تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-11-2013

نوٹ چھاپ معیشت

قدرت نے مُنہ دیا ہے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھایا یا فرمایا جائے۔ مویشیوں میں بھی اِتنا شعور تو پایا جاتا ہے کہ پیٹ بھر جانے پر مُنہ کے ذریعے پیٹ میں کچھ نہ کچھ نگلتے یا اُنڈیلتے رہنے سے اجتناب برتتے ہیں۔ لے دے کر بس اِنسان ہی ایسی مخلوق ہے کہ اگر کوئی صلاحیت ہاتھ آ جائے تو اُسے ٹھکانے لگانے کے بعد ہی سُکون کا سانس لیتا ہے! اب سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن ہی کو لیجیے۔ دُنیا بھر میں کرنسی نوٹ ضرورت کے مطابق چھاپے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ خوب جی بھر کے نوٹ چھاپ لئے جاتے ہیں۔ ضرورت کا کیا ہے، وہ تو خود بخود پیدا ہوجائے گی یا کرلی جائے گی! ضرورت ایجاد کی ماں ضرور ہوگی مگر کرنسی نوٹوں کی تو وہ اولاد ہے! عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن والوں کا بُنیادی فریضہ کرنسی نوٹ چھاپنا ہے، اُنہیں کاغذاتِ نامزدگی کے فارم اور بیلٹ پیپرز چھاپنے پر نہ لگایا جائے۔ کاغذی زر اگر زیادہ چھاپا جائے تو اُس کی گردش بڑھ جاتی ہے اور اِس کا نتیجہ زر کی قدر میں خطرناک حد تک کمی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ جب حقیقی اشیاء کی اصل مالیت سے کہیں زیادہ مالیت کے کرنسی نوٹ گردش کر رہے ہوں تو افرطِ زر (مہنگائی) کے باعث معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی ہیں۔ سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن نے اِس قدر نوٹ چھاپے ہیں کہ اب تو یہ نوٹ چھاپنے کی فیکٹری بن کر رہ گئی ہے! ایک عشرے کے دوران مشینوں کو مسلسل حرکت میں رکھ کر افراطِ زر کا عجیب طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا ہے۔ بہت کچھ ہے جو اِس طوفان کی نذر ہوگیا ہے اور ہوا جارہا ہے۔ ہم نہیں جانتے اِس مشورے کو کِس نے کِس رنگ میں لیا ہے۔ لوگ شاید یہ سمجھے ہوں کہ شیخ صاحب سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کی توقیر چاہتے ہیں۔ ہم تو یہ سمجھ پائے ہیں کہ شیخ صاحب نے بیلٹ پیپرز کی عزت کو بَٹّا لگنے سے بچایا ہے! بے تحاشا نوٹ چھاپے جانے سے کرنسی کی قدر ڈاؤن ہوگئی ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر سکیورٹی پرنٹنگ والوں کو بلدیاتی الیکشن کے لیے کاغذاتِ نامزدگی فارم اور بیلٹ پیپرز چھاپنے پر لگایا جاتا تو کرنسی نوٹوں کی چھپائی میں رخنہ پڑنے سے معیشت کو شاید تھوڑا بہت استحکام مل جاتا۔ مگر شیخ رشید صاحب بلا کے جمہوریت پسند ہیں۔ اُنہیں بیلٹ پیپر کا تقدس زیادہ عزیز تھا، معیشت کا استحکام منظور نہ تھا! معیشت کا بھلا نہ چاہ کر وہ اِسی سرزمین سیاست دان بھی ثابت ہوگئے! سیاست کے نام پر آنے والی آٹھ دس نسلوں کے لیے بہت کچھ بٹورنے کی راہ جس ووٹ کے ذریعے ہموار ہوتی ہے وہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ملتا ہے۔ پاکستانی تجربے کی روشنی میں کرنسی نوٹ جیسی بے وقعت چیز چھاپنے والی مشینوں پر بیلٹ پیپر چھاپنا ووٹ اور جمہوریت دونوں کی توہین سمجھا جائے گا! چند ہی ممالک ہیں جو نوٹ چھاپ لینے کو مالیاتی و معاشی استحکام گردانتے ہیں۔ ہم شاید ایسے ممالک کے سرخیل ہیں۔ جیسے ہی کسی معاشی بحران کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، ہمارے ہاں نوٹ چھاپنے کی مشینیں حرکت میں آجاتی ہیں۔ ناکام ملکوں کی حکومتیں جب معاملات کو سنبھالنے یا کنٹرول کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو جھٹ ایمرجنسی نافذ کردیتی ہیں۔ اِس کے سِوا اُنہیں کچھ آتا بھی تو نہیں۔ یہی حال ہماری حکومت کا ہے۔ تمام ناکامیوں کا بوجھ بے چاری کرنسی کو تنہا ڈھونا پڑتا ہے۔ کرنسی بے چاری غریب کی جورو جیسی ہوکر رہ گئی ہے جو سب کی بھابی ہوتی ہے یعنی سب کا کام اِس اکیلی جان کو کرنا پڑتا ہے! نوٹ سو کا ہو، ہزار کا یا پانچ ہزار، بے توقیری ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ نوٹ چَھپ رہے ہیں، قدر چُھپ رہی ہے! حالات ایسے ہیں کہ اب وہ دن دور دکھائی نہیں دیتا جب نوٹ چھاپنے کی مشینوں کو ٹی وی اسکرین سے منسلک کردیا جائے گا۔ جیسے ہی ٹی وی اسکرین پر معاشی بحران کی خبر چلے گی اور اُس پر تبصروں کی بھرمار شروع ہوگی، مشینیں ’’سیلف ایکٹیویشن‘‘ کے مرحلے سے گزرتے ہوئے نوٹ چھاپنا شروع کردیں گی! اِس صورت میں حکومت کی بھی جان چھوٹ جائے گی۔ کون بار بار ریکویزیشن بھیجتا پھرے؟ ایک ’’گرینڈ ریکویزیشن‘‘ کافی ہے۔ اِس کے بعد چلتے رہنا مشینوں کا چَھپ کر گردش میں رہنا نوٹوں کا کام ہے! سُنا ہے جن بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بار بار معرضِ التواء میں پڑ رہا ہے اُن کے کاغذاتِ نامزدگی بلیک میں فروخت ہوئے۔ نوٹ بے چارے رُلتے پھرتے ہیں، کوئی اُنہیں پُوچھتا نہیں۔ حکومت کی افراط پسندی نے کرنسی نوٹوں کے منہ پر کالک پوت دی ہے۔ دوسری طرف کاغذاتِ نامزدگی کے طالع کی بلندی ملاحظہ فرمائیے کہ ’’سیاسی سفید پوشی‘‘ برقرار رکھنے کے خواہش مند اُنہیں بلیک میں خریدنے پر مجبور ہوئے! مُلک عجیب راہ پر گامزن ہے۔ سبزیاں خریدنے گھر سے نکلیے تو دو تین لال نوٹ آن کی آن میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں۔ سالن میں ڈَلنے والی معمولی سبزیاں نوٹوں کو اِس طرح آنکھیں دکھاتی ہیں کہ بے چاروں کی رنگت اُڑنے لگتی ہے۔ کوئی صاحب دو تین کلو ٹماٹر خرید رہے ہوں تو لوگ گردن گھماکر دیکھتے ہیں کہ دیکھیں تو سہی، ایسا جگرا کس کا ہے! گرتی ہوئی قدر کے باعث کرنسی نوٹ گولوں کی طرح دَغ رہے ہیں اور عوام اُن کی زد میں آکر زخمی ہوئے جاتے ہیں مگر کوئی اِس حادثے کا نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا مشورہ اِس حد تک تو صائب ہے کہ سکیورٹی پرنٹنگ والوں سے چھپواکر بیلٹ پیپرز کو بے توقیر ہونے سے بچایا جائے مگر بھئی نوٹ چھاپنے کی مشینوں کو لگام دینا بھی لازم ہے۔ اِس مُنہ زور گھوڑے پر قابو نہ پایا گیا تو بہت سے معاملات کو گھاس کی طرح چبا جائے گا۔ لازم ہے کہ اُس ذہنیت کو بھی لگام دی جائے جو افراطِ زر کو ہر مسئلے کا جامع ترین حل سمجھتی ہے۔ یعنی نوٹ پر نوٹ چھاپتے رہیے اور اِس کے نتیجے میں جو آگ لگے اُس میں ہاتھ تاپتے رہیے! یہ ڈھنگ معیشت چلانے کا ہے نہ ریاست۔ بے حساب چھاپے جانے کی صورت میں پایا جانے والا کاغذی زر رات دن گردش میں ہے اور اِس اوکھلی میں قوم کا سَر ہے جس پر ہاون دستہ برس رہا ہے۔ جس سَر کے بچنے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی، یاروں کو اُس کی دستار محفوظ رکھنے کی فکر ستا رہی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved