لوگوں کو غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کے پیچھے امریکی صدر کا مجوزہ معاہدہ دکھائی دے رہا ہے مگر میرے خیال میں یہ سارا کمال ہمارے حکمرانوں کا ہے۔ نہ وہ بار بار امریکی صدر کے امن کے داعی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے اور نہ ہی وہ اس اخلاقی دباؤ میں آکر غزہ میں جنگ بندی کیلئے تیار ہوتے۔ اگر صدر ٹرمپ میں انسانیت کا ایک ذرہ بھی موجود ہوتا تو وہ یہ کام 68ہزار سے زیادہ لوگوں‘ جن میں اکثریت خواتین‘ بوڑھوں اور بچوں پر مشتمل ہے‘ کی شہادت سے پہلے بھی کر سکتے تھے لیکن وہ منتظر رہے کہ غزہ ملبے کا ڈھیر بن جائے‘ لاکھوں لوگ بے گھر ہو جائیں‘ ہزاروں لوگ قحط اور بھوک سے موت کی دہلیز پر پہنچ جائیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافت سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد اسرائیلی بربریت کی نذر ہو جائیں‘ دنیا اس نسل کشی پر چیخ چیخ کر تھک جائے اور اسرائیل اپنے پچاس ساٹھ زندہ اور مردہ یرغمالیوں کو بنیاد بنا کر ایران‘ لبنان اور قطر میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنا لے اور ایک چھوٹے سے خطے کا مہینوں تک ایسا محاصرہ کیے رکھے جس کی جدید دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ لیکن امریکی صدر ٹرمپ خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہے۔ اس ساری تباہی اور بربادی کو امریکی صدر کی مکمل اشیر باد اور ہر طرح کی معاونت حاصل تھی۔
ہمارے پیارے وزیراعظم نے پہلے صدر ٹرمپ کیلئے امن کے نوبیل انعام کیلئے آواز بلند کی اور اب وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ کو امن کا داعی قرار دے دیا۔ ان کے امن کے داعی ہونے کے معاملے میں شاید ہمارے حکمرانوں کو یاد نہیں رہا کہ غزہ میں ہونے والے حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے انسانی المیے کے دوران امریکہ محصور و مقہور فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے اسرائیل کی دامے درمے سخنے مدد کرتا رہا۔ اسلحہ فراہم کرتا رہا اور سب سے بڑھ کر غزہ میں جنگ بندی سے متعلق اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کرتا رہا۔ جناب شہباز شریف نے مورخہ 18ستمبر کو اقوام متحدہ میں غزہ کی جنگ بندی کی قرارداد کو چھٹی بار ویٹو کرنے کے عین سات روز بعد صدر ٹرمپ کو امن کا داعی قرار دیا۔
امریکہ کی جانب سے چھٹے ویٹو کے محض پانچ دن بعد 23ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے اقوام متحدہ کو ہی جنگیں روکنے میں ناکام ادارہ قرار دیتے ہوئے مطعون کیا اور استہزائیہ انداز میں اس کے وجود کا مذاق اڑایا۔ شاہ جی کا خیال ہے کہ اگر ہمارے حکمران امریکی صدر ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزد کرتے ہوئے ایک عدد زور دار خط نوبیل انعام کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کو نہ لکھتے اور حالیہ ملاقات میں انہیں امن کا داعی قرار نہ دیتے تو شاید اب بھی صدر ٹرمپ کو اس جنگ بندی کا خیال نہ آتا۔ انہوں نے دراصل غزہ میں جنگ بندی کروانے کا فیصلہ اس اخلاقی دباؤ کے تحت کیا ہے جو ہمارے حکمرانوں نے ان پر لاد دیا تھا۔
ایک دوست مجھ سے کہنے لگا کہ آپ نے ایک بار کالم میں پیرس میں رہائش پذیر ایک فرانسیسی مصنف کے بارے میں لکھا تھا جو ایفل ٹاور کے سخت خلاف تھا اور اسے پیرس کے حسن‘ فرانسیسی طرزِ تعمیر اور جمالیاتی اعتبار سے لوہے کا بدنما ڈھانچہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مضامین لکھا کرتا تھا اور وہ یہ مضامین ایفل ٹاور پر بنے‘ گھومنے والے ریستوران میں بیٹھ کر لکھا کرتا تھا۔ اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگا کہ یہ ریستوران پیرس کی وہ واحد جگہ ہے جہاں بیٹھ کر مجھے یہ منحوس اور بدصورت ٹاور دکھائی نہیں دیتا۔ بالکل اسی طرح صدر ٹرمپ کو غزہ میں ہونے والے قتل عام کے نتیجے میں 68ہزار سے زائد شہید ہونے والے فلسطینیوں کی لاشیں اس لیے دکھائی نہیں دیں کہ وہ دراصل ان لاشوں کے عین اوپر بیٹھے ہوئے تھے مگر ہمارے حکمرانوں کو تو یہ لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔ انہوں نے کس دل سے ان کو امن کے نوبیل انعام کا حق دار اور امن کا داعی قرار دیا؟ ایمانداری کی بات ہے کہ میرے پاس اپنے اس دوست کے سوال کا اس کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں تھا کہ ہمارے حکمران اقتدار میں طوالت کیلئے امریکی سرپرستی کے محتاج ہوتے ہیں اس لیے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ خیر سے موجودہ حکمرانوں کو اور بھی بہت سے مسائل در پیش ہیں جن میں سرفہرست اخلاقی طور پر غیر منتخب ہونا شامل ہے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ہسپتالوں میں واقع ہونے یا وہاں درج ہونیوالی اموات کی تعداد 68ہزار سے زائد ہے۔ یہ اعداد و شمار جاں بحق ہونے والوں کی کم ترین تعداد پر مبنی ہیں۔ آزاد ذرائع کے مطابق اکتوبر 2023ء سے جنوری 2025ء تک 84ہزار کے لگ بھگ افراد‘ جن میں غالب تعداد خواتین‘ بوڑھوں اور بچوں کی ہے‘ اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے۔ ان میں جاں بحق ہونے والے وہ لوگ شامل نہیں جو بار بار اسرائیلی بے دخلی کے باعث راستے کی مشکلات‘ مصائب اور اسرائیلی بمباری کا شکار ہوئے۔
کیا عجب معاملہ ہے کہ جب امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل‘ جس کا غیر مستقل ممبر کی حیثیت سے پاکستان خود بھی حصہ ہے‘ مورخہ 18ستمبر کو غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو مسلسل چھٹی بار ویٹو کرکے اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام کو جاری و ساری رکھنے کا پروانہ عطا کیا تو پاکستان نے اس پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اسے ''سیاہ لمحہ‘‘ قرار دیا تاہم حیرانی کی بات ہے کہ ہم اس ویٹو کی ہدایت جاری کرنے والے شخص کو امن کا داعی اور نوبیل انعام کا حقدار بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ عمل ہماری قومی ترجیحات میں منافقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ریاست جس عمل کی مذمت کرتی ہے‘ حکمران اسی کی مدح سرائی کرنے میں پیش پیش ہیں۔یہ دنیا کا اپنی نوعیت کا انوکھا معاہدہ ہے جس میں اصل فریق یعنی فلسطینی سرے سے شامل ہی نہیں۔ یہ سارا معاہدہ حماس کو نہتا کرنے اور فلسطینیوں کو بھیڑیں بنا کر نیتن یاہوجیسے بھیڑیے کے آگے ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ معاہدہ دو فریقین کے درمیان باہمی رضامندی سے ہونیوالے عمل کا نام ہے جبکہ یہ مسلط کردہ حکم نہ تو معاہدے کے زمرے میں آتا ہے اور نہ ہی وقت آنے پر اس کا کوئی ضامن بنے گا۔
امریکی صدر ٹرمپ ہر جگہ پر خواہ اس کا موقع ہو یا نہ ہو‘ یہ اعلان کرنے میں بڑا فخر اور مسرت محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے دنیا میں سات جنگیں رکوائیں۔ اس میں وہ جنگیں بھی شامل ہیں جن کو شروع کرنے کے بارے میں ان ممالک نے سوچا بھی نہیں ہوگا جن کا نام صدر ٹرمپ لیتے ہیں۔ اس پر مجھے ن م راشد کی نظم ''گمان کا ممکن‘‘ کے چند مصرعے یاد آ گئے:
اب ان کا انجام وہ سفینے؍ ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی
اب ان کا انجام وہ کتابیں؍ کہ جن کے قاری نہیں‘ نہ ہوں گے
ٹرمپ نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ وہ اپنی دوسری مدتِ صدارت میں صرف امریکہ کے ہی نہیں‘ دنیا بھر کے صدر ہیں۔ ان کا جملہ تھا: And the second time, I run the country and the world۔ وہ اپنی اس عالمی صدارت کے زور پر امن کا نوبیل انعام ہتھیا تو سکتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ایسے انعامات اور اعزازات وقت آنے پر تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اسرائیل کو اسلحہ اور جنگی ہتھیار دے کر فلسطینیوں کا قتل کروانے اور یوکرین کو جنگ جاری رکھنے کیلئے ساری سہولتیں و اسلحہ فراہم کرنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص امن کا نوبیل انعام حاصل کر لیتا ہے تو ایسا نوبیل انعام بذاتِ خود نوبیل انعام کیلئے درکار میرٹ کی صریح خلاف ورزی ہے اور امن کا نوبیل انعام اس پر خود شرمندگی محسوس کرے گا۔ ٹرمپ کو اس انعام کے ساتھ ملنے والی رقم کی اور اس انعام کو امن دشمن کی ضرورت نہیں مگر دنیا کی تاریخ ایسے ہی عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved