تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-11-2013

میرے لئے یہی بہت ہے

سمجھ نہیں آرہی کہ میں زندگی کے75سا ل پورے کرنے کے بعد ‘شیعہ ہونے کا ’’الزام‘‘ لگنے پر ہنسوں یا روئوں؟ ویسے تو الزام کا لفظ بھی غیر موزوں ہے‘ شیعہ بھی اسی خدا‘ رسول اللہ ﷺاور کتاب کو مانتے ہیں ‘جس پر ہمارا ایمان ہے۔ہم سب ایک ساتھ حج کرتے ہیں‘ نمازیں پڑھتے ہیں‘ ایک ہی ملک کے شہری ہیں اور تحریک پاکستان میں ہم سب نے ایک ساتھ حصہ لیا تھا۔ پاکستان کے دفاع میں ہم سب نے ایک ساتھ قربانیاں پیش کر رکھی ہیں۔ہم سب انتخابی عمل میں حصہ لے کر اسمبلیوں کے لئے ممبران کا انتخاب کرتے ہیں۔غرض کوئی ایسی نشانی یا علامت موجود نہیں‘ جس کی وجہ سے میں خود کو شیعہ قرار دئیے جانے پر ‘ اسے الزام کہوں لیکن حالات کا ستم دیکھئے کہ میرے ایک کالم پر ایک دینی مدرسے کے سربراہ اور عالم دین کی طرف سے کہا گیا کہ ’’نذیر ناجی شیعہ ہے‘‘۔وجہ یہ بتائی گئی کہ میں نے راولپنڈی کے واقعات پر جو کالم لکھا تھا اس میں اہل تشیع کی حمایت کی گئی۔ وہ کالم پہلے ہی دن ابتدائی رپورٹیں اکٹھی کر کے لکھا گیا تھا اور اب تک جتنی تحقیقاتی رپورٹیں سامنے آئی ہیں ان میں کم و بیش واقعات کی وہی تصویر کشی کی گئی جو میں نے ابتدا ئی رپورٹوں کی روشنی میں کی تھی۔یعنی عین خطبہ جمعہ کے وقت ‘جلوس مسجد کے سامنے آیا‘ خطیب صاحب کے حوالے سے کچھ افواہوں پر جلوس میں اشتعال پھیلا اور چند بے قابو لوگ مسجد میں داخل ہو کر احتجاج کرنے لگے‘ شر پسند عناصر تشدد پر اتر آئے اور پھر ہجوم قابو سے باہر ہوتا چلا گیا۔ میں نے اپنے کالم میں واضح طور سے لکھا تھا کہ یہ انتظامیہ کی کوتاہی تھی‘ ورنہ بہتر انداز میں بندوبست کر لیا جاتا تو سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ اس سارے معاملے میں شیعہ سنی کا سوال کہاں سے آگیا‘ کیا کیمرہ شیعہ سنی ہوتا ہے؟کیا پیشہ وارانہ رپورٹنگ شیعہ سنی ہوتی ہے؟ کیا واقعات کی عکاسی میں فرقہ واریت کی جاتی ہے؟ ایسا ہوتا ہو گا مگر مجھے اس کا تجربہ نہیں۔ میں نے صحافت اس وقت شروع کی جب ہمارا معاشرہ فرقہ واریت کے زہر سے محفوظ تھا‘ مسلمان‘ مسلمان کو عقیدے کی بنا پر نہیں مارتا تھا۔ میری عمر کے لوگوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ہمارے زمانے میں شیعہ سنی کس طرح رہتے تھے؟ فرقہ وارانہ جذبات میں نفرت نہیں‘ اخوت اور محبت ہوا کرتی تھی۔ سب اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارتے تھے‘ مذہبی فرائض ادا کرتے۔ایک دوسرے کے مددگار ہوتے اور جہاں بھی اسلام کا سوال پیدا ہوتا‘ ہم سب اکٹھے ہو کر اپنے دین کے تحفظ کے لئے میدان میں آجاتے۔ تحریک پاکستان میں ہم سب نے حصہ لیا تھا‘فسادات میں ہندوئوں اور سکھوں نے ہم سب کو دہشت اور بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کیا تھا‘ لوٹ مار کی تھی‘ ہمارے گھر جلائے تھے‘ ہمیں اپنے اپنے شہروں اور بستیوں سے کھدیڑ کر پاکستان کی طرف دھکیل دیا تھا۔ ہم سب یہاں مہاجر بن کر آئے اور بلا امتیازمقامی آبادیوں کا حصہ بن کرآبادہوئے۔مقامی لوگوں نے بھی کسی سے یہ نہیں پوچھا کہ تم شیعہ ہو یا سنی ہو؟ ہم سب کے گھرایک ہی محلے اور ایک ہی گلی میں ساتھ ساتھ ہوتے۔ہم سب ایک ساتھ کام کرتے ہیں‘ ہمارے کاروبارایک ہی جگہ ہیں۔اللہ جانے شیعہ سنی کا سوال پیدا کر کے ہمیں ہلاکتوں کی طرف دھکیلنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟جن صاحب نے اپنی طرف سے مجھ پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا ان کا مقصد کیا ہے؟کیا پاکستان کے آئین میں کوئی تبدیلی آگئی ہے؟کیا میں خود کو شیعہ قرار دینے پر احتجاج کروں یا ایک ملزم کی طرح صفائی پیش کروں کہ میں شیعہ نہیں ہوں۔ مجھے تو وضاحت کرتے بھی شرم آرہی ہے۔کیا پاکستان میں ایسے دن بھی آگئے کہ شیعہ اور سنی اپنے اپنے مسلک کے حوالے سے ملزموں کی طرح صفائیاں پیش کریں؟میں شیعہ اور سنی دونوں کو اپنی اسلامی برادری کا حصہ تصور کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔سیاسی یا فقہی مسائل ایک ہی امت کے لوگوں میں طے کئے جاتے ہیں‘ طے نہیں ہوتے تو ایک دوسرے کے مسلک کو اپنی اپنی جگہ چھوڑتے ہوئے‘ اپنی سوچ کے مطابق زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ نہ کسی پر اپنی مرضی ٹھونستے ہیں اور نہ کسی کے دبائو میں آکر اپنے عقائد سے دستبردار ہوتے ہیں۔کسی کی دل آزاری نہیں کرتے‘ سب کے عقائد کا احترام کرتے ہیں۔دنیا میں مسلمانوں کے درجنوں فرقے پائے جاتے ہیں اورسب کے سب بطور مسلمان پہچانے جاتے ہیں۔ہم خود ایک دوسرے کو تسلیم کریں نہ کریں لیکن تمام کے تمام غیر مسلم تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو ایک ہی دین کے ماننے والے سمجھتے ہیں اور واقعی ہم سب ایک ہی دین پر ایمان رکھتے ہیں۔جزوی مسائل پر کسی مذہب کے لوگ ہمیشہ اختلاف نہیں رکھتے۔ تشریحات ‘ تاملات‘ تفہیم‘ انداز بیاں‘ ان سب میں اختلاف رائے بھی ہوتا رہتا ہے اور بحث مباحثے بھی‘ یہ زندگی کی علامت ہیں اور زندگی اسی طریقے سے آگے بڑھتی ہے۔ جہاں تک میرے مسلک کا تعلق ہے۔ میں خدا‘ رسول اللہﷺ اورکتاب اللہ پر غیر مشروط ایمان رکھتا ہوں۔ ختم نبوت پر صرف یقین ہی نہیں رکھتا ‘ اس کی خاطر تحریک ختم نبوت کے دوران جیل بھی کاٹ چکا ہوں۔آج کل کے لیڈروں کوتو یہ بھی پتہ نہیں کہ ہم نے جیلیں کس طرح کاٹی تھیں؟۔ جیل کے اندر شیعہ ،سنی یادیوبندی ‘بریلوی نہیں تھے۔ سب کا ایک خدا‘ ایک رسول ﷺ اور ایک قرآن پر ایمان تھا اور ہے۔ ابتدائی دنوں میں تو سب ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ بعد میں شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی کا فرق پیدا ہو گیا۔ نمازیں الگ الگ ہونے لگی تھیں لیکن اس ماحول میں بھی کوئی کسی کے عقیدے پر حملہ نہیں کرتا تھا۔میرے والدمتحرک اور سرگرم مسلمان تھے۔لوگ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں ‘ وہ تہجد کو ملا کر چھ پڑھا کرتے تھے۔دینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ہم جھنگ شہر میں رہتے تھے اور میرے والد ہر مہینے جمعے کی ایک نماز مولانا احمدعلی لاہوری کی مسجد میں پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔میں پاکستان کے سب سے بڑے اردو ویکلی ہفت روزہ ’’ شہاب ‘‘ کا ایڈیٹر رہ چکا ہوں جس کے چیف ایڈیٹر مولانا کوثر نیازی تھے۔مولانا مفتی محمود‘ مولانا غلام غوث ہزاروی‘ مولانا عبداللہ درخواستی‘ مولانا عبیداللہ انور‘ مولانا غلام اللہ خان اور دیو بندی مکتبہ فکر کے دیگر سرکردہ اکابرین کے ساتھ نیاز مندانہ تعلقات تھے۔اس زمانے میں جمعیت علماء اسلام کے کارکن‘ مجھے جمعیت کے دفتر واقع رنگ محل میںاکثر دیکھتے رہے ہوںگے۔جب جمعیت اور پیپلز پارٹی نے مل کر لاہور میں عوام دشمن قوتوں کے خلاف کاروان جہاد کے نام سے تاریخی جلوس نکالا تھا تو میں نے اس کی کامیابی کے لئے سیاسی کارکنوں کی طرح دن رات کام کیا تھا اور قلمی محاذ پر بھی پیش پیش رہا۔ہر شخص کی سرگرمیوں کا دائرہ اس کے اعتقادات کے دائرے میں ہی رہتا ہے۔اس وقت میری عمر14سال تھی‘ جب میں نے تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گویا مجھے عملی زندگی میں ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔میں کبھی بھی ان لوگو ں میں نہیں رہا جو ہجوم کا حصہ بن کر زندگی گزارتے ہیں‘ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ایسا کیا‘ جس کا معاشرے میں نوٹس لیا گیا۔ اخبارات کا ایڈیٹر بھی رہا‘ ملک کے سب سے بڑے اخبارات میں کالم بھی لکھے‘ ملک کے دو عوامی اور منتخب وزراء اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوازشریف کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا مگر اس طویل اور بھر پور زندگی کے ساٹھ برسوں کے دوران‘ کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں شیعہ ہوں۔مجھے نہیں معلوم کہ اپنی طرف سے الزام لگانے والی محترم شخصیت نے‘ مجھے اس اعزاز کے لائق کیوں سمجھا؟مجھے مسلمانوں کے تمام مسالک میں سے کسی بھی ایک سے منسوب کر دیا جائے‘ مجھے فکر نہیں ہو گی بشرطیکہ میں دائرہ اسلام کے اندر رہوں۔فرقہ واریت میر اشعبہ نہیں‘مجھے پڑھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ نہ میری تحریروں میں فرقہ واریت کو کبھی اہمیت دی گئی ہے اور نہ ہی میں نے لکھتے ہوئے کسی مخصوص فرقے کی ترجمانی کی ہے۔میں صرف اور صرف اللہ‘ اسکے رسول ﷺ اور اس کی کتاب قرآ ن الحکیم پر ایمان رکھتا ہوں اورمیرے لئے یہی بہت ہے۔خدا کا شکر ہے کہ الزام لگانے والوں نے مجھے دائرہ اسلام کے اندرر کھا ورنہ بلھے شاہ کو تو کہنا پڑ گیا تھا کہ ع بلھیاتینوں کافر کافر آکھدے تو آہو آہو آکھ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved