تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     03-10-2025

غزہ‘ کہیں تو مل مجھے اے گمشدہ خدا میرے!

صرف ایک میں ہی نہیں‘ نو شتۂ دیوار کو بہت سے دوسرے لوگ بھی پڑھ رہے تھے‘ لیکن فلسطین کے حق میں اور صہیونی مظالم کے خلاف بولنے میں جس قدر کنجوسی مذہبی کارڈ کھیلنے والے سیاست کاروں کی ہے‘ اس کی مثال دنیا کے کسی اور خطے سے شاید ہی مل سکے۔ ہماری طرح کا کنٹرولڈ خلیجی میڈیا ٹرمپ پلان کی تعریف سے شروع ہوتا ہے اور توصیف پہ بلیٹن ختم کرتا ہے۔ وجوہات میں جانا ضروری نہیں لیکن عرب دنیا کا وہ سوشل میڈیا جس نے بُوعزیزی کے ساتھ ظلم کے نتیجے میں بہارِ عرب جیسا انقلاب برپا کر دکھایا‘ اس کا مؤقف آزادانہ تھا۔
اسی صفحے پر 26 ستمبر 2025ء کو شائع ہونے والے وکالت نامہ (بگرام‘ امریکہ اور مائنس فلسطین) میں جو امریکہ نے کیا اس کی پیش گوئی میں نے کردی تھی۔ اس کے ساتھ ہی 'بابر اعوان آفیشل‘ پر 21 منٹ کی وڈیو میں بھی میں نے انکشاف کیا تھا۔ ٹرمپ نے جن مسلم ملکوں کو اپنی خدمت میں حاضری کیلئے بلایا تھا‘ ان کے وفود اٹھے تو ایک عدد 21 نکاتی چِٹ ان کو پکڑائی گئی۔ کئی دن بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ پلان پبلک ہوا جس کیلئے وائٹ ہاؤس میں غزہ قتلِ عام کے سب سے بڑے مجرم نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہم رکاب آئے اور مشترکہ پریس سے خطاب کیا۔ اس وقت تک پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور وزیراعظم ہاؤس سمیت سارے خاموش رہے‘ جب تک 20 نکاتی پلان کا اعلان امریکہ سے نہیں ہوا۔ قوم کو اس پلان کے بارے میں حکومت نے ایک لفظ نہیں بتایا تھا۔ صدر ٹرمپ کی محبت میں واری واری جانے والے ہمارے نظام کے کارندے وائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں موجود نہیں تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے صدرِ امریکہ کو قیمتی معدنیات دکھاتے ہوئے وزارتِ خارجہ غائب تھی۔ 20نکاتی غزہ پلان کے حق میں پہلا خیرمقدمی بیان ہمارے فارم 47والے وزیراعظم نے جاری کیا‘ حالانکہ ابھی اس پلان کا بینی فشری اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اس معاملے پر بولا ہی نہیں تھا۔ غزہ کے بارے میں قوم کے ساتھ ڈرامے بازی کی حد تب ہوئی جب ٹرمپ کے حق میں توصیفی بیان دینے والے نے ٹرمپ کا نام چھ مرتبہ لیا۔ لیکن قبلۂ اوّل القدس شریف کی آزادی کا نام ایک مرتبہ بھی لینے کی سعادت سے محروم رہا۔ خوشامد سوپ سیریل یہیں نہیں رکی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی وزارتِ خارجہ سے پہلے غزہ پلان کے حق میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے آفیشل مؤقف پریس کانفرنس میں بیان کردیا‘ جس میں غیرمشروط سرنڈر کو حق کی فتح کا نام دیا۔ ان دونوں بیانات کے بعد پاکستان کے آلٹرنیٹ میڈیا اور سنجیدہ حلقوں میں بڑے پیمانے پر بجا طور پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اس جائز تشویش کا باعث بننے والے حالات و واقعات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
پہلا واقعہ‘ حکومت نے ابراہم اکارڈ کیلئے ہائی جمپ کیوں لگایا: واقعات کے مطابق تین دن پہلے جب پاکستان کا وزیرِ خارجہ ٹرمپ غزہ پلان کا دفاع کرنے کیلئے ''مقدس ترین‘‘ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہا تھا‘ اس وقت تک امریکہ کے سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو نے بھی پریس کانفرنس نہیں کی تھی۔ مارکو روبیو کی نااہلی دیکھیے‘ اس نے ٹرمپ کے حق میں اس قدر فصیح و بلیغ‘ تابعدارانہ اور بقولِ اسحاق ڈار‘ رب کو راضی کرنے والی پریس کانفرنس نہیں کی جتنی پاکستان سے جیٹ سپیڈ پر ٹیلی کاسٹ ہوئی۔ ان حرکتوں سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان یا کوئی کالونی ہے یا امریکہ کی ڈیگو گارشیا جیسی سٹیلمنٹ ہے‘ جہاں صبح سے شام تک ٹرمپ اور غیر منتخب خواتین و حضرات کے چھکے لگتے رہتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ جہاں اصل چھکا مارنے کا وقت آیا وہاں بھارت کے مقابلے میں ایشیا کپ میں ہم چھکے چھوٹنے کی ہیٹرک بنا ڈالتے ہیں۔ ڈار کانفرنس سے لگ رہا تھا کہ مارکو روبیو کی نوکری جانے والی ہے۔
آئیے! اس پہ ایک دوسرے پہلو سے بھی نظر ڈالتے ہیں۔ جس وقت پاکستان میں ڈار کانفرنس چل رہی تھی‘ عین اسی وقت قطر‘ جو ہمارے کسی بڑے شہر سے آبادی اور رقبے کے لحاظ سے چھوٹا سا ملک ہے‘ اس کے وزیراعظم نے بھی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ہمارے فارم 47 رجیم کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کی شان میں یہ ایک گستاخانہ حرکت ہو سکتی ہے کیونکہ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم بن جبر الثانی نے کہا کہ غزہ کے مستقبل پر ٹرمپ کا 20 نکاتی ڈیل پیپر حرفِ آخر نہیں ہے۔ نہ تو اس کی تفصیلات ابھی طے ہوئی ہیں اور نہ ہی ہم نے اس کی حرف بہ حرف منظوری دی ہے۔ ٹرمپ کا ڈیل پیپر پہلے غزہ کے اصل نمائندوں حماس کی لیڈر شپ کے پاس جائے گا۔ جو بھی جواب حماس دے گا‘ اس کی روشنی میں آئندہ لائحہ عمل بنے گا۔ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم بن جبر الثانی وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے اس سے پہلے بھی صدر ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تب‘ جب قطر پر حملے کے بارے میں صدر ٹرمپ نے بیان جاری کیا کہ حملے سے پہلے ہم نے قطر کی حکومت کو آگاہ کر دیا تھا۔ جس کے جواب میں قطری وزیراعظم نے عالمی میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا یہ بیان بالکل غلط ہے۔ ہمیں ایک امریکی اہلکار (مارکو روبیو) نے حملے کی اطلاع حملے کے 16 منٹ بعد دی۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان فلسطین بنام اسرائیل تنازع کے ایک فریق یعنی فلسطینی عوام اور حماس کے مزاحمت کاروں کو کسی بھی بین الاقوامی معاہدے سے باہر رکھنے کا فیصلہ کس حیثیت میں اور کس اختیار کے ساتھ کر سکتا ہے؟ اسی حوالے سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا حماس یا فلسطین نے اس ثالثی کیلئے پاکستان کو اتھارٹی جاری کیا۔ اگر نہیں‘ یقینا نہیں‘ تو پھر ہمارے کچھ نادان دوست ٹرمپ کے عشق میں تگنی کا ناچ کیوں ناچ رہے ہیں۔
دوسرا واقعہ‘ پاکستان کی ریاست کا فیصلہ کرنے کا آئینی طریقہ کیا ہے: غزہ پیس پلان ایک نازک معاملہ ہے اور پاکستان کے مسلمانوں کیلئے ایک انتہائی جذباتی بھی۔ اس پر قائداعظم کے زمانے سے اختیار کیے گئے قومی مؤقف میں کسی طرح کی غفلت یا سودے بازی کا عنصر یا کوئی بھی بیرونی دباؤ قوم کسی طرح بھی برداشت نہیں کرے گی۔ قبلۂ اوّل القدس کی آزادی اور فلسطینی ریاست پاکستان کے طے شدہ قومی معاملات ہیں۔ ہر طرح کی پارٹی لائن‘ گروہی اور فروعی سیاست سے بالاتر۔ ان کو چھیڑنے کیلئے ڈار کانفرنس سے ڈالر والا بیان یاد آتا ہے ''اگر میں ڈالر سو روپے سے نیچے نہ لایا تو میرا نام بدل دینا‘‘۔ یہ پریس کانفرنس عین اسی طرح تھی جیسے اس فارم 47 رجیم کے ایک کارپرداز نے کہا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ وہ ایس ایچ او بذریعہ روانڈا‘ برونڈی‘ ٹمبکٹو‘ مڈغاسکر بلوچستان پہنچ کر امن و امان قائم کرے گا؟ ایس ایچ او کو بھیجیں نا۔ 25کروڑ لوگ جن میں سے آدھے غربت کی لکیر سے نیچے لڑھک چکے ہیں‘ وہاں یہ واحد معاملہ ہے جس پر ایسا لاوا پھٹے گا کہ فلسطین کا سودا کرنے والوں کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔
غزہ کے بچے‘ مائیں‘ بزرگ اور جوان کوہِ ندا سے پکارتے ہیں:
فگار پاؤں مرے‘ اشک نارسا میرے
کہیں تو مل مجھے اے گمشدہ خدا میرے
میں شمع کُشتہ بھی تھا‘ صبح کی نوید بھی تھا
شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے
سفر بھی میں تھا‘ مسافر بھی میں تھا‘ راہ بھی میں
کوئی نہیں تھا! کئی کوس ماسوا میرے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved