تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     03-10-2025

لڈو‘ برفی اور گلاب جامن

ایک طرف موضوعات کے انبار ہیں تو دوسری طرف الفاظ ہاتھ جوڑے دکھائی دیتے ہیں‘ گویا التجا کر رہے ہوں کہ خدارا ہمیں اس تماشے سے دور ہی رکھیں‘ ہم اظہار سے قاصر ہی نہیں بلکہ نادم و شرمسار بھی ہیں۔ کئی وزرا عمران خان کے مشیروں اور وزیروں کی روش پہ چل نکلے ہیں۔ کہیں عقل کا فقدان دکھائی دیتا ہے تو کہیں ویژن اور خیال کی آمدن کے بغیر الفاظ کی بے دریغ فضول خرچی جاری ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کئی ماہ سے اس میراتھن میں آگے اور بدستور دیوانہ وار بھاگے چلے جارہے ہیں۔ ان کے ایک قریبی سرکاری بابو کی گرفتاری کیا ہوئی‘ وہ حکومت کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دے رہے‘ خدا جانے وہ کسی کیفیت کا شکار ہیں یا حکومت کیلئے کوئی آزمائش بننے جا رہے ہیں۔ بیوروکریسی کے خلاف کرپشن کا ''لاؤڈ اینڈ کلیئر‘‘ حکم دینے سے لے کر اقوامِ متحدہ میں شمع جونیجو کی موجودگی کو جس مہارت سے انہوں نے متنازع بنایا ہے‘ شاید اپوزیشن اور بدترین مخالفین بھی یہ لنکا اس طرح نہ ڈھا پاتے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ مہدی حسن کے انٹرویو میں چاروں خانے چِت ہونے کے باوجود مزید سبکی اور جگ ہنسائی کیلئے کوشاں اور پُرعزم ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ وزیراعظم شہباز شریف اتحادیوں کو بمشکل ایک پیج پر لاتے ہیں تو حکومتِ پنجاب سبھی کو واپس اپنے اپنے پیج پر لاکھڑا کرتی ہے۔ شراکت کی ہانڈی جہاں پریشر ککر بن کر پھٹنے کو ہے‘ وہاں پیپلز پارٹی اس لفظی جنگ میں بھرپور تیاری کے ساتھ معرکہ آرائی پر آمادہ ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں مناظرے کا سماں ہے تو سیاسی دھوبی گھاٹ پر گندے کپڑوں کی دھلائی اور ایک دوسرے پر چھینٹے اُڑانے کا مقابلہ زوروں پر ہے۔
کرکٹ ٹیم کی بھارت کے ہاتھوں شرمناک دھلائی کے بعد یہ عقدہ مزید کھل چکا ہے کہ پرچیوں پر کھلائے جانے والے اسی طرح ملک و قوم کے وقار سے کھیلتے رہیں گے۔ اس کھیل میں کون کہاں کھیل رہا ہے اور کیا کیا گُل کھلا رہا ہے‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ شاخوں پر بیٹھے جا بجا الوؤں نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ان اجاڑوں سے ہمارا کا کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ ہم تو بس یونہی بیٹھے ہیں۔ الوؤں کے جاندار مؤقف کے بعد اَنجام گلستاں کے نقطے کسی بھی زاویے سے ملائیں تو بننے والے خاکے کے سبھی رُخ بھیانک اور ڈرا دینے والے ہیں۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اس بات پر نازاں ہیں کہ ہم نے اسرائیل سے براہِ راست کوئی معاہدہ نہیں کیا بلکہ بذریعہ امریکہ امن معاہدے کاحصہ بنے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں: ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ حماس بھی امن منصوبے کی حمایت کرے گی۔ یقین مانو یقیں نہیں آتا۔ آفرین ہے! اسحاق ڈار صاحب آپ کیسے یقین کر بیٹھے؟ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حماس نے غیرمسلح ہونے سے انکار اور ٹرمپ منصوبے میں ترمیم کا مطالبہ کر ڈالا ہے جبکہ غزہ میں مزید 46 شہادتوں کے علاوہ اسرائیلی جارحیت بدستور غضبناک ہے۔ اس معاہدے کو الٹ پلٹ کر دیکھیں یا تانے بانے ملائیں تو پورا پرچہ آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔ بھول بھلیوں اور جھانسوں میں لتھڑا ہوا یہ امن معاہدہ نہیں ہے‘ یہ ہانکنے اور گھیرنے کا وہ مسودہ ہے جسے امریکہ مسلم اُمّہ کو اپنی عینک سے پڑھوا رہا ہے۔ اس معاہدے کے نتائج اور خمیازے بہرحال آئندہ نسلوں کو عین اسی طرح بھگتنا پڑیں گے جس طرح نسلِ حاضر ماضی کی غلطیوں کو بھگت رہی ہے۔ معاہدے کی امریکی مارکیٹنگ سے ایک لطیفہ بے اختیار یاد آرہا ہے کہ: ''ایک شخص نے حلوائی کی دکان پر ایک کلو لڈو کا آرڈر دیا‘ حلوائی نے جب لڈو پیک کر کے اس کے ہاتھ میں تھمائے تو خریدار نے انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں لڈو واپس کرتے ہوئے کہا‘ اس کے بدلے مجھے ایک کلو برفی دے دیں‘ خریدار کو جب برفی دی گئی تو اس نے پھر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بدلے ایک کلو گلاب جامن دے دیں‘ گلاب جامن لینے کے بعد خریدار قیمت ادا کیے بغیر چل پڑا۔ حلوائی نے آواز دے کر اس شخص کو روکا اور کہا کہ بھئی گلاب جامن کے پیسے تو دیتے جاؤ‘ خریدار معصومیت سے بولا: کس بات کے پیسے‘ گلاب جامن تو میں نے برفی کے بدلے لیے ہیں۔ حلوائی بولا: چلو برفی کے پیسے دے دو تو اس پر خریدار نے تنک کر جواب دیا: برفی تو میں نے لڈوؤں کے بدلے لی ہے۔ زچ ہو کر حلوائی بولا: اچھا بھئی! لڈوؤں کے پیسے تو دو‘ جس پر خریدار ڈھٹائی سے بولا: لڈو تو میں نے لیے ہی نہیں‘‘۔ امن معاہدے کے انڈے بچے نکلنے کے بعد سبھی فریقوں کا حال اس حلوائی جیسا ہو سکتا ہے جسے لڈوؤں کے پیسے ملے نہ برفی کے اور نہ ہی گلاب جامن کے جبکہ مفت مٹھائی ہتھیانے والا جلد نظروں کے ساتھ ساتھ منہ بھی پھیر لے گا۔
عالمی منڈی میں امریکہ ہمیشہ بہترین خریدار ثابت ہوا ہے‘ بکنے والے اسی زعم میں بکتے چلے گئے ہیں کہ ان کا خریدار امریکہ ہے۔ ٹرمپ بہادر صدر سے پہلے ایک سوداگر ہیں‘ جو گھاٹے اور خسارے کا سودا کبھی نہیں کرتے۔ صدارتی آؤ بھگت اور خاطر داری سے لے کر واری واری جانے کے سبھی مناظر مارکیٹنگ کے وہ حربے ہیں جو بیچنے والا ہر خریدار پہ آزماتا ہے۔ امریکی صدر کے ستائشی اور تعریفی کلمات اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے فوٹو سیشن کے بدلے دے کر کیا آئے ہیں‘ ان سبھی کے عقدے کھلنا شروع ہو چکے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کا تاریخی پس منظر گواہ ہے کہ کام ختم‘ تعلق ختم۔ اس بار پھر تعلقات کے غبارے میں ایسی ہوا بھر دی گئی ہے کہ ہم پھولے نہیں سما رہے۔ عمران خان بطور وزیراعظم امریکی دورے پر گئے تو پذیرائی اور آؤ بھگت کے بعد اچانک بریکنگ نیوز جاری ہوئی کہ امریکہ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر دی‘ جسے انصاف سرکار نے تاریخ ساز سفارتی کامیابی قرار دیا‘ وطن واپس لوٹے تو ثالثی کی پیشکش کی پڑیا سے آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور کشمیریوں کی مخصوص حیثیت سلب کرنے کا صدمہ برآمد ہوا‘ گویا ثالثی کی پیشکش دراصل آرٹیکل 370 کے خاتمے کی پیشگی اطلاع تھی۔ ماضی بعید و قریب سے جڑے سبھی امریکی وعدوں اور دلاسوں کو ڈی کوڈ کریں تو سبھی کے معانی الٹ اور برعکس ہی ثابت ہوئے ہیں۔ جوں جوں امریکہ سے پینگیں بڑھ رہی ہیں‘ توں توں پیپلز پارٹی سے چھیڑ چھاڑ اور جھڑپوں میں اضافہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ لفظی جنگ کی گولا باری کی گونج ایوانوں سے نکل کر بند کمروں اور گلی محلوں تک سنائی دے رہی ہے۔ یہ حکومت کا اعتماد ہے یا پیپلز پارٹی کو یونہی ہلکے میں لیے چلے جا رہے ہیں‘ امریکی چکر میں شراکت کی ہانڈی کہیں بیچ چوراہے نہ پھوٹ جائے۔ امریکی آسرا جہاں بڑی شے ہے وہاں بُری شے بھی ہے۔ گویا: تیری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو۔ خداکرے کہ یہ اُمیدیں یونہی بندھی رہیں‘ ان کے چراغوں میں تیل باقی اور یونہی جلتا رہے جبکہ پیپلز پارٹی امریکی بیانیوں اور اسرار و رموز کو ڈی کوڈ کرنے کا ہنر بہتر جانتی ہے۔ نپی تلی چالیں چلنے کے علاوہ پنجاب سے لفظی جھڑپوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ تیل اور تیل کی دھار بھی دیکھ رہی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے مفاہمت کا ٹاسک تو سنبھال لیا ہے لیکن تمکنت اور زعم کی وجہ اگر امریکہ بہادر نہ ہوا تو اگلے چند دن میں فریقین سیز فائر کے بعد اچھے بچوں کی طرح اپنی اپنی حدود میں واپس آجائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved