جس ملک میں عام آدمی کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہو رہا ہو وہاں پر جانوروں کے بارے میں لکھنا کارِ بے کار کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس لحاظ سے آج کا کالم بھی سوائے کارِ بے کار کے اور کچھ نہیں۔ لیکن جہاں ہم بحیثیت قوم 78سال سے مسلسل کارِ بے کار میں مصروف ہیں تو اگر یہ قلمکار چار چھ روز کے بعد کوئی نیا کارِ بے کار چھیڑ بیٹھتا ہے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ قوم کے لیڈر‘ مصلح‘ حکمران‘ ادارے اور پالیسی ساز سب کے سب اسی شغل میں مصروف ہیں تو اس بہتی گنگا میں اگر یہ فقیر بھی کبھی کبھار ہاتھ دھو لیتا ہے تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ سو آج کے کالم کو اگر آپ کارِ بے کار کے خانے میں فٹ کر دیں تو آپ کو اس کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ مجھے آپ کے ایسا کرنے سے خوشی ہو گی کہ آپ مجھ سے متفق ہیں۔ تاہم بعض ناقدین کی متوقع تنقید سے بچنے کیلئے میں اس کارِ بے کار قسم کے کالم کو تھوڑا بہتر کرنے یا کم بے کار کرنے کی غرض سے مقصود وفا کے چند اشعار شامل کر رہا ہوں۔ ان اشعار کی بدولت اس کالم کی توقیر بڑھ جائے گی اور یہ پوری طرح کارِ بے کار ہونے سے بچ جائے گا۔
کارِ بے کار سے آگے کا قدم لیتا ہوں
جو بناتا ہوں اسے توڑ کے دم لیتا ہوں
اس محبت کو بہت دیر سہا ہے میں نے
اب اسے دے کے کوئی دوسرا غم لیتا ہوں
ایک دیوار پہ لٹکی ہوئی تصویروں کو
ایسے تکتا ہوں کہ پھر سانس بھی کم لیتا ہوں
سوچ کا پنچھی جب اڑان بھرتا ہے تو پھر نہ وہ کسی ضابطے کا پابند رہتا ہے اور نہ کسی قاعدے کی پیروی کرتا ہے‘ جب کالم لکھنے بیٹھا تو ذہن میں کوئی اور موضوع موجزن تھا لیکن خدا جانے کیونکر دل میں اس ملک میں شرفِ انسانی کی تذلیل کا خیال آیا۔ اس خیال سے وہ سلوک یاد آیا جو محاورتاً جانوروں سے منسوب ہے۔ جانوروں کیساتھ ہونیوالے سلوک سے جانور از خود یاد آ گئے۔ جانور یاد آئے تو اس قلمکار کی جانوروں سے محبت زقند بھر کر پچاس‘ پچپن سال پیچھے چلی گئی جب گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک دس بارہ سال کا لڑکا لاہور میں ہر چوتھے پانچویں دن چڑیا گھر جانے کی نہ صرف ضد کرتا تھا بلکہ نرم دل تائی مرحومہ اسکے شوق کے پیشِ نظر اس کا بندوبست بھی کرتی تھیں۔ ہر آٹھ دس دن بعد کوئی نہ کوئی کزن تائی جی کے حکم پر اسے چڑیا گھر لے کر جاتا اور آنے جانے کے دوران ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ کرتا کہ اس کا دل نہیں بھرتا جو ہر ہفتے وہی چڑیا گھر اور انہی جانوروں کو دیکھنے کی فرمائش کر دیتا ہے۔
بچپن رخصت ہوئے تو چھ عشرے گزر گئے ہیں مگر یہ شوق اب بھی دل میں اسی طرح جاگزیں ہے جیسا تب تھا۔ چند سال ہوئے انور مسعود صاحب کے ہمراہ امریکہ گیا تو انہیں بھی بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ ہیوسٹن کے چڑیا گھر لے گیا۔ انہوں نے اس کارِ بے کار سے بچنے کی اپنے تئیں بہت کوشش کی مگر میں نے ان کو پکڑائی نہ دی اور انہیں اپنے ساتھ چڑیا گھر لے گیا۔ وہاں سے ایک ویل چیئر لی اور انہیں اس پر بٹھا کر گھماتا رہا۔ میرا ہیوسٹن کے چڑیا گھر جانے کا بنیادی مقصد دو جانور دیکھنا تھا جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ ایک کوموڈو ڈریگن تھا جو دنیا میں خشکی پر موجود سب سے بڑی چھپکلی ہے۔ دس فٹ تک لمبا اور سو کلو گرام تک وزنی یہ ہیبت ناک جانور مکمل طور پر گوشت خور جانور ہے جو بکری اور بچھڑے وغیرہ تک سالم نگل جاتا ہے۔ یہ انڈونیشیا کے دو‘ تین جزائر میں پایا جاتا ہے اور فی الوقت معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں شامل ہے۔
دوسرا جانور ریڈ پانڈا تھا۔ یہ اپنے قریبی عزیز جائنٹ پانڈا سے سائز میں کافی چھوٹا ہوتا ہے اور شکل و صورت میں بھی اس سے خاصا مختلف ہے۔ سرخ اور سفید رنگت اور لمبی دم والا یہ جاندار اپنے سیاہ اور سفید کزن بھالو نما پانڈا کے برعکس گلہری کا رشتہ دار لگتا ہے۔ میں انور مسعود کو اپنے بچپن والے شوق اور خبط میں خواہ مخواہ ساتھ کھینچتا رہا۔ آفرین ہے ان پر کہ اس شوق سے آزاد ہونے کے باوجود وہ میرا ساتھ دیتے رہے۔ سرخ پانڈا دیکھ کر مایوسی ہوئی تاہم دل میں یہ طے کر لیا کہ اصلی والا پانڈا بھی ضرور دیکھنا ہے۔
سفید رنگ پر سیاہ دھبوں سے مزین کھال والا پانڈا اپنی ہیئت کے اعتبار سے بڑا مختلف جانور ہے۔ دونوں کان اور آنکھوں کے گرد سیاہ حاشیوں والا یہ معصوم صورت جانور چین کی پہچان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کسی بھی کونے میں موجود پانڈا چین کی ملکیت ہے۔ امریکہ کے چڑیا گھروں میں اس وقت بارہ پانڈا موجود ہیں جو چین کے بعد دنیا بھر میں پانڈا کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ جاپان میں دس‘ برطانیہ اور فرانس میں چار چار‘ دیگر سات آٹھ ممالک میں ایک یا دو پانڈا ہیں۔ اور یہ سب کے سب نہ صرف چین کی ملکیت ہیں بلکہ اس دوران ان کے پیدا ہونے والے بچے بھی چین کی ملکیت ہوتے ہیں۔ چین سے باہر بھیجے جانے والے پانڈا باقاعدہ لیز کے معاہدے کے تحت بھیجے جاتے ہیں اور لیز ختم ہونے کی صورت میں چین اپنے پانڈا واپس منگوا لیتا ہے۔ آزادی کے ساتھ جنگل میں رہنے والے پانڈا کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 1864ہے جبکہ چین میں پانڈا افزائشِ نسل مراکز اور چڑیا گھروں میں 700 جبکہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں کم و بیش 50 پانڈا موجود ہیں۔ میں نے پانڈا پہلی اور آخری بار تین سال قبل اٹلانٹا کے چڑیا گھر میں دیکھے۔ یہ چین سے دس سالہ لیز پر حاصل کیے گئے چار پانڈا تھے جن کے بارے میں سنا تھا کہ ان کی لیز کی رقم 16 ملین ڈالر سے زائد تھی۔ بعد میں ایک دوست نے بتایا کہ 2024ء میں جب ان چار پانڈا کی لیز ختم ہو گئی‘ انہیں ایک خاص فلائٹ ''FedEx Panda Express‘‘ کے ذریعے واپس چین بھیج دیا گیا۔ اس واپسی پر مجھے نیویارک کے برونکس چڑیا گھر میں موجود اپنا برفانی چیتا Leo یاد آ گیا جو 2006ء سے اس چڑیا گھر میں ہے اور ہم اسے واپس نہیں لے سکے۔
تقریباً دو ماہ کی عمر کا یہ یتیم چیتا گلگت کی نواحی وادی نلتر سے لاوارث ملا اور حیاتِ جنگلی کے محکمے نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ تب پاکستان میں برفانی چیتے کی نگہداشت اور پرداخت کیلئے کوئی مناسب بندوبست نہیں تھا‘ تب حکومتِ پاکستان اور ورلڈکنزرویشن سوسائٹی (WCS) کے درمیان ایک ایم او یو پر دستخط ہوئے جس کے تحت برفانی چیتے کا یہ بچہ برونکس زُو نیویارک میں اس شرط کے ساتھ بھیجا گیا کہ جیسے ہی پاکستان میں اس کا کوئی مناسب سنٹر بن گیا تو یہ چیتا واپس پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ بعد ازاں نلتر میں ہی WWF کے تعاون سے ایک سٹیٹ آف دی آرٹ سنٹر بن گیا۔ اس سنٹر میں اسی طرح لاوارث ملنے والا برفانی چیتے کا مادہ بچہ لایا گیا‘ جس کا نام Lovelyہے اور یہ مسافر اسے بھی دیکھ چکا ہے۔
یہ سنٹر بننے کے بعد حکومتِ پاکستان اور متعلقہ وائلڈ لائف محکموں نے امریکی چڑیا گھر کو کئی درخواستیں اور خط لکھے مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلا۔ 2015ء میں یہ معاملہ خاصی شدومد کے ساتھ اٹھایا گیا مگر لاحاصل۔ نہ صرف لیو بلکہ اس کے بچے بھی امریکہ میں ہیں اور امریکہ واپسی کے معاہدے کے باوجود واپسی سے انکاری ہے۔ ہم امریکہ کے دوست ہیں اور وہ ہمارا چیتا ہضم کیے بیٹھا ہے۔ جبکہ چین کے پانڈا طے شدہ تاریخ پر نہ صرف واپس جا چکے ہیں بلکہ ان کا کرایہ بھی ادا ہو چکا ہے۔ میری درخواست ہے کہ امن کے داعی صدر ٹرمپ سے اپنے چیتے کی واپسی کا مطالبہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہمارے پاس ایک عدد مادہ چیتا اپنے جیون ساتھی کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہے۔ ممکن ہے مادہ چیتے کا حالِ زار سن کر اس معاملے میں رقیق القلب امریکی صدر اپنے کسی ایگزیکٹو آرڈرکے ذریعے اس مسئلے کا کوئی حل نکال لیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved