سوشل میڈیا کی سیاست فی الجملہ فساد اور بداخلاقی کی سیاست ہے۔ ایک دور میں اس پر بلاشرکتِ غیرے تحریک انصاف کا قبضہ تھا۔ یہ قبضہ اب چیلنج ہو گیا ہے۔ بداخلاقی کا جواب بداخلاقی سے دینے والے میدان میں نکل آئے ہیں۔ فنی مہارت میں پی ٹی آئی کا پلڑا بدستور بھاری ہے مگر بداخلاقی میں اب ٹکر کے لوگ سامنے آ رہے ہیں جن میں نواز شریف صاحب سے محبت کے دعوے دار بھی شامل ہیں۔ اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
سیاست میں کیسے کیسے لوگ تھے۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ میں اکثر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی مثال دیتا ہوں کہ اسی سیاست میں عمر بسر کی۔ مذہبی اور سیاسی مخالفین نے ان کے خلاف سب کچھ روا رکھا۔ الزام‘ تہمت‘ جھوٹ‘ بدکلامی‘ سب و شتم۔ اس کی مگر کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ انہوں نے کسی پر الزام لگایا ہو۔ کسی پر تہمت دھری ہو۔ مولانا معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ ان سے علمی فروگزاشتیں ہوئیں اور اہلِ علم نے ان پر نقد کیا۔ ان کی سیاسی حکمتِ عملی سے بھی اختلاف کیا گیا۔ ایسی تنقید میں کوئی برائی نہیں بلکہ بعض اوقات یہ لازم ہو جاتی ہے۔ مسئلہ رویے اور اخلاق کا ہے۔ مولانا نے نہ صرف بدتمیزی کا جواب نہیں دیا بلکہ اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی ایسا رویہ اختیار کرنے سے منع کیا جو جوابی الزام کا ہو یا جس میں تہذیب کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو۔
مولانا نے اپنے طرزِ عمل کو ایک مکتوب میں بیان کیا ہے: ''میں نے اپنے اوپر یہ لازم کر رکھا ہے کہ جب کبھی اپنے اندر ذرا سا بھی اشتعال محسوس کر تا ہوں‘ قلم ہو یا زبان‘ اسے فوراً روک لیتا ہوں۔ اور جب تک حالتِ اعتدال قائم نہیں ہو جاتی‘ نہ زبان سے کوئی لفظ نکالتا ہوں نہ قلم سے‘‘۔ (مکاتیب‘ حصہ دوم)۔ ایک اور خط میں اپنی روش کو اس طرح بیان کیا: ''میرا یہ کبھی طریقہ نہیں رہا کہ دوسرے علما کی تحریروں کو خوردبین لگا لگا کر دیکھتا رہوں اور جہاں کسی کی کوئی بات مجھے ایسی ملے جس پر گرفت کی جا سکے‘ اس کی خبر لے ڈالوں۔ زبانِ وحی سے کلام تو یہ لوگ بھی نہیں کرتے۔ ان کی ہر بات گرفت سے بالا تر نہیں ہوتی۔ کوئی اگر ان کے پیچھے پڑ جائے تو ان سب کے ہاں سے ایسی باتیں تلاش کر کے نکال سکتا ہے جن پر شور مچانا اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرنا آسان ہے۔ لیکن یہ بیہودہ کام نہ میں نے کبھی کیا ہے اور نہ کبھی میرے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ ان فضولیات میں اپنا وقت ضائع کروں‘‘۔ جماعت کے لوگوں کو تلقین کی: ''آپ کا اور دوسرے رفقا کا رویہ حلیمانہ اور شریفانہ ہونا چاہیے۔ کسی کی اشتعال انگیزی پر مشتعل نہ ہوں۔ غلط الزامات پر سکوت اختیار کریں۔ یا حد سے حد سادہ اظہارِ حقیقت پر اکتفا کریں۔ بدزبانی کا الزام حسنِ کلام سے اور کج خلقی کا جواب حسنِ اخلاق سے دیتے جائیں‘‘۔
مولانا مودودی نے علمی تنقید اور شخصی عیب جوئی میں فرق رکھا۔ اب اس رویے کی توقع دوسروں سے کیا رکھیں کہ صبح شام مولانا مودودی کا نام جپنے والے بھی اس بے تکلفی سے دوسروں پر الزامات لگاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ جب چاہا کسی کو امریکی ایجنٹ کہہ دیا۔ جب چاہا کسی پر مذہبی الزام لگا دیا۔ میڈیا اورسوشل میڈیا پر اس کے مظاہر بکھرے ہوئے ہیں۔ جماعت کی قیادت کا لب و لہجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مولانا مودودی ان سب الزامات کا شکار بن چکے۔ مولانا کی مثال اس لیے پیش کی گئی ہے کہ ان کا تعلق قرونِ اولیٰ سے نہیں ہے۔ وہ ہمارے عہد کے آدمی تھے۔ اسی سیاست میں رہے۔ سیاسی اتحادوں کا حصہ رہے۔ انتخابات میں شریک ہوئے لیکن اپنے دامن کو ممکن حد تک خرافات سے محفوظ رکھا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان اور سردار شیر باز خان مزاری جیسے لوگ بھی اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھنے والے علم دوست اور شائستہ لوگ تھے۔ یہ ماضی قریب کی بات ہے۔ آج ایسا کیا ہو گیا ہے کہ لوگ بدتمیزی کے میدان میں ایک دوسرے پر فتح پانا چاہتے ہیں۔
اس مہم جوئی کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ریاست کے ادارے اور ملک بھی اس کی گرفت میں ہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان جماعتوں کے حامی کسی طور یہ نہیں چاہتے کہ معاملات حل کی طرف بڑھیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت ان انسانی جبلتوں کو ابھارا جاتا ہے جو حد سے تجاوز کریں تو تصادم اور فساد لازم ہے۔ اشتعال دلایا جاتا ہے اور مسلسل کوشش کی جا رہی ہے کہ مصالحت کا کوئی دروازہ نہ کھلنے پائے۔ سیاسی جماعتیں پوری طرح سوشل میڈیا کی یر غمال بن چکی ہیں۔ عوام کا معاملہ یہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ پہلے ہی کلٹ نفسیات کا شکار ہے۔ اسے سمجھانا آسان نہیں۔ جو کلٹ کا شکار نہیں ہے وہ ردِ عمل میں مبتلا ہیں یا ابہام کا شکار۔ نتیجہ سب کا ایک ہی ہے: معاملات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ تقسیم کا عمل مزید گہرا ہو رہا ہے۔ یہ کسی طرح قومی مفاد میں نہیں ہے۔
کسی کو احساس نہیں کہ پاکستان کی سیاست اپنی اخلاقی بنیادیں کھو رہی ہے۔ جب اس جانب توجہ دلائی جاتی ہے تو لوگوں کا ردِ عمل مایوس کن ہوتا ہے۔ کسی کا خیال ہے: 'چونکہ ہم حق پر ہیں اس لیے ہماری بات مان لی جائے، اس کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا‘۔ کسی کا موقف ہے: 'فلاں نے سیاست کو گندا کردیا ہے، اگر اسے نکال باہر کریں تو پھر سب خیر ہے‘۔ سادہ سی بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ سب کی رائے ایک نہیں ہے۔ ہمارے درمیان اختلاف ہے۔ ہمارا مسئلہ اس اختلاف کا حل تلاش کرنا ہے۔ گالم گلوچ کے کلچر کو فروغ دینے سے کیا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اگر نہیں تو کیا ہمیں مہذب لوگوں کی طرح بات نہیں کرنی چاہیے؟
ہمارا دین ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ سماج میں ایک گروہ ایسا ضرور رہنا چاہیے جو نیکی کی تلقین کرے اور برائی سے منع کرے۔ یہ گروہ اہلِ سیاست میں ہونا چاہیے۔ میڈیا میں ہونا چاہیے۔ مذہب کے نام لیوا تو سب کے سب ایسے ہوں کہ ان کا کام ہی انذار ہے۔ آج سیاست میں خواجہ سعد رفیق جیسے کم دکھائی دیتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر شائستہ آدمی ہیں۔ پیپلز پارٹی میں فرحت اللہ بابر ہیں۔ ایسے لوگ اگر اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کریں تو شاید صورتِ حال میں کوئی بہتری آئے۔ افسوس یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کمزور ہیں اور سوشل میڈیا میں موجود ان کے خود ساختہ ترجمانوں نے ان جماعتوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔ وہی ترجمان ہیں اور وہی رائے ساز بھی۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ کارواں میں احساسِ زیاں بھی باقی نہیں رہا۔ اب مقابلہ بدتمیزی کا ہے۔ برائی کا جواب نیکی سے دینے وا لا کوئی نہیں۔ سیاسی جماعتوں نے‘ گمان ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا میں بدتمیزی کی سرپرستی شروع کر دی ہے۔ 'میثاقِ جمہوریت‘ سے پاکستان کی سیاست ایک مثبت رخ پہ چل نکلی تھی۔ سیاسی جماعتوں میں مثبت تعاون کی فضا بن رہی تھی۔ افسوس کہ سب کچھ بر باد کر دیا گیا اور اب ہم پھر اسی سیاست کو زندہ کر رہے ہیں جو اس میثاق سے پہلے تھی۔ وہ سیاست جس میں کردار کشی ہوتی تھی اور سچ جھوٹ میں تمیز کو روا نہیں رکھا جاتا تھا۔ اب پھر یہی ہو رہا ہے بلکہ اس سے دوچند۔ آج بدتہذیبی سے عبارت سوشل میڈیا کی سیاست پر پی ٹی آئی کا غلبہ چیلنج ہو گیا ہے۔ دیکھیے اس مرحلے کا فاتح کون ہوتا ہے۔ یہ نتیجہ تو سامنے ہے کہ ہمارا سماج ہار رہا ہے۔ اگر نظامِ اقدار برباد ہو جائے تو پھر سماج کھڑا نہیں رہ سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved