تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     01-10-2025

عالمِ اسلام اور نئی حقیقتوں کا ادراک

معاہدۂ غزہ کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے درست کہا کہ یہ تاریخی دن ہے۔ اس معاہدے کا مفہوم یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف مسلمان ممالک کی مزاحمت جیسے بھی تھی‘ باقاعدہ اور اعلانیہ ختم ہو گئی ہے۔ معاہدے کا یہ مطلب بھی ہے کہ جتنی بھی مزاحمت تھی آخرکار بے کار نکلی اور اب اس لمحے مختلف مسلمان ممالک اسی میں راحت اور آسودگی محسوس کر رہے ہیں کہ جنگ کی باتیں ختم ہو گئیں‘ نہ صرف اسرائیل کا وجود تسلیم ہوا بلکہ فلسطین اور اُس کے اردگرد کے علاقے میں اسرائیل کے تسلط کا بھی اقرار ہو گیا۔ عرب ممالک اسرائیل کے مقابلے میں پہلے بھی جنگیں ہار چکے تھے لیکن ہارنے کے بعد دلوں میں رنجش اور جذبۂ انتقام رہتا۔ غزہ کی جنگ کی ہولناکیوں کے بعد رنجش کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ یعنی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اسرائیل کا مقابلہ عربوں کے بس کی بات نہیں۔ تلخ بات ہے بُری بھی لگے گی لیکن حقیقت یہی ہے۔ مسلمان دنیا مانے یا نہ مانے شمشیرِ یہود نے اپنا لوہا منوا لیا ہے‘ اور اب جو معاہدہ ہوگا اُس کے بعد کوئی عرب ملک مزاحمت کی بات نہیں کرے گا۔
یہ جو نیا نقشہ کھینچا گیا ہے اور جسے امریکی طاقت کی وجہ سے اسلامی ممالک تسلیم کرنے چلے ہیں‘ اس کے خدوخال میں پاکستان بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ معاہدہ کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کس خوبصورتی سے تمام متعلقہ مسلمان ممالک اور اُن کے لیڈروں کا نام لیا۔ پاکستان کے بارے میں کہا کہ وہاں کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل آف پاکستان نے ابھی ابھی معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کا دو دفعہ ذکر ہوا۔ ابراہام اَکارڈ کے تحت یو اے ای‘ مراکش‘ بحرین اور سوڈان جیسے ممالک پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اب زور سعودی عرب پر لگے گا اور معاہدۂ غزہ عملی شکل اختیار کرتا ہے تو سعودی عرب کا کوئی اعتراض باقی نہیں رہ جاتا۔
سعودی عرب تو ویسے ہی نئی راہوں پر گامزن ہے‘ یہ اور بات ہے کہ اب تک بیشتر پاکستانیوں کو سعودی عرب کی اس تبدیلی کی سمجھ نہیں آ رہی۔ سعودی عرب نے ابراہام اَکارڈ کے تحت کوئی قدم اٹھایا تو پاکستانیوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان بھی اس ضمن میں کوئی دیر نہیں کرے گا۔ اور سعودی عرب ابراہام اَکارڈ کا حصہ بنتا ہے تو ہم بھی حصہ بن جائیں گے۔ یعنی ہمارے سارے نعرے صہیونی سازشوں کے بارے میں تاریخ کے کوڑا دان میں چلے جائیں گے۔ مشرقِ وسطیٰ کا جو نیا نقشہ بن رہا ہے اُس کا گاڈ فادر صدر ٹرمپ ہوں گے۔ اس نقشے کے اہم جزو سعودی عرب اور یو اے ای ہوں گے۔ ہمارے گہرے تعلقات دونوں ممالک سے ہیں۔ سعودی عرب سے تو سٹریٹجک دفاعی معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ صدر ٹرمپ بڑی گرم جوشی سے ہمارا ذکر کرتے ہیں اور اُن سے موجودہ پاکستانی قیادت کے گرم جوشی پر مبنی تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ غزہ میں جو امن بورڈ قائم ہونے چلا ہے اُس کے سربراہ ڈونلڈٹرمپ ہوں گے۔ پورے نئے نقشے کے گاڈ فادر وہ ہوں گے۔ ایسے میں موجودہ پاکستان کہاں دور رہ سکے گا۔ جہاں سعودی عرب کے قدم پڑیں گے اُنہی قدموں پر چلنے میں ہمیں کوئی دقت محسوس نہ ہو گی۔ اور کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ یہ اچھی بات نہ ہو گی۔ یہ اچھی بات ہو گی کیونکہ جب عرب اور اسلامی ممالک باجماعت امریکہ کی ترتیب دی ہوئی صف میں کھڑے ہوں گے تو پاکستان کو کس سانپ نے کاٹا ہے کہ ہم فضول کے نعرے لگاتے ہوئے ماضی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عربو ں کی اسرائیل کے ہاتھوں شکستِ فاش 1967ء میں ہوئی تھی۔ 1973ء کی جنگ میں مصری فوجوں نے نہرِ سوئز ضرور عبور کی تھی لیکن اُس کے بعد امریکہ کی وساطت سے جو اسرائیل‘ مصر معاہدہ ہوا اُس کے تحت مصر ہمیشہ کیلئے محاذِ مزاحمت سے فارغ ہو گیا۔ حافظ الاسد کی سربراہی میں شام اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا لیکن گولان کی پہاڑیوں کا علاقہ اسرائیل سے واپس نہ لے سکا۔ اور اب شام کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ مزاحمت نام کی چیز وہاں نہیں رہی۔ عربوں کی شکست کے بعد اسرائیل کے خلاف دوسری مزاحمتی قوت ایران کی صورت میں سامنے آئی۔ اور یہ انقلابِ ایران کا کارنامہ تھا جس کے دو اہم نعرے تھے مَرگ بر امریکہ اور مَرگ بر اسرائیل۔ اور ببانگ دہل ایرانی لیڈر کہتے تھے اسرائیل کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹنا چاہیے۔ جنگِ غزہ میں البتہ ایران کے تمام خواب اور تصورات چکنا چور ہو گئے ہیں۔ انقلاب کے بعد اُس علاقے میں ایران نے مزاحمت کا ایک پورا انفراسٹرکچر قائم کیا تھا‘ ایک طرف حزب اللہ‘ دوسری طرف حماس اور عراق پر امریکی حملے کے بعد عراق پر بھی ایران کا تسلط قائم ہو گیا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی کاحکم اس پورے علاقے میں چلتا تھا اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے بڑے کمانڈر وہی سمجھے جاتے تھے۔
صدر ٹرمپ کے پہلے عرصۂ صدارت میں قاسم سلیمانی ایک امریکی ڈرون میزائل کا نشانہ بنے۔ محاذِ مزاحمت پھر بھی قائم رہا لیکن حماس کا 7 اکتوبر 2023ء کا اسرائیل پر حملہ پورے علاقے کیلئے تباہ کن ثابت ہوا۔ بینجمن نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل نے پھر جو کیا اُس سے مشرقِ وسطیٰ کا سارا نقشہ بدل چکا ہے۔ حماس کی قوت تباہ‘ غزہ کی کچھ سرنگوں میں اُس کا بچا کھچا وجود قائم ہے۔ لیکن غزہ کے مکینوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے وہ ایک اپنی داستان ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج تک ندامت میں حماس کی قیادت ایک لفظ ادا نہیں کرسکی کہ اُن کی تاریخی حماقت کی وجہ سے اسرائیل کو موقع ملا کہ غزہ کی آبادی پر ظلم ڈھائے جائیں۔ حزب اللہ ویسے تو قائم ہے لیکن اسرائیلی بمباروں نے اُس کی قیادت کا صفایا کر دیا۔ اُس کی طاقت اتنی برباد ہو چکی ہے کہ اب اسرائیل کیلئے وہ کوئی خطرہ نہیں۔ جیسے ذکر ہو چکا شام کی ہیئت بدل گئی ہے۔ اور جہاں تک ایران کا تعلق ہے اُس کی عسکری قیادت کو بے پناہ نقصان پہنچااور اُس کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل اور آخر میں امریکی ہوائی حملے ایسے ہوئے جس کا پہلے کوئی تصور نہ کر سکتا تھا۔ یعنی ایران کی ساری کہانی کو وہ نقصان پہنچا ہے کہ اسرائیل سے جنگ کے بعد اُس کا لہجہ بدل چکا ہے۔ یہ ہیں وہ نئی حقیقتیں جن کی عکاسی معاہدۂ غزہ میں ہونے چلی ہے۔ یعنی عرب اور ایرانی مزاحمت کی کہانی ختم ہوئی۔ اور بالکل ایک نئی داستان رقم ہونے کیلئے منتظر ہے۔
پاکستان کا عرب اور ایرانی مزاحمت سے کوئی براہ راست تعلق نہ تھا۔ پاکستان البتہ اسیرِ جہاد تھا۔ صورتِ جہاد ہم نے نہ پیدا کی نہ کر سکتے تھے۔ یہ بڑی طاقتوں‘ یعنی روس اور امریکہ کا کرنا تھا لیکن افغانستان میں آگ ایسے بھڑکے کہ امریکی ڈالر اور سعودی ریال تپش میں معاون ثابت ہو رہے ہوں تو پاکستان کیسے دور رہ سکتا تھا؟ اُس جہاد میں کودے اور نتائج کی پروا نہ کرتے ہوئے جہاد کا لبادہ اوڑھ لیا۔ صدر مشرف کے دور میں جہاد ایسا بے نقاب ہوا کہ بس اڈوں پر ڈبے نظر آتے جن پر عبارت ہوتی چندہ برائے جہاد۔ اچانک سے 9/11 ہو گیا تو اُنہی صدر صاحب کو ریورس گیئر لگانا پڑا اور جہاد کی دوسری طرف کھڑا ہونا مجبوری بن گئی۔ کبھی شکار کرنے والوں کے ساتھ کچھ ہمدردی‘ کبھی خرگوش کیلئے۔ اُسی ماحول میں کہیں اُسامہ بن لادن پیدا ہو رہا تھا کہیں کشمیر کے ناتے مجاہد نظر آتے۔
معاہدۂ غزہ کے بعد یہ تمام تصویریں ماضی کے دھندلکے سایوں میں گُم ہو جائیں گی۔ ویسے ماضی سے پاکستان شاید جان نہ چھڑا سکتا‘ اب چھڑانی پڑے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved