وہ منصوبہ سامنے آ گیا ہے جس کے تانے بانے کافی دنوں سے بُنے جا رہے تھے اور جس کیلئے امریکی صدر کی ملاقاتیں مسلم ممالک کے سربراہوں اور مقتدر شخصیات سے جاری تھیں۔ ابھی یہ منصوبہ اور اس کی تفصیلات سامنے آئے ہی تھے کہ مسلم ممالک کی طرف سے شد و مد کے ساتھ اس کی حمایت بھی سامنے آگئی۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ اردن‘ انڈونیشیا‘ ترکیہ‘ قطر‘ مصر اور پاکستان سمیت اہم ممالک نے اس کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے اور وزیراعظم پاکستان کی اس بارے میں ٹویٹ بھی سامنے آئی۔ وہ 20 نکات بھی سامنے آچکے جو اس معاہدے کی بنیاد ہوں گے۔ حماس‘ فلسطینی اتھارٹی اور ایران نے ابھی اس پر کوئی مثبت یا منفی رائے نہیں دی ہے۔ ان میں حماس کی رائے سب سے اہم ہے۔ تفصیلات اور معاہدے کے مضمرات آہستہ آہستہ سامنے آتے جائیں گے لیکن فی الحال ایسا معلوم ہورہا ہے کہ حماس‘ فلسطینی اتھارٹی‘ اسرائیل اور قریبی عرب ممالک ایک اہم موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں اور یہ مستقبل گیر فیصلہ ہو گا۔
ابتدائی طور پر یہ لگا کہ انہی 20 نکات پر تمام مسلم ملک متفق ہیں جو امریکہ نے پیش کیے ہیں۔ بعد میں جناب اسحاق ڈار کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ ہماری دستاویز نہیں لیکن ہم امریکی امن منصوبے کے حامی ہیں۔ قطر کی طرف سے بھی کم و بیش یہی بات سامنے آئی ہے کہ کئی نکات پر مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اصل معاملہ اگرچہ فلسطینیوں‘ عربوں اور مسلم ممالک کا ہے لیکن یہ مسئلہ اسرائیل کا بھی ہے۔ اور وہاں کٹر صہیونی لابی کی طرف سے ابھی سے اس پر اعتراضات شروع ہو چکے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ نیتن یاہو کو اس معاہدے کی سیاسی قیمت بھی چکانا پڑ جائے۔ اس معاہدے کا بیشتر حصہ اسرائیل کے حق میں ہے‘ بلکہ اسی کو سامنے رکھ کر نکات طے کیے گئے ہیں‘ لیکن وہ شقیں جو صہیونی گریٹر اسرائیل منصوبے کے خلاف پڑتی ہیں‘ یا غزہ اور فلسطین کو اسرائیل کی عملداری سے نکال کر برطانوی‘ امریکی یا عالمی بندوبست کے حوالے کرتی ہیں‘ کٹر صہیونیوں کیلئے قابلِ برداشت نہیں ہوں گی۔ معاہدے میں فلسطینی ریاست کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ گویا یہ اس طرح کا دو ریاستی بندوبست ہے جس میں ایک ریاست کا نام تک نہیں لیا گیا‘ لیکن فلسطینیوں‘ عربوں اور مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول بنانے کیلئے جو تعبیرات پیش کی گئی ہیں‘ وہ بھی طاقتور اسرائیلی مذہبی لابی کیلئے ہضم کرنا مشکل ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نیتن یاہو نے کہا کہ ہم فلسطینی ریاست تسلیم نہیں کریں گے اور ٹرمپ ہماری اس بات کو جانتے ہیں۔ نیز ہم غزہ کے اکثر حصے سے اپنی فوجیں بھی نہیں نکالیں گے۔ ٹرمپ سے ملاقات کے فوراً بعد اور معاہدے پر دستخط سے پہلے یہ باتیں کس لیے کہی گئی ہیں؟ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے؟ یا سیاسی طور پر خود کو اعتراضات سے بچانے کیلئے؟ جو بھی حقیقت ہو‘ نیتن یاہو کا بیان یہ واضح کر دیتا ہے کہ اسرائیل کے نزدیک دستخط ہو جانے کے بعد بھی اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ پہلے بھی متعدد معاہدوں کو چاک کرکے پھینکا جا چکا ہے۔
اصل مسئلہ حماس‘ فلسطینی اتھارٹی‘ عربوں اور مسلمانوں کا ہو گا۔ اگر وہ اس معاہدے کو تسلیم کرتے ہیں تو گویا وہ اپنے اس سابقہ مؤقف سے بالکل ہٹ جاتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینی سرزمین پر ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے۔ یہ ابراہیمی معاہدے (Abraham Accord) ہی کی ایک شکل ہے۔ یہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کا وہی طریقہ ہے جو بار بار امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020ء میں جو فارمولا پیش کیا تھا‘ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ وہی بیانیہ ہے جو بنیادی طور پر فلسطین اور غزہ میں امن قائم کرنے اور حقوق دینے کیلئے نہیں بلکہ اسرائیل کو جواز فراہم کرنے اور آئندہ خطرات سے ممکنہ حد تک محفوظ رکھنے کا منصوبہ ہے۔ پورے منصوبے کو پڑھ لیجیے‘ اس میں غزہ سمیت تمام فلسطینیوں کی برابری اسرائیل کے ساتھ کہیں نظر نہیں آئے گی۔ حماس کا نام لے کر یا اس کی آڑ میں فلسطینی زمین پر یا تو اسرائیلی تسلط کی بات ہے یا مغربی ممالک کی یا عالمی برادری کی۔ (یہ عالمی برادری بھی جن افراد پر مشتمل ہو گی‘ اس کا سب کو اندازہ ہے)۔ اگر کوئی اس عمل دخل میں شریک نہیں تو وہ فلسطینی ہیں۔ کیسا ظلم ہے کہ فلسطین کے بارے میں فیصلے ہو رہے ہیں اور غزہ کے لوگ اس میں شامل نہیں۔
پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک کا مؤقف ہمیشہ سے یہی تھا کہ 1967ء کی سرحدوں کے مطابق دو ریاستی حل ہو جس میں فلسطینی ریاست کا دارالحکومت یروشلم ہو۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا‘ سفارتی تعلقات بھی نہیں رکھے اور تجارتی رابطے بھی نہیں بنائے۔ موجودہ 20 نکاتی منصوبے میں اسرائیلی اور فلسطینی ریاستوں کی سرحدیں کہیں بھی واضح نہیں‘ بلکہ اس میں فلسطینی ریاست کا ذکر تک نہیں ہے۔ ایسے میں مسلم ممالک خاص طور پر پاکستان کا اس معاہدے کی تائید میں آجانا سمجھ نہیں آتا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ترکیہ‘ انڈونیشیا اور سعودی عرب نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بات چیت بہت مدت سے چل رہی ہو گی۔ ان اہم اور بڑے مسلم ممالک کو اس منصوبے میں کیا نظر آیا ہو گا؟ اتنی مدت تک امریکی اور مغربی دباؤ کا سامنا کرنے والے ملک خاص طور پر پاکستان اور ترکیہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں کیوں آگئے؟ یہ سمجھ نہیں آتا‘ سوائے ان زمینی حقائق کے جن کا ذکر لازمی ہے۔
زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ اگر اس منصوبے کو قبول نہیں کیا جاتا تو پھر حماس اور فلسطینیوں کیلئے کیا راستہ اور کیا مستقبل ہے؟ اگر اس معاہدے کو رد کر دیا جاتا ہے جس کی حمایت میں مسلم ممالک بھی کھڑے ہیں تو جو بچا کھچا واجبی سا سہارا ہے وہ بھی گیا۔ یہ واضح ہے کہ پھر اسرائیل کی بربریت کو ایک اور جواز مل جائے گا۔ حماس میں اب کتنی سکت ہو گی کہ وہ مزید قربانیاں دے سکے؟ غزہ کی لگ بھگ 20 لاکھ کی آبادی میں 66 ہزار کے قریب تو شہید ہو چکے۔ ہزاروں زخمی اور معذور ہیں‘ لیکن اس کے باوجود لاکھوں تو اب بھی باقی ہیں۔ کیا اب ان لاکھوں نہتوں کو بھی اسرائیل کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟ کیا ان لاکھوں کو بچانے کا کوئی بندوبست ہے؟ ان کی مدد کو کون آ سکے گا؟ کوئی عرب ملک‘ کوئی مسلم ملک‘ کوئی غیرجانبدار ملک‘ کوئی ہمسایہ ملک؟ آپ مسلم امہ کا حال دیکھ ہی رہے ہیں۔ اب تک کس نے کچھ ہمت کی جو آئندہ کر سکے گا۔ یہ خوش فہمی ہو گی کہ آئندہ کسی ملک میں کوئی حمیت بیدار ہو جائے گی۔ کون بھیجے گا انہیں غذائی امداد‘ ادویات‘ پانی اور زندہ رہنے کی کوئی بھی سبیل؟ کیا فلوٹیلا بھیجے جاتے رہیں گے جنہیں اسرائیل ہر قانون اور ضابطے توڑ کر شہید کرتا رہے گا؟ تباہ کرتا رہے گا‘ قیدی بناتا رہے گا؟ دنیا بھر کی سول سوسائٹیز اکٹھی بھی ہو جائیں‘ سینکڑوں میل لمبے جلوس اور ریلیاں بھی نکال لیں‘ کیا کسی ایک بچے کو بھوک سے مرنے سے بچا سکتی ہیں؟ اب تک بچا سکی ہیں؟ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اللہ کے سو ان کا کوئی آسرا نہیں رہ گیا۔ حماس کے کتنے جنگجو بچے ہوں گے اب جو غزہ میں موجود ہوں؟ وہ کسی اور کی کیا‘ خود اپنی حفاظت بھی کر سکیں گے؟ یہ بھی ایک معجزہ ہی لگتا ہے کہ اب تک انہوں نے یرغمالی چھپا کر رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیل اور امریکہ اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور جاسوسی نظام کے ہوتے ہوئے انہیں بازیاب نہیں کرا سکے۔ اس وقت اگر کوئی چیز اسرائیل کو کسی حد تک مجبور کیے ہوئے ہے تو وہ یہی یرغمالی ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑا سوال ہے کہ حماس کتنے دن تک ان یرغمالیوں کو اپنے پاس رکھ سکتی ہے؟
جذباتی باتیں اپنی جگہ‘ دکھ اور تکلیف اپنی جگہ‘ دو زمینی حقائق اپنی جگہ ہیں۔ اول یہ کہ یہ منصوبہ معاہدہ نہیں بلکہ طاقتور کا کمزور کیلئے حکم نامہ ہے۔ دوسرا یہ کہ کمزورکے لیے دونوں طرف کھائیاں ہیں۔ اسے اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ کس کھائی کا انتخاب کرتا ہے۔ پوچھا جا رہا ہے کہ قتل ہونے کے لیے کون سا ہتھیار پسند کرو گے؟ خنجر یا تلوار؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved