صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے تبادلہ خیال کے بعد غزہ میں جنگ بندی اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے 20نکاتی اعلامیہ پڑھ کر سنایا تو پورے عالمِ اسلام میں اطمینان اور سکون کی لہر دوڑ گئی۔ آٹھ بڑے مسلمان ملکوں کے نمائندے اس سے پہلے امریکی صدر سے تفصیلی ملاقات کر چکے تھے‘ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان سے لے کر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف تک اُمید سے بھرے بیٹھے تھے۔ قطر کے حکمران بھی مسرور تھے کہ نیتن یاہو نے اُنہیں فون کر کے اسرائیلی حملے پر معذرت کا اظہار کر دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اُنہیں اپنے سامنے بٹھا کر یہ اقدام کیا تھا اور عالم ِ عرب میں اپنے سب سے قریبی حلیف کو یقین دلا گزرے تھے کہ آئندہ امریکہ اُسے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ عرب دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ دوحہ میں ہے لیکن جب وہاں حماس کے رہنمائوں کو نشانہ بنایاگیا تو امریکہ نے حملہ آور کا راستہ روکا اور نہ ہی اُس کی خاطر خواہ مرمت یا مذمت کی۔ اگرچہ مگرچہ چونکہ چنانچہ کہہ کر معاملے کو ہوا میں اڑا دیا۔ اس پر نہ صرف قطر بلکہ پورے عالمِ عرب میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ امریکہ کو اپنا چوکیدار سمجھنے والے سٹپٹا گئے۔ یہ احساس عام ہوا کہ امریکی حفاظتی چھتری پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘ اس کی موجودگی میں بھی ان کی عزت پامال کی جا سکتی ہے اور انہیں خاک بسر کیا جا سکتا ہے۔ بے یقینی اور عدم تحفظ کے اس ماحول میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ طے پا گیا۔ دونوں ملک ایک عرصے سے اس حوالے سے بات چیت میں مصروف تھے لیکن فیصلہ کُن اقدام کی گھڑی آ نہیں رہی تھی‘ اسلام آباد اور ریاض نے دنیا پر واضح کرنا مناسب جانا کہ کسی ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس وقت دنیا کے کوئی بھی دو ممالک اس طرح کے رشتے میں بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ یورپی ممالک کے درمیان نیٹو کا مضبوط معاہدہ موجود ہے جس کے مطابق کسی بھی ایک پر حملہ تمام نیٹو ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا لیکن اس طرح کا کوئی دوطرفہ معاہدہ کسی دو ممالک کے درمیان نہیں ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان نے اپنے آپ کو ایک دوسرے سے باندھا تو یہ خبریں آنے لگیں کہ خطے کے کئی دوسرے ممالک بھی اس میں شرکت کی آرزو پال رہے ہیں۔ قطر کو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ نیتن یاہو جو دوحہ پر حملہ کرنے کے بعد یہ اعلان کر گزرے تھے کہ ہم دوبارہ یہی حرکت کر سکتے ہیں‘ کان پکڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔ انہوں نے نہ صرف معذرت کی بلکہ یہ یقین بھی دلایا کہ آئندہ اس طرح کی کوئی جسارت نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ صدر ٹرمپ نے صدارتی حکم نامہ جاری کیا کہ آئندہ قطر پر حملہ کرنے والے کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے گی‘ گویا قطر پر حملہ امریکہ پر حملہ سمجھا جائے گا۔ اس سے قطر کے امیر اور وزیراعظم کو سکون آیا‘ اُنہیں اپنی عزت بحال ہوتی ہوئی محسوس ہوئی‘ بدلے ہوئے ماحول میں صدر ٹرمپ نے اپنے 20نکات پڑھ کر سنائے تو عالمِ اسلام سے بھی مبارکباد اور شکریے کے پیغامات آنا شروع ہو گئے۔ سمجھا جانے لگا کہ غزہ میں جنگ بند ہو گی‘ وہاں جاری کشت و خون رکے گا‘ بھوکے پیاسے باسیوں تک امدادی سامان پہنچے گا اور بعدازاں فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ ہموار ہوتا جائے گا۔
کچھ ہی وقت گزرا ہو گا کہ تفصیلات پر مسلمان ملکوں کے رہنماؤں میں کھد بُد ہونے لگی‘ پتہ چلا کہ بعض نکتوں کے الفاظ تبدیل کر ڈالے گئے ہیں جن سے ابہام میں اضافہ ہو سکتا ہے اور معاملے کو کسی نہ کسی مقام پر الجھایا بھی جا سکتا ہے۔ ایک ایک نکتے پر بحث شروع ہو گئی‘ اہلِ دانش دور اور نزدیک کی کوڑیاں لانے لگے‘ کئی نکتوں کو بے نقط سنائی جانے لگیں لیکن غالب اکثریت کی رائے اب بھی یہی تھی کہ معاملے کو آگے بڑھایا جائے۔ بہرقیمت جنگ بندی کرائی جائے‘غزہ کے شہریوں کو گولی اور بھوک سے بچایا جائے‘ اس کے بعد کوئی دوسرا اقدام کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ ابھی تک حماس نے اس اعلامیے (یا معاہدے) کی منظوری نہیں دی۔ صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ اس کے پاس تھوڑا وقت ہے‘ اگر اس نے ''ہاں‘‘ میں جواب نہ دیا تو پھر ''واصلِ جہنم‘‘ ہونے کے لیے تیار رہے۔ حماس کو اعتراض ہے کہ اس سے فی الفور غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ایسی کڑوی گولی ہے جسے نگلنا اس کے لیے آسان نہیں ہے لیکن یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ حماس کے متعلقین کو غیرفوجی کردار ادا کرنے سے روکا نہیں جا رہا‘ وہ اپنا حلیہ تبدیل کر کے نئی زندگی کا آغاز کر سکتے ہیں۔ فرطِ جذبات میں جو بھی شعلہ افشانی کر لی جائے یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ حماس نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا‘ اس میں فیصلہ کُن فتح حاصل نہیں کی جا سکی‘ نہ ہی یہ حاصل کرنے کی کوئی امید نظر آتی ہے۔ امریکہ پوری طاقت سے اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے اور عالمِ اسلام میں تو کیا پوری دنیا میں کوئی ملک بھی امریکہ کا براہِ راست مقابلہ کر کے اسے ناکوں چنے چبوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ دوسری بڑی عالمی طاقت چین ہے لیکن وہ تنازعات میں براہِ راست ملوث ہونے پر تیار نہیں۔ امریکہ نے گزشتہ کچھ عرصہ میں اپنے آپ کو جنگوں میں الجھا کر کھربوں ڈالر ضائع کر ڈالے ہیں جبکہ چین سائنسی اور صنعتی ترقی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے‘ وہ اپنی طاقت اور صلاحیت کو ادھر اُدھر ضائع کرنے پر تیار نہیں۔ ایسے ماحول میں عالمِ اسلام کے لیے یہی راستہ بچتا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو زیادہ سے زیادہ ہموار کرے‘ ان کی شخصیت اور مزاج سے فائدہ اٹھائے اور اسرائیلی عزائم کو ناکام بنا گزرے۔ صدر ٹرمپ ایک امن پسند صدر کے طور پر اپنا نام تاریخ میں لکھوانا چاہتے ہیں‘ ان کی نظر ''نوبیل امن انعام‘‘ پر بھی ہے‘ کئی مسلمان ملکوں کی قیادتوں سے ان کے تعلقات خوشگوار ہیں‘ سو حکمت سے انہیں اپنے حق میں راغب رکھا جائے۔ 20نکات کے اندر اور جو بھی ہو یا نہ ہو‘ غزہ پر قبضہ کرنے اور اسرائیل کی حدود کو وسیع کرنے کا منصوبہ بہرحال پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مسلمان ملکوں کی فوجیں جب غزہ پہنچ کر امن کی ضامن بنیں گی تو حالات مزید تبدیل ہو جائیں گے‘ مقامی آبادی کے حوصلے اور اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ حماس اور عالمِ اسلام کے رہنماؤں کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہو گا‘ زمینی حقائق کو دیکھے بغیر جذبات کے دریا میں کشتیاں چلائی تو جا سکتی ہیں لیکن انہیں ڈوبنے سے نہیں بچایا جا سکتا۔
پسِ نوشت: کالم لکھا جا چکا تھا کہ خبر آئی حماس نے بعض تحفظات کے ساتھ جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس کا پُرجوش خیرمقدم کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا ہے۔ وہ اُمید ظاہر کر رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے اور فریقین کے درمیان اعتماد بحال کرنے کے نئے سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ عالمِ اسلام کو اپنی اجتماعی ذہانت اور بصیرت استعمال کرتے ہوئے اس موقع کو اپنی گرفت میں لینا ہو گا۔ صدر ٹرمپ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہی ہماری اجتماعی صلاحیتوں کا بڑا امتحان ہے!!!
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved