود بہت نادم تھا۔ میں نے کہا: میری پیاری بہن تم نے جو کچھ کہا سچ ہے میں کوئی عذر پیش نہیں کرتا۔ اب مجھے معاف کر دو اور کوئی بددعا نہ دینا۔ پھر وہ سواری سے اتری اور میرے پاس مقیم ہوگئی۔ وہ بڑی عقل مند خاتون تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: تم نے اس شخص (محمد رسول اللہﷺ) کو کیسا پایا اور ان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ میری بہن نے جواب دیا: میری رائے یہ ہے کہ تم فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ۔ اگر وہ اللہ کے نبی ہیں تو ان کی جانب جلدی جانا باعثِ فضیلت وشرف ہے اور اگر بادشاہ ہیں تو وہ لوگوں کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ ان کے ہاں عزت والوں کو ذلیل نہیں کیا جاتا اور تمہارا مقام ومرتبہ تو پورے عرب میں ظاہر وباہر ہے۔ میں نے بہن کی رائے کو صائب جانا اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مدینہ کی جانب چل دیا۔
مدینہ پہنچا تو حضور پاکﷺ اپنی مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا۔ آپﷺ نے پوچھا: کون ہے؟ عرض کیا: عدی بن حاتم طائی۔ آپﷺ نے میرا پُرجوش استقبال کیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے۔ گھر جاتے ہوئے راستے میں ایک بدحال کمزور بوڑھی عورت نے انہیں روک لیا۔ آپﷺ دیر تک اس کی باتیں سنتے رہے اور وہ اپنی مشکلات اور ضروریات کا ذکر کرتی رہی۔ میں نے اپنے دل میں کہا: خدا کی قسم یہ بادشاہ تو نہیں ہیں۔ بوڑھی عورت سے فارغ ہوکر آپﷺ مجھے گھر لے گئے۔ چھوٹے سے گھر میں آپﷺ نے ایک گدّا میری طرف بڑھایا۔ وہ کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا گدّا تھا۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: اس کے اوپر بیٹھ جاؤ۔ میں نے عرض کی: نہیں! آپ اس پر تشریف رکھیں۔ مگر آپﷺ نے حکم دیا: تم اس پر بیٹھو۔ میں گدے پر بیٹھ گیا جبکہ رسولِ مقبولﷺ چٹائی پر تشریف فرما ہو گئے۔ اب پھر میں نے دل میں کہا: خدا کی قسم یہ معاملہ (روایتی) بادشاہوں والا تو نہیں ہے۔ اب آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے عدی بن حاتم! کیا تم رکوسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتے؟ (رکوسی ایک مذہبی گروہ تھا جن کے دینی عقائد و رسومات صابیوں اور عیسائیوں کے بین بین تھے)۔ میں نے عرض کیا: جی ہاں میں رکوسی ہوں۔ آپﷺ کا دوسرا سوال تھا: کیا تم اپنی قوم سے ان کے باغات کی پیداوار اور مالِ غنیمت کا چوتھا حصہ وصول نہ کرتے تھے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ وصولی تمہارے دین کے مطابق حلال بھی نہ تھی۔ میں نے تسلیم کیا کہ آپﷺ کا فرمان درست ہے۔ اب میں بخوبی جان گیا کہ آپﷺ اللہ کے رسولِ برحق ہیں۔ جو باتیں عربوں میں سے کسی کو ہرگز معلوم نہ تھیں‘ آپﷺ ان سے اچھی طرح واقف تھے۔ اللہ علیم وخبیر نے اپنے پیغمبر کو ہر طرح کے علم سے مالا مال کر رکھا تھا۔
اس مجلس میں آپﷺ نے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا‘ فرمایا: ''اے عدی شاید دینِ اسلام میں داخل ہونے سے تمہیں یہ امر مانع ہے کہ اہلِ اسلام کی مالی حالت بہت کمزور ہے؟ خدا کی قسم وہ وقت ضرور آئے گا کہ مال ودولت کی ایسی ریل پیل ہو جائے گی کہ دینے والے سبھی ہوں گے اور لینے والا کوئی نہ ہو گا۔ شاید تجھے اس چیز کی بھی پریشانی ہو کہ یہ لوگ تو تعداد میں بہت قلیل ہیں اور پوری دنیا ان کی دشمن ہے؟ کیا تُو نے حیرہ دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا دیکھا تو نہیں‘ سنا ضرور ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم اس دین کا غلبہ یوں ہوگا کہ تُو سن لے گا اور دیکھ لے گا کہ ایک خاتون زیورات سے لدی پھندی تن تنہا اپنے اونٹ پر حیرہ سے سوار ہوگی اور حج بیت اللہ کے لیے مکہ کا سفر کرے گی اور اسے کوئی ڈر اور خطرہ نہ ہوگا۔
آپﷺ کی دل افروز گفتگو جاری تھی۔ پھر فرمایا: اے عدی ممکن ہے کہ تُو نے سوچا ہو دنیا میں بہت سے بادشاہ اور سلاطین ہیں اور ان لوگوں میں کوئی تاجدار نہیں۔ بخدا تو سن لے گا کہ بابل کے سفید محلات اِن لوگوں کے ہاتھوں فتح ہو جائیں گے۔ قیصر شکست وہلاکت سے دوچار ہو گا‘ پھر دنیا سے قیصریت ختم ہو جائے گی۔ کسریٰ ہلاک ومعدوم ہو جائے گا اور کوئی کسریٰ پھر اس کے تخت پر نہ بیٹھے گا۔ گویا حضورﷺ نے اعلان فرما دیا کہ نام نہاد اور جعلی سپریمسی کے دعوے کرنے والے تمام تر مادی طاقت کے باوجود مٹ جائیں گے اور دنیا میں ایک اللہ کی کبریائی کا جھنڈا لہرائے گا۔ مومن کا یہ ایمان ہے کہ سپر طاقت صرف اللہ ہے! عدی بن حاتم طائی کہتے ہیں: یہ سن کر میں نے اسلام قبول کر لیا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved