ایک وقت تھا‘ سیاست میں مذاکرات کی میز پر آنے اور جنگوں کو فرو کرنے کے لیے کھیلوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ برصغیرمیں کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے عرصے تک بہت سی سیاسی گتھیاں سلجھائی گئیں اور بہت سے دباؤ دور کیے گئے‘ لیکن حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں‘ کھیلوں کو جس تیزی سے سیاست زدہ کیا جا رہا ہے‘ جس تیزی سے کھیلوں میں انتہا پسندی کو رواج دیا جا رہا ہے اور جس تیزی سے ایک دوسرے سے نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں‘ وہ وقت دور نہیں کہ کھیلوں کے فیصلے جنگوں کا باعث بن جائیں یا کھیلوں کے فیصلے جنگوں کے میدانوں میں ہونے لگیں۔
موضوعِ گفتگو ایک بار پھر پاک بھارت کرکٹ ہے جس کی الجھنیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ معاملہ ایوب خاور کے اس شعر کا سا لگتا ہے:
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
کرکٹ میں بھارتی سیاست کی دراندازی کی بات بعد میں کریں گے‘ پہلے یہ دیکھیں کہ ہمارے کھلاڑی کیا کر رہے ہیں۔ اتوار کے روز کھیلے گئے ایشیا کپ فائنل کے کسی بھی موڑ پر یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہمارے کھلاڑی بھارت کے ساتھ فائنل میچ کھیل رہے ہیں۔ کیا یہ نااہلی کی انتہا نہیں ہے کہ ہمارے کھلاڑی ٹی ٹونٹی میچ کے 20 اوورز بھی پورے نہ کھیل سکے۔ اور کیا یہ اس سے بھی بڑی نااہلی نہیں ہے کہ 33رنز کے عوض ہم نے اپنی آٹھ وکٹیں گنوا دیں؟ اور اس سے بھی بڑی نااہلی یہ ہے کہ حارث رؤف نے 3.4اوورز میں بھارت کو 50 رنز دے دیے اور کوئی وکٹ بھی حاصل نہیں کی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب زیادہ رنز کی ضرورت تھی‘ نہ بنائے جا سکے۔ جب تیزی سے سکور بورڈ کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی‘ وہ ضرورت پوری نہ ہو سکی۔ جب وکٹوں کی ضرورت تھی تب وہ حاصل نہ کی جا سکیں۔ جب مخالف ٹیم کے سکور کی رفتار کم کرنے کی ضرورت تھی‘ تب وہ بھی نہ کیا جا سکا۔ کیا ہماری ٹیم میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو کھلاڑیوں کو یہ سمجھا سکتا کہ بھئی سکور چاہے نہ بناؤ یا سست روی سے بناؤ لیکن وکٹ پر تو رکو۔ کھلاڑیوں کو یہ بات کس نے بتانی تھی کہ جب پریشر ہو اور دوسری جانب سے سکور نہ بنانے دیا جا رہا ہو تو اس وقت وکٹیں بچانے اور چھوٹی ہٹیں لگا کر سنگل اور ڈبل سکور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی مناسب ہدایت نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کی وکٹیں ایک کے بعد ایک گرتی رہیں اور ہم کچھ بھی نہ کر سکے۔
پریشر کی بھی سن لیجیے۔ کرکٹ کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ بھارتی ٹیم کا پریشر ہونے کی وجہ سے پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی۔ میں یہ کہوں گا کہ خالی ہمارے کھلاڑی ہی پریشر میں نہیں ہوتے بلکہ بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں پر بھی اتنا ہی پریشر ہوتا ہے۔ جس طرح وہ اپنے پریشر کو مینج کرتے اور بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں ویسے ہی ہمارے کھلاڑیوں کو بھی پریشر کو مینج کرنا آنا چاہیے۔ اس حقیقت کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارے کھلاڑی پوری تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں نہیں اترتے‘ اور انہیں دورانِ میچ بھی کوئی نہیں بتاتا کہ یہ کریں اور یہ نہ کریں۔ اس تیاری نہ ہونے کی ساری ذمہ داری کھلاڑیوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اس کیلئے سلیکٹرز سے لے کر کوچز تک سب سے باز پرس ہونی چاہیے۔ اور سب سے پہلا فیصلہ یہی ہونا چاہیے کہ جو کھلاڑی کارکردگی نہیں دکھا پا رہے‘ انہیں فارغ کر کے نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے۔
اس ساری صورت حال میں بھارت کی جانب سے کرکٹ کو سیاست زدہ کرنے کی جو مذموم کوشش مسلسل کی جا رہی ہے‘ اس کے سدباب کیلئے بھی کچھ ہونا چاہیے۔ پہلے بھارتی حکومت اپنی کھلاڑیوں کو پاکستان نہیں آنے دے رہی تھی۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ بھارتی ٹیم کے میچ نیوٹرل مقام پر کرائے جانے لگے۔ اس کے بعد اب حالات ٹاس کے بعد ہاتھ نہ ملانے اور میچ ختم ہونے کے بعد مصافحہ نہ کرنے تک پہنچ چکے ہیں‘ بلکہ اب تو اس سے آگے بڑھتے ہوئے ٹرافی وصول نہ کرنے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس کے ردِ عمل میں پاکستانی کپتان نے رنر اَپ چیک وصول کر کے جو ایک طرف ڈال دیا تو ان کے اس عمل نے پاکستانی شائقین کرکٹ کو بہت محظوظ کیا ہے۔
جس طرح بھارتی حکومت فالز فلیگ آپریشن کر کے اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے دیتی ہے اسی طرح بھارتی میڈیا فیک نیوز پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی نے ایشیا کپ کی ٹرافی کے معاملے پر اپنی غلطی مانتے ہوئے بی سی سی آئی سے معافی مانگ لی ہے‘ لیکن ایشین کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی کا تازہ بیان یہ سامنے آیا ہے کہ بھارتی میڈیا غلط اور جھوٹی خبریں چلا رہا ہے‘ میں نے نہ کچھ غلط کیا اور نہ ہی کسی سے معذرت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدرکی حیثیت سے بھارت کو ٹرافی اسی دن دینا چاہتا تھا اور میں اب بھی ٹرافی دینے کو تیار ہوں اگر وہ چاہتے ہیں؛ لیکن اس کیلئے بھارتی کپتان کو اب میرے آفس آ کر ٹرافی وصول کرنا پڑے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی میڈیا کا کام صرف اپنے لوگوں کو بیوقوف بنانا ہے‘ بدقسمتی سے بھارت کرکٹ میں سیاست لے کر آیا اور کھیل کی ساکھ کو متاثر کیا۔
سوال یہ ہے کہ اس سارے سلسلے کی انتہا کیا ہے اور اس سارے عمل کا انجام کیا ہو گا؟ مجھے نظر آتا ہے کہ یہ ایشو ابھی مزید سختی اختیار کرے گا۔ حالات تقاضا یہ کر رہے ہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھارتی حکومت اور بھارتی بورڈ کے سامنے نرم نہ پڑے اور ایسے اصول وضع کرے جس کے تحت بھارت سرکار کی من مانیوں کو روکا جا سکے۔
اب ایک اور خطرے کی طرف اشارہ کرتا چلوں۔ بھارتی صحافی بوریا مجمدار نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ایشیا کپ میں شروع ہونے والا سلسلہ ویمن ورلڈ کپ میں بھی جاری رہے گا۔ ویمن ورلڈ کپ میں جو چیز تبدیل ہو گی وہ صرف جنس ہو گی‘ یعنی مردوں کے بعد اب خواتین کے مقابلے میں بھی وہی سلسلہ چلے گا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ویمن ورلڈ کپ میں پاک بھارت میچ میں وہی کچھ ہو گا جو ایشیا کپ میں ہوا۔ انہوں نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ ویمن ورلڈ کپ میں پاک بھارت میچ کے موقع پر کھلاڑی ہاتھ نہیں ملائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئی سی سی اسی طرح بے بسی کے ساتھ خاموشی سے بھارت کی من مانیوں کو دیکھتی رہے گی۔ کہیں اس معاملے پر بھارت کو ایک اور فالز فلیگ آپریشن کی ضرورت نہ پیش آ جائے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ بھارت کی جانب سے ہندوتوا کے بھرپور اظہار کے بعد کیا باقی ممالک کی ٹیمیں بھی خاموش تماشائی بنی رہیں گی یا ان کی جانب سے کوئی ردِعمل آئے گا۔ بھارت کے سینئر کرکٹ کھلاڑیوں کی جانب سے کرکٹ میں سیاست کو شامل کرنے کے عمل کی مذمت کی جا رہی ہے۔ سابق بھارتی کپتان کپل دیو نے اپنے بورڈ اور ٹیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب حکومت نے کھیلنے کی اجازت دے دی ہے تو ہاتھ ملانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ کھلاڑیوں کے دل میں اپنے ملک کیلئے جذبات ہوتے ہیں‘ لیکن ان جذبات کی وجہ سے کھیل کی روح اور سپورٹس مین سپرٹ متاثر نہیں ہونی چاہیے‘ جو بات کھیل کیلئے اچھی نہ ہو اسے ختم کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔ ایک اور بھارتی سابق کپتان اظہرالدین نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ کیا بھارتی کرکٹ بورڈ کے اربابِ بست و کشاد ان آوازوں کو سمجھ سکیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved