غزہ کی جنگ اگر فوری طور پر بند نہ ہوئی تو چار دن بعد اسے شروع ہوئے پورے دو سال ہو جائیں گے۔ میری خواہش‘ اور ان سطور کو رقم کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ آپ کی رائے‘ جذبات اور فلسطینیوں کیلئے نیک خواہشات اور دعائوں کا رخ فوری جنگ بندی کی طرف موڑا جائے۔ یہ اُن مظلوموں سے کوئی پوچھے یا اُن سینکڑوں فلسطینی صحافیوں سے‘ جو جان کی بازی لگا کر وہاں کے حالات سے دنیا کو باخبر رکھ رہے ہیں کہ شیر خوار بچے بھوکی مائوں اور لاغر عورتوں اور مردوں کے سامنے کس طرح بلک بلک کر دم توڑ رہے ہیں۔ ایسی ظالمانہ‘ یکطرفہ نسل کُشی جدید دور میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ البتہ وہ زمانے ذہن میں آتے ہیں کہ جب وسطی ایشیا سے جنگجو دنیا کو تاراج کرتے ہوئے اپنی اپنی سلطنتوں کو وسعت دینے کیلئے یلغار کر رہے تھے تو شہروں کے شہر اجاڑ دیتے‘ کسی کو زندہ نہ چھوڑتے۔ اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی اس پیمانے پر نسل کُشی اور شہری آبادی کی تباہی کے ایسے مناظر کبھی پہلے نہ دیکھے تھے۔ ان کی اپنے آبائی علاقوں‘ بستیوں‘ قصبوں اور شہروں سے جلاوطنی کی داستانیں جو صہیونیوں نے اپنی ناجائز ریاست قائم کرنے کے وقت رقم کی تھیں‘ وہ آج کی بربریت سے کم نہ تھیں‘ مگر ایک محدود اور محصور علاقے میں اس قدر بمباری‘ قتل وغارت اور کئی قسم کے جدید اسلحے کا استعمال پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ گزشتہ دو سالوں سے اس جنگ کے مناظر میرے لیے تو ناقابلِ برداشت ہیں۔ اتنی ہمت نہیں کہ آنکھ کھول کر نہتی انسانی آبادیوں پر ایسا ظلم دیکھ سکوں۔ بڑی حد تک خبریں دیکھنا ہی بند کر رکھی ہیں‘ صرف بڑے اخبارات میں رپورٹس پڑھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ اس دوران دل کو اگر کچھ تقویت ملی تو وہ یورپی ممالک اور امریکہ کی جامعات میں طلبہ کا احتجاج اور مغربی معاشروں میں غزہ میں امن اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند ہونے سے ملی۔ سینکڑوں طلبہ کو اپنی اسناد اور تعلیم سے محروم ہونا پڑا اور کئی اساتذہ کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔ فلسطینیوں نے اپنے خون سے دنیا کے ضمیر کو ایک مرتبہ پھر سرخ کر دیا ہے۔
دوسری طرف مسلم دنیا کے اتحاد کے ہمارے بڑے بڑے ٹھیکے دار اور ہمیشہ عسکریت پسندی پر اکسانے والے نامور سیاسی کھلاڑی بیان بازی اور کھوکھلی دھمکیوں سے پتا نہیں کسے ڈرا تے رہے ہیں۔ مسلم ممالک ہوں یا عرب سربراہانِ مملکت‘ غزہ کے حالات سے رنجیدہ تو ضرور نظر آتے ہیں۔ انہوں نے حتی المقدور اپنے گھوڑے بھی ادھر اُدھرضرور دوڑائے ہیں‘ مگر ان کا وہ اثر نہ پیدا ہو سکا جو اُن کی معاشی طاقت‘ وسائل‘ ریاستوں کی تعداد اور آبادی کی گنتی سے بنتا ہے۔ طاقت کے وسائل کچھ اور بھی ہیں‘ جو نہ سب جمع کر سکے اور نہ عالمی حالات کے جبر کے پیش نظر وہ جمع کرنے کی ابھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو اصل مسئلے کی نشان دہی کر دوں۔ وہ ہے حماس کا کردار اور اس کا ایسی جنگ میں کودنا جس کیلئے اس نے فلسطینیوں کی دیگر قیادت‘ جماعتوں اور اپنے علاقائی خیر خواہوں کو اعتماد میں لینے کی زحمت بھی نہ کی۔ فلسطینی اپنی مزاحمت کا جو بھی راستہ اختیار کریں‘ یہ ان کا حق ہے۔ لیکن ہم بھی ان کیلئے کامیابی‘ اپنی ریاست‘ باہمی اتحاد‘ امن‘ سلامتی اور خوشحالی کے خواب دیکھتے ہیں۔ انہیں تکلیف پہنچتی ہے تو ہم بھی بے چین رہتے ہیں۔ میرے خیال میں حماس فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ چلتی تو بہتر تھا۔ انہیں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی بنیادی وجہ نظریاتی تھی۔ اب بھی الفتح جماعت کے لوگ لبرل‘ زیادہ تر سیکولر اور کثیر المذاہب گروہ ہیں‘ جو فلسطینی قومیت پرستی پر یقین رکھتے ہیں۔ حماس بھی فلسطینی ہے‘ مگر اس کے چارٹر اور اس کے بانیوں کے نظریات کو دیکھیں تو وہ کسی بھی صورت اسرائیلی ریاست کے ساتھ کم ازکم اس چارٹر کی زبان کے اعتبار سے کوئی سمجھوتا کرنے کے حق میں نہیں۔ ان کی نظریاتی انفرادیت انہیں مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے دیگر مسلم ممالک میں اسلامی تحریکوں سے جوڑتی ہے۔ یہاں جو بھی آوازیں حماس کے حق میں اٹھیں‘ جلسے جلوس نکلے‘ آج وہ جو مجوزہ امن معاہدے کے خلاف بیان داغ رہے ہیں‘ یہ سب ایک ہی نظریاتی قبیلے سے منسلک ہیں۔ عرب ممالک میں اب کوئی بھی ایسا نہیں رہا جو نظریاتی طور پر حماس کے حق میں ہو۔ یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کئی بار حماس کو ہتھیار ڈالنے کی درخواست کی۔ اس کی وجہ نسل کُشی کو روکنا اور غزہ میں فلسطینیوں کو روزانہ کی بمباری سے نجات دلانا تھا۔
یہ سطور لکھنے سے پہلے اپنے دوست اور کرم فرما ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کا ٹی وی پر تبصرہ سن رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ امن معاہدہ مثبت اور موجودہ حالات میں مثالی ہے۔ میں بھی اس مؤقف کی تائید کرتا ہوں۔ ہمیں جو چیز اس امن معاہدے میں نظر آ رہی ہے‘ وہ فوری جنگ بندی‘ امداد کی فراہمی اور اسرائیلی فوج کی مرحلہ وار واپسی ہے۔ امن قائم ہونا اس وقت اہم ترین انسانی ضرورت ہے۔ اس سے صرف کوئی شقی القلب ہی صرفِ نظر کر سکتا ہے‘ یا وہ نظریاتی جنگجو جو اپنی موہوم فتح کیلئے غزہ کی پوری آبادی کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ ہمارے ایک بڑے مذہبی سیاستدان چند دن پہلے کیمروں کے سامنے گرج رہے تھے کہ مسلم ممالک کو یہ معاہدہ رد کر دینا چاہیے‘ اس لیے کہ حماس اس میں شریک نہیں۔ ہم ان کی خدمت میں دست بستہ عرض ہی کر سکتے ہیں کہ حماس کو فی الحال خیرباد کہیں‘ بس آپ ان کی سلامتی کی دعا کرتے رہیں۔ دو تین دن رہ گئے ہیں جو فیصلہ کریں گے کہ کیا حماس جان کی امان پا کر اس خطے سے رخصت ہوتی ہے یا پھر اسرائیلی نسل کُشی جاری رہتی ہے۔
اب پہلی مرتبہ مجھے امید کی کرن نظر آ رہی ہے کہ حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان پھنسے ہوئے لاکھوں بے گھر‘ بے سرو سامان‘ بھوکے پیاسے فلسطینی امن پا سکیں گے۔ منصوبے کے مطابق اب وہاں نہ اسرائیلی ہوں گے نہ حماس۔ کچھ عرصہ کیلئے ایک اور اتھارٹی وہاں وجود میں آئے گی۔ شنید ہے کہ اس کی قیادت ٹونی بلیئر کریں گے۔ کئی مسلم ممالک وہاں امن قائم کرنے کیلئے فوجیں بھی روانہ کریں گے‘ اور اس طرح تعمیر اور بحالی کا مشکل اور طویل دور شروع ہو گا۔
امن اور سلامتی کے فیصلے جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں‘ معروضی حالات کے تناظر میں کیے جاتے ہیں۔ کچھ مسلم ممالک کی قیادت کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مل کر اور انفرادی طور پر کچھ نہ کچھ اثر ڈالا ہے‘ اور امریکی صدر کو اس معاہدے پر آمادہ کیا ہے۔ امن معاہدے سے فلسطینیوں کی اپنی ریاست تو ابھی قائم نہیں ہو سکے گی‘ مگر اس کی طرف راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اس کیلئے موجودہ فلسطینی اتھارٹی‘ جو مغربی کنارے پر قائم ہے‘ اس میں فعالیت‘ اصلاحات اور مزید ریاستی استعداد پیدا کرنے کی بھی ضرورت پڑے گی۔ وہ اس حالت میں غزہ میں امن‘ بحالی اور تعمیر کا کام نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں بین الاقوامی برادری اور امیر عرب ممالک کو وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ بندی کے ساتھ تعمیرِ نو کے کام میں دل کھول کر حصہ ڈالنا چاہیے۔ معاشی‘ انتظامی اور سیاسی تعمیر کے بعد ہی کوئی ایسا موقع آ سکے گاجب فلسطینی سیاسی طور پر یکجا ہوں گے اور وہ ایک آزاد ریاست کی طرف کوئی قدم اٹھا سکیں گے۔ ابھی تو اس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ جنگ بندی ہو جائے‘ محاصرہ ختم ہو اور انسانی بقا کے اسباب‘ خوراک‘ ادویات اور پانی مہیا ہوں۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ حماس کی قیادت کیا فیصلہ کرتی ہے‘ مگر جو بھی کرے‘ اس کا مستقبل مجھے کہیں نظر نہیں آ رہا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved