امریکہ کے بعض انتہائی باخبر ذرائع سے پیر کے روز ملنے والی اطلاعات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگلے چند دنوں کے دوران غزہ میں جنگ بندی ہونے والی ہے۔ اس تازہ ترین پیش رفت سے یہ اندازہ بھی ہو رہا ہے کہ جنگ بندی کے ساتھ ہی فلسطین میں قیام امن کا راستہ بھی ہموار ہو رہا ہے۔ آج کے کالم میں آپ کو اس متوقع پیش رفت سے آگاہ کریں گے مگر پہلے آپ کو اس گلوبل صمود فلوٹیلا کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بتائیں گے جو تقریباً گزشتہ ایک ماہ سے غزہ کی طرف عازمِ سفر ہے۔ فلوٹیلا سے مراد بحری جہازوں کا فلیٹ ہے۔ صمود عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے جمے رہنا اور ڈٹ کر کھڑے رہنا۔ یہ بحری بیڑا 44 ممالک کے باضمیر‘ باہمت اور جرأت مند انسانوں کو لے کر بین الاقوامی پانیوں سے گزرتے ہوئے غزہ کے ساحلوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بحری طوفانوں کی بنا پر بعض اوقات اس بحری بیڑے کے مسافروں کو کسی جزیرے پر پناہ بھی لینا پڑتی ہے۔
گوبل صمود فلوٹیلا کو منظم کرنے میں کئی انسانیت نواز عالمی تنظیموں نے حصہ لیا ہے۔ اس پُرامن‘ انسانی ہمدردی پر مبنی مشن کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے زمینی و بحری راستوں سے آنے والی خوراک‘ ادویات اور پانی وغیرہ پر اسرائیلی محاصرے کو توڑا جائے اور اہلِ غزہ تک یہ بنیادی ضروریات پہنچائی جائیں۔ حالیہ برسوں میں غزہ کی طرف جانے والا یہ فلوٹیلا سب سے بڑا ہے۔ ان جہازوں کے غیر مسلح اخلاقی قوت سے مالا مال جانباز یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مرتبہ یہ بحری چینل کھل گیا تو پھر ہر طرف سے اہلِ غزہ کیلئے خوراک اور ادویات وغیرہ کا تانتا بندھ جائے گا۔ بے لگام اسرائیلی حکومت نے ان پُرامن انسانی ہمدردی سے سرشار لوگوں پر بھی ایک نہیں کئی ڈرون حملے کیے۔ ان حملوں سے کشتیوں کو تو نقصان پہنچا مگر اللہ کے فضل سے غزہ کے مظلوموں کیلئے انسانی امداد لے جانے والے لوگ محفوظ رہے۔ ان حملوں کے بعد اٹلی اور سپین نے اپنی نیوی کے جہاز اس فلوٹیلا کے ہمراہ روانہ کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ ان کشتیوں میں سوار خلقِ خدا کے خادموں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا جا سکے۔ ترکیہ نے بھی اپنا ایک بحری جہاز اس فلوٹیلا کی حفاظت کیلئے روانہ کر دیا ہے۔
پاکستان کا جو چھ رکنی وفد اس گلوبل فلوٹیلا میں شامل ہے‘ اس کی قیادت سابق سینیٹر مشتاق احمد کر رہے ہیں۔ مشتاق صاحب شدتِ احساس اور غیرتِ ایمانی کا ایک منفرد مرقع ہیں۔ جہاں بات اسلامی اخوت کی آ جاتی ہے وہاں سینیٹر صاحب اپنی خدمات پیش کرنے اور اپنا جوش و جذبہ دیگر ایکٹوسٹوں کے اندر منتقل کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ کھلے سمندروں میں ڈرون حملوں کی زد میں آئی ہوئی کشتی میں جان ہتھیلی پر رکھ کر سوار ہونا صرف انہی لوگوں کا کام ہے کہ جن کے حوصلے ہیں زیادہ۔ جہاز سے ساری دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے مشتاق صاحب پہلے یہ بتاتے ہیں کہ میرا تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والی یاسمین ایکر (Yasmin Acar)‘جو سٹیئرنگ کمیٹی کی ممبر بھی ہیں‘ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ صمود فلوٹیلا اپنے مشن کے آخری مرحلے میں ہے۔ منتظمین کے اعلان کے مطابق وہ اس مقام پر پہنچنے والے ہیں جہاں فریڈم فلوٹیلا کو اسرائیلی فوج نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ اٹلی کی بحریہ کا جہاز قافلے کی حفاظت کیلئے ساتھ ہے اور جب تک یہ سطور آپ پڑھیں گے اس وقت تک سپین اور ترکیہ نیوی کے بحری جہاز بھی پہنچ چکے ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ امدادی قافلہ منزلِ مقصود پر لنگر انداز بھی ہو چکا ہو۔ سینیٹر مشتاق صاحب نے مشن کی کامیابی کیلئے دعا کی درخواست کی ہے۔
تین چار روز سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے تھے کہ غزہ میں سیز فائر ہونے والا ہے اور تقریباً تمام ہی فریق جنگ بندی کی شرائط پر متفق ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی چینل فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ بعض شرائط کے ساتھ حماس کے لیڈروں کو ملک سے باہر جانے کیلئے محفوظ راستہ دیا جائے۔ انہوں نے مختصراً کچھ شرائط کا ذکر بھی کیا ہے جن میں حماس کی طرف سے جنگ کا خاتمہ اور تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سرفہرست ہیں اور حماس کے پاس موجود ہتھیاروں کو ہمارے حوالے کرنا ہو گا۔ حماس نے کہا ہے کہ ہتھیار وہ صرف غزہ کی خود مختار حکومت کے حوالے کرے گی۔ ممتاز مصری مصنف اور صحافی فہمی سویدی نے حماس کے غیر مسلح ہونے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بوسنیا میں جنگ بندی کے بعد ہتھیار ڈال دیے گئے تھے‘ اس کے بعد وہاں سربوں نے جو قتلِ عام کیا وہ حالیہ تاریخ کا انتہائی المناک باب ہے۔ سی این این کے حوالے سے فاضل مصنف نے لکھا ہے کہ کیا تاریخ اپنے آپ کو غزہ میں دہرانے جا رہی ہے؟
فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد یقینا اس کی مسلح فوج ہو گی لیکن ٹرمپ کے امن منصوبے میں اس کے برعکس باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ضمانت کی اب کوئی حقیقت نہیں مگر اسلامی دنیا ان سے یقینا امن کی گارنٹی لے گی۔ عرب اور اسلامی ممالک کے وفد نے امریکی صدر سے جب مشترکہ ملاقات کی اور فوری جنگ بندی پر اصرار کیا تھا‘ اس موقع پر فلسطینیوں کے دیگر مطالبات بھی پُرزور طریقے سے پیش کیے گئے تھے۔ صدر ٹرمپ نے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانے کا مطالبہ کیا تھا جسے وفد نے متفقہ طور پر رد کر دیا تھا۔ اس مشترکہ ملاقات کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ڈونلڈ ٹرمپ سے جو الگ ملاقات کی تھی اس میں بھی انہوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی ہی کی بات کی تھی۔میاں شہباز شریف نے اس موقع پر عالم عرب اور اسلامی دنیا کی اہم شخصیات سے جو ہارٹ ٹو ہارٹ اور ون آن ون بات چیت کی اس میں بھی غزہ میں فوری جنگ بندی پہلی ترجیح کے طور پر شامل تھی۔ البتہ جناب وزیراعظم سے قوم کی طرف سے ایک ضروری استفسار کرنا ہے۔ یقینا یہ وزیراعظم کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہیں اسے اپنے وفد میں شامل کر لیں مگر ایسی کوئی شمولیت پُراسرار طریقے سے نہیں کی جاتی۔ محترمہ شمع جونیجو جنرل اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے عقب میں بیٹھی ہوئی تھیں‘ جب خواجہ صاحب سے پوچھا گیا کہ یہ محترمہ کون تھیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں۔ پاکستان کے ایک ثقہ اخبار نے پاکستانی وزارتِ خارجہ سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کیونکہ فارن آفس سے وزیراعظم کے منظور شدہ وفد میں مذکورہ بالا خاتون کا نام شامل نہیں تھا۔ اب وزیراعظم یا وزیر خارجہ کے دفتر نے تو کوئی وضاحت نہیں کی؛ البتہ محترمہ شمع جونیجو نے از خود وضاحتی بیان جاری کر دیا ہے۔ ان کے بقول وزیراعظم نے انہیں بطور مشیر وفد میں شامل کیا تھا۔ جناب میاں شہباز شریف کو شاید تفصیلی علم نہیں کہ محترمہ شمع جونیجو ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اور ان کی انگریزی اچھی ہے۔ مگر محترمہ ایکس پر کافی مدت سے پاکستان کے سرکاری مؤقف کے برعکس اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں مہم چلاتی رہی ہیں۔ برطانیہ کے دانشور حلقے محترمہ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے ساتھ اس موضوع پر بحث مباحثہ بھی کرتے رہے ہیں۔ ایسے نازک موقع پر اس طرح کا سیاسی پس منظر رکھنے والی شخصیت کا وزیراعظم کے وفد میں شامل کیا جانا تبصروں کو ہوا دیتا ہے۔ اس لیے اتنی گزارش ہے کہ احتیاط واجب ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved