وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کی پی پی پی قیادت کے ساتھ لفظی جنگ سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ان کی گفتگو کو اگرچہ سیاسی طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاسی لوگ ایک دوسرے پر زبانی حملے کرتے رہتے ہیں اور انہیں زیادہ سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس بات میں کافی وزن بھی ہے کہ سیاسی لوگ اگر یہ باتیں نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ میرے قریبی دوست جانتے ہیں کہ میری تین سیاسی لیڈروں بارے بڑی پرانی رائے ہے کہ وہ جب بھی اقتدار میں آئیں گے تو اپنا پرانا سکور ضرور سیٹل کریں گے۔ ان تینوں کا دور مخالفوں کیلئے ہمیشہ مشکل ثابت ہو گا۔ مجھے یہ باتیں بہت پہلے لکھنی چاہیے تھیں‘ خصوصاً جب وہ تینوں پاور میں نہیں آئے تھے۔ میری ان کے بارے میں اس وقت سے یہی رائے تھی کہ جب بھی یہ اقتدار میں آئے مخالفین کیلئے ٹف ثابت ہوں گے۔ وہ تین سیاستدان عمران خان‘ مریم نواز اور بلاول بھٹو ہیں۔ ٹف کا لفظ میں نے اپنے تئیں نرم استعمال کیا ہے ورنہ میری جو رائے ہے اس کیلئے میں لکھنا کچھ اورچاہتا تھا۔ اب آپ پوچھیں گے ان تینوں میں کیا بات مشترک ہے کہ انہیں ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ؟
ان تینوں میں جو چند باتیں مشترک ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ پچھلے کئی برسوں سے سیاست اور میڈیا کی لائم لائٹ میں ہیں اور زیادہ تر منفی باتوں کی وجہ سے خبروں اور سوشل میڈیا پر چھائے رہتے ہیں اور ان کے بارے اچھی بری باتیں ہورہی ہوتی ہیں۔ ان کے بارے ایسے تبصرے ہو رہے ہوتے ہیں جو انہیں ہرگز پسند نہیں آتے ہوں گے۔ چلیں سیاسی لوگ خوش ہوتے ہیں کہ ان کے بارے عوام اور میڈیا گفتگو کرے لیکن ایک اور بات کا جو اِن تینوں نے مسلسل سامنا کیا ہے وہ ان کی کردار کُشی ہے۔ ان تینوں کو ان کے سیاسی مخالفین نے سیاست سے ایک قدم آگے جا کر ٹارگٹ کر کے ان کی ذاتی زندگی کو ہِٹ کیا ہے اور وہ بھی ایک سبب ہے جس نے مجھے ان تینوں کے بارے میں خطرناک نتائج اخذ کرنے پر مجبور کیا۔ مجھے یہاں ان تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان کو ان کے مخالفین نے 1990 ء کی دہائی میں اُس وقت سکینڈلز کا نشانہ بنایاجب انہوں نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان نے اپنی کتاب میں بھی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ کیسے ان کی ذاتی زندگی کو نواز شریف کی میڈیا ٹیم نے تباہ کیا۔ خان کے کئی سکینڈلز اخبارات کی زینت بنے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس قوم پر کبھی ان سکینڈلز کا اثر نہ ہوا اور خان کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔
میں اکثر کہتا ہوں کہ ہماری قوم کا مسئلہ اخلاقیات یا کرپشن نہیں ہے۔ اگر یہ ایشو اس قوم کیلئے اہم ہوتے تو آج نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم نہ بنتے‘ عمران خان سیاست میں داخل ہی نہیں ہوسکتے اور سب سے بڑھ کر زرداری صاحب دوسری دفعہ ملک کے صدر نہ ہوتے۔ مسئلہ وہی پرانا ہے کہ لٹیرا ہماری مرضی کا ہو پھر وہ بے شک ہند سندھ‘ دلی‘ بریلی یا راجہ بازار لوٹ لے‘ پروا نہیں۔ برائیاں صرف مخالف سیاستدان میں نظر آتی ہیں اپنے والے میں نہیں بلکہ اپنے والے کے سکینڈلز اور لوٹ مار کا جواز بھی ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔
خیر بات ہورہی تھی مریم نواز‘ عمران خان اور بلاول بھٹو کی۔ جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا وہی انہوں نے سود سمیت اپنے مخالفوں کو لوٹایا۔ انہوں نے بھی مریم نواز اور بلاول بھٹو پر ذاتی حملے کیے اور جلسوں میں بھی ایسی باتیں کیں جو شاید ایک سابق وزیراعظم کو زیب نہیں دیتی تھیں۔ لیکن جب آپ کے فالورز ایسی باتوں پر آپ کا احتساب کرنے کے بجائے واہ واہ کریں‘ نعرے ماریں اور داد دیں تو پھر کس کا دل نہیں کرے گا کہ مزید بڑھ چڑھ کر حملے کرے۔ جب عمران خان کے حامیوں سے بات ہوتی تو وہ کہتے پھر کیا ہوا یہ کام تو نواز شریف نے بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی کیا تھا۔ ان کے نزدیک عمران خان یا ان کا میڈیا سیل وہی سلوک مریم نواز کے ساتھ کررہا تھا جو مریم نواز کے والد اپنے مخالفوں کے ساتھ کرتے تھے۔ وہ تو دراصل بینظیر بھٹو کا بدلہ لے رہا تھے بلکہ اس جواز پر تو پی پی پی کا ورکر بھی جھوم اٹھتا کہ چلیں زرداری صاحب نے صلح کر لی لیکن کوئی تو ہے جو شریفوں کو ان کی زبان میں جواب دے رہا ہے۔ یوں عمران خان کو بھی پیپلز پارٹی ورکرز کی ہمدردیاں ملتی رہیں۔
اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر بلاول بھٹو پر جو مسلسل حملے عمران خان کرتے رہے انہیں کس کھاتے میں ڈالا جائے؟ چلیں مان لیں نواز شریف یا مریم نواز کے میڈیا سیل نے عمران خان کی ذاتی زندگی پر حملے کیے ہوں ( کسر عمران خان کے میڈ یا سیل نے بھی نہیں چھوڑی) لیکن دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی نے عمران خان کی فیملی یا ان کے سکینڈلز کے حوالے سے سوشل میڈیا یا ٹی وی پر بیٹھ کر مہم نہیں چلائی۔ اس کی وجہ شاید بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو تھیں جو خود جنرل ضیادور اور بعد میں اپنے سیاسی مخالفین کی مہم کا نشانہ بنیں اوربہت سے ناروا سلوک کا شکار بھی ہوئیں لیکن اس کے باوجود بلاول بھٹو عمران خان کے ذاتی حملوں سے نہیں بچ سکے۔ یوں دیکھا جائے تو تینوں ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتے آئے ہیں۔
سوشل میڈیا نے لوگوں کے اندر جہاں خاموش غصہ اور ناراضگی پیدا کی ہے وہیں دوسروں سے بدلہ اور انتقام لینے کی خواہش بھی مضبوط ہوئی ہے۔ نفرت بڑھی ہے۔ عام لوگ ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر گالی دے کر اور برا بھلا کہہ کر اپنا غصہ کم کرلیتے ہیں لیکن سیاسی لوگ یا مشہور لوگوں کے پاس یہ آپشن کم ہوتا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے کہ وہ اس زبان میں جواب دیں جو زبان ان کے خلاف استعمال کی گئی ہو۔
جب آپ عمران خان کی طرح ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہوں‘ مریم نواز کی طرح آپ کا والد ملک کا تین دفعہ وزیراعظم رہا ہو یا بلاول بھٹو‘ جس کی والدہ ملک کی دو دفعہ وزیراعظم اور والد دو دفعہ صدرِ پاکستان ہوں لیکن پھر بھی آپ کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکیں تو آپ کے اندر انتقامی جذبات کا پیدا ہونا فطری سی بات ہے۔ پھر آپ سب سے بدلہ لینا چاہتے ہیں لیکن لے نہیں پاتے۔ یوں آپ کے اندر غصہ بھرتا رہتا ہے۔ آپ کے اندر اذیت بھرتی رہتی ہے اور آپ اپنے وقت کا انتظار کرتے ہیں کہ چلیں کبھی تو اقتدار ملے گا۔ کبھی تو ہماری باری بھی آئے گی تو سب کو دیکھ لیں گے۔
یہ ذہن میں رکھیں ہم سب لوگ نیلسن منڈیلا کی بڑی تعریفیں کرتے ہیں‘ اُن کی فلاسفی یا فیصلوں کو بڑا بڑھا چڑھا کر بیان بھی کرتے ہیں لیکن جب ہم خود اس پوزیشن پر کھڑے ہوں جہاں پوری طاقت کے ساتھ نیلسن منڈیلا کھڑا تھا تو پھر ہم منڈیلا نہیں بنتے۔ پھر ہمارے اوپر انتقام اور اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے مخالفین کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا جذبہ سوار ہوجاتا ہے۔ عمران خان کو پاور ملی تو انہوں نے یہی کیا‘ چاہے میڈیا ہو یا مخالفین۔ وجہ وہی تھی کہ نواز لیگ نے ان کی ساس اور جمائما پر بھی مقدمات بنائے تھے‘ ان کی گھریلو زندگی خراب کی تھی اوراس کا ذمہ دار وہ شریف خاندان کو سمجھتے تھے۔ وزیراعظم بنے تو پورا شریف خاندان جیل میں تھا۔ میڈیا کے خلاف بھی سخت کارروائیاں کیں کہ وہ سب سکینڈلز چھاپتے تھے۔مریم نواز میں بھی وہی جارحانہ عناصر موجود ہیں جو well-left پر یقین نہیں رکھتیں بلکہ انگلیاں توڑنے پر ''یقین‘‘ رکھتی ہیں۔
عمران خان اور مریم نواز پاور میں اپنا کچھ جلوہ دکھا چکے ہیں۔ جب بلاول بھٹو کو پاور ملی تو وہ بھی ضرور سکور سیٹل کریں گے۔ یہ تینوں اپنے مخالفین کی بدترین ٹرولنگ اور کردار کشی کا شکار رہے ہیں جس نے ان کے اندر شدید غصہ اور اذیت بھر دی ہے‘ اور ذہن میں رکھیں کہ یہ تینوں نیلسن منڈیلا بھی نہیں ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved