کشمیری احتجاج نے ہمارے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ جس تصور کو نظریۂ پاکستان کہا جاتا ہے اس کے دو بنیادی ستون ہیں‘ ایک اسلام اور دوسرا کشمیر۔ اسلام کے نعرے لگتے رہیں گے لیکن آزاد کشمیر کے باسی احتجاج میں آزادی کا معنی ڈھونڈنے لگیں تو نظریات کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔ ریاستی سوچ کی بنیاد ہندوستان دشمنی ہے اور ہندوستان دشمنی کا جواز تنازع کشمیر ہے۔ کشمیری سراپأ احتجاج ہوں تو نظریات کے تمام پہلوؤں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
ہماری دفاعی سوچ کا بنیادی نکتہ تنازع کشمیر‘ خارجہ پالیسی کا سب سے اہم جزو تنازع کشمیر۔ عسکری تیاری کا جواز یہی تنازع۔ ایٹمی قوت کا حصول خطرۂ ہندوستان پر مبنی اور اس کیفیت کا گہرا تعلق کشمیر سے۔ آزاد کشمیر ہی نکتۂ احتجاج بن جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان کیلئے یہ کتنا داخلی اور بیرونی مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور کوئی عام احتجاج بھی نہیں بلکہ اتنا جامع اور ہمہ گیر کہ اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ ریاست کو بھی اس حساسیت کا احساس ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو اقدامات بلوچستان یا دیگر علاقوں میں کیے جا سکتے ہیں آزاد کشمیر میں ان کے بارے میں دس بار سوچنا پڑتا ہے۔
کشمیر کی نئی نسل بھی اس راز کو بھانپ گئی ہے کہ کشمیر کی حساسیت کی وجہ سے روایتی ریاستی ہتھکنڈے آزاد کشمیر میں مشکل ہو جاتے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ کشمیری اور احتجاج دو متضاد چیزیں نظر آتی تھیں اور آج نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ مختلف محکمے اس خاص قسم کے احتجاج کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے دستے جو آزاد کشمیر بھیجے گئے‘ انہیں خاصے سخت سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور شاید یہ ایک وجہ تھی کہ اسلام آباد پولیس کے شیردل جوان معمولی تعداد میں کشمیری‘ جو نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کی خاطر جمع ہوئے ان پر برس پڑے اور وہاں موجود صحافیوں کو بھی اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنایا۔ شاید اس دلیری کیلئے وہ اعزاز کے مستحق ہیں۔
دیکھا جائے تو آزاد کشمیر ایکشن کمیٹی کے مطالبات خاصی عجیب نوعیت کے ہیں۔ ایک بڑا مطالبہ تو یہ ہے کہ افسر شاہی سے نمائشی اور رعب داب جمانے والی مراعات واپس لی جائیں۔ افسر شاہی کا سارا نظام ایسی مراعات پر چلتا ہے اور اس حوالے سے جو ہوائیں آزاد کشمیر میں چل رہی ہیں ملک کے دیگر علاقوں میں چلنے لگیں تو یہاں کہرام مچ جائے اور نوکر شاہی کا پورا نظام مفلوج ہوکر رہ جائے۔ آزاد کشمیر میں نوعیت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہاں کی نوکر شاہی سرکاری گاڑیوں میں بیٹھنے سے پرہیز کر رہی ہے۔ سچ پوچھیے تو احتجاجی کشمیری باقی پاکستان کو خاصا ایمبیرس (Embarrass) کر رہے ہیں۔ پورے 78سال ریاستِ پاکستان کشمیریوں کی آزادی یا خود مختاری کی بات کرتی رہی اور آج کشمیر کے باسی ہم پاکستانیوں کو آزادی کا مفہوم سمجھانے نکلے ہیں۔ پاکستان کیا کم مسائل میں گھرا ہوا ہے کہ اس نئے مسئلے نے بھی سر اٹھانا تھا؟
احتجاج کی حساسیت ہی تھی جس نے وزیراعظم کو مجبور کیا کہ وزرا کا ایک بھاری بھرکم وفد مذاکرات کیلئے مظفرآباد جائے۔ ایکشن کمیٹی کے سرکردہ لوگ نئی نسل کے نمائندے لگتے ہیں کیونکہ ان کا رویہ ماضی کے رویوں سے بالکل جدا ہے۔ ایک تو انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔ ان کی کال پر پورا آزاد کشمیر بند ہو جاتا ہے۔ دوسرا اپنے مقصد میں بڑے واضح ہیں اور اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ یعنی اپنی بات منوا کے چھوڑتے ہیں اور دوسری طرف حکومتی حلقوں کے پاس اور کوئی چارا نہیں سوائے مطالبات کو تسلیم کرنے کا۔ پاکستان کا کوئی اور علاقہ ہوتا تو ایسے مطالبات کی جسارت تو کوئی کرتا۔ ہوش ٹھکانے آ جاتے لیکن جیسا کہہ چکے ہیں یہ آزاد کشمیر ہے اور ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
کتنے ہی بھلے دن تھے کہ آزاد کشمیر کے معاملات کشمیر افیئرز کی منسٹری اسلام آباد سے چلاتی تھی۔ وہاں کے انتخابات اپنی مرضی کے ہوتے تھے اور شاذ و نادر ہی کشمیر کے کسی وزیراعظم نے ریاستِ پاکستان کیلئے کوئی مسئلہ پیدا کیا۔ ویسے بھی آزاد کشمیر کے وزرائے اعظم مظفرآباد سے زیادہ اسلام آباد میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہیں ان کے بنگلے وغیرہ تھے۔ اس قماش کے لیڈر اور سیاستدان ہمارے لیے قابلِ قبول تھے۔ لیکن یہ جو ایکشن کمیٹی والے آئے ہیں یہ اور ہی ساخت کے لگتے ہیں اور انہوں نے عوامی سیاست اور احتجاج کا ایک ایسا بیج بویا ہے جو پاکستان کے باقی علاقوں کیلئے باعثِ خطرہ بن سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کے باسیوں کیلئے پاکستان ہی سب کچھ تھا اور یہاں کے حکم وہاں چلتے تھے۔ اب ان کمبخت ایکشن کمیٹی والوں کی وجہ سے پاکستان کے مختلف علاقوں سے سیاسی ورکروں کے ذہنوں میں یہ سوچ پیدا ہو سکتی ہے کہ جا کے دیکھیں تو سہی کہ ایکشن کمیٹی والوں نے عوام کو کیسے موبلائز کیا ہے۔ کہاں وہ دن کہ کشمیریوں کو بزدلی کے طعنے دیے جاتے تھے اور آج یہ کیفیت کہ سیاست کا ایک نیا باب آزاد کشمیر کی وادیوں اور پہاڑوں پر لکھا جا رہا ہے۔
اس احتجاج کی روشنی میں پاکستان کیلئے ایک اور ایمبیرسمنٹ (Embarrassment) بنی ہے کہ ایک طرف ہم سعودی عرب کے دفاع کو نکلے ہیں اور اس کے تحفظ کی باتیں ہو رہی ہیں اور یہاں یہ نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ جن کا نعرہ ہوا کرتا تھا 'کشمیر بنے گا پاکستان‘ آج ایک بالکل مختلف زبان بول رہے ہیں۔ جس دردِ سر کا سامنا ریاستِ پاکستان کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہے وہ کیا کم تھا کہ آزاد کشمیر میں اس نئی صورتحال کو پیدا ہونا تھا؟ اسلام آباد میں سفارت خانے اس ساری صورتحال کو یقینا دلچسپی سے دیکھ رہے ہوں گے۔
ہمارے حالات بھی عجیب ہیں۔ یہ بات حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ پاکستان کے حالات میں ٹھہراؤ سعودی عرب کی کسی مہربانی یا امریکی وائٹ ہاؤس کی کسی تھپکی سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ چوکیداری کے سودے کیا ہم نے پہلے کم کیے کہ آج تمام امیدیں ایک نئے بندوبست پر مرکوز ہیں؟ جہاد کے نام پر غیروں کے مفاد پورے کرتے رہے اور اپنی عقل کو داد دیتے کہ ہم کتنے سمجھدار ہیں۔ ان سودوں سے وقتی افاقہ ہوتا لیکن اصلی ترقی اور خوشحالی کے خواب چوکیداریوں سے کہاں شرمندۂ تعبیر ہوتے ہیں۔ حکیم الامت کی شاعری کو سامنے رکھیں اور قائداعظم کی قیادت کو دیکھیں۔ کیا معیار تھا اور ذہن میں کیا تصورات ہوں گے کہ نیا ملک بننے جا رہا ہے اور دنیا میں ایک مقام اس کا ہو گا۔ آج یہ حالت کہ کسی غیر ملکی وظیفے کی خبر آئے تو ریاستی اہلکار خوشی سے جھومنے لگتے ہیں۔ مانگے تانگے پر گزارا ہو تو کیا جوہری ہتھیار اور کیا دوسروں کو تحفظ دینے کی باتیں۔
کشمیری جو مراعات ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ نوکر شاہی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنا ترک کردے‘ اس مطالبے کا اصل ہدف مراعات کی تمام وہ بادشاہت ہے جو پاکستان کی آج سب سے بڑی حقیقت ہے۔ آزادکشمیر ایکشن کمیٹی نے ہماری کئی دکھتی رگوں پر انگلی رکھی ہے۔ ان کی پیدا کردہ وبا یہاں پھیلی تو سارے ڈھانچے کا ستیاناس ہو جائے گا۔ اس لیے جتنا جلدی ان کے مطالبات مانے جائیں اتنا بہتر ہو گا اور ایکشن کمیٹی کی باتیں آزاد کشمیرکے پہاڑوں تک ہی محدود رہیں گی۔ اس ضمن میں سرکار یہ عذر پیش نہ کرے کہ مناسب قانون سازی کیلئے وقت درکار ہے کیونکہ فارم 45راتوں رات فارم 47میں تبدیل ہو سکتا ہے تو ایکشن کمیٹی کے مطالبات ملتی جلتی تندہی سے کیوں نہیں منظور ہو سکتے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved