تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     07-10-2025

ہمارا اوچھا پن

تراجم تو بہت پڑھے مگر تین ایسے ہیں کہ طبع زاد سے بھی زیادہ پُرلطف! ایک حکیم حبیب اشعر دہلوی کا ترجمہ جو انہوں نے حسین ہیکل کی کتاب ''عمر فاروق‘‘ کا کیا۔ دوسرا بریگیڈیئر گلزار احمد کا جو انہوں نے ہیرلڈ لیمب کی شہرہ آفاق تصنیف Tamerlane ''امیر تیمور‘‘ کا کیا۔ اور تیسرا محمد عمر میمن کا‘ جو انہوں نے بپسی سدھوا کے مشہور ناول The Crow Eaters کا کیا اور اس کا نام ''جنگل والا صاحب‘‘ رکھا۔
یہ ذکر تو برسبیل تذکرہ ہو گیا۔ اصل بات جو کہنی ہے‘ اور ہے۔ شاید میرے مستقل قارئین نے پہلے بھی مجھ سے سنی ہو۔ ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے کہ فلاں موقع پر تیمور اور اس کے ساتھیوں نے موٹی موٹی روٹیاں گوسفند کے شوربے کے ساتھ کھائیں! گوشت کا شوربہ اور گندم یا جو کی موٹی روٹیاں! کیا یہ بہترین کھانا نہیں؟ اور کیا یہ کافی نہیں؟ گُلبدن بیگم ''ہمایوں نامہ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ ہمایوں نے کسی موقع پر پھپھیوں کی دعوت کی تو پچپن بھیڑیں ذبح کیں! اس کے علاوہ کچھ پکا ہوتا تو ہمایوں کی بہن اس کا ذکر بھی ضرور کرتی۔ قیاس یہی کہتا ہے کہ ساتھ صرف روٹیاں ہی ہوں گی! بھیڑ کے گوشت کے ساتھ اچھی کوالٹی کی روٹی یا نان میسر ہو تو اور کیا چاہیے!!
انسان کے لیے کیا ضروری ہے؟ مناسب اور سادہ خوراک! جو اسے زندہ رکھ سکے‘ توانائی دے اور اس کے معدے پر بوجھ نہ بنے۔ خواہ یہ زمین سے اُگے یا درختوں پر لگے یا زمین اور درختوں سے حاصل کیے گئے خام مال سے تیار ہو۔ بس یہ ہے وہ جو انسان کے لیے ضروری ہے۔ لیکن افسوس! بات یہاں تک نہ رہی۔ پہلے تو ہم نے وہ سب کچھ اکٹھا کر کے اپنے دسترخوان پر جمع کر لیا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے نہ توانائی دینے کے لیے‘ ہاں معدے پر بوجھ ضرور بنتا ہے۔ روٹیوں‘ سالنوں‘ پلاؤں اور کبابوں کی لاتعداد اقسام اور کئی قسم کی مٹھائیاں‘ چٹنیاں‘ اچار‘ مربے‘ انواع واقسام کے ماکولات ومشروبات اور میوے! کئی طرح کے پراٹھے اور بریانیاں‘ پرندوں اور جانوروں کا گوشت! پھر ہم نے دیس دیس کے کھانے ایک دستر خوان پر جمع کیے۔ پھر ان کھانوں کی تیاری کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے۔ باورچی خانے کا بجٹ سماجی مرتبے کو متعین کرنے لگا اور یہ کہا جانے لگا کہ فلاں کے کچن کا خرچ اتنے لاکھ روپے روزانہ یا ہفتہ وار ہے۔ پھر ہم نے دسترخوان پر رکھی جانے والی خوراک کی مقدار اتنی بڑھائی کہ وہ کئی انسانوں اور کئی کنبوں کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگ بھوکے رہنے لگے۔ اِدھر خوراک کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہونے کی وجہ سے خراب ہونے لگی اور پھینکی جانے لگی۔ پھر ہم نے ذخیرہ کرنا شروع کر دیا۔ کل کے لیے‘ اگلے ہفتے کے لیے‘ اگلے مہینے اور اگلے سال کے لیے! پھر پوری زندگی کے لیے! پھر آنے والی نسلوں کے لیے۔ پھر بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی۔کھانا کھانے کے لیے عام سادہ برتن ہی کافی تھے۔ لیکن ہم نے قیمتی برتن جمع کرنے شروع کیے۔ چاندی کے برتن‘ سونے کے برتن اور درآمد شدہ گراں بہا ڈنر سیٹ! پھر خوراک کئی کئی کورس میں تقسیم ہونے لگی جبکہ ہر کورس اپنی جگہ ایک مکمل کھانا ہے۔ پھر فائیو سٹار ہوٹلوں میں فوڈ فیسٹیول ہونے لگے یہاں تک کہ جب کریڈٹ کارڈ بیچنے والے اہلکاروں سے پوچھا جاتا کہ اس کا کیا فائدہ؟ تو وہ کہتے کہ جیب میں رقم نہ ہو‘ تب بھی ہوٹل سے کھانا کھا سکتے ہیں؛ چنانچہ قرض کا کھانا کھایا جانے لگا۔ ایک تو قرض کا‘ دوسرا غیر ضروری!
آپ کو یاد ہے کچھ سال پہلے سیلاب کے ایام میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والی اداکارہ انجلینا جولی پاکستان آئی تھی تو اُس وقت کے وزیراعظم نے اپنی فیملی سے ملاقات کرانے کے لیے اسے کھانے پر بلایا۔ اس موقع پر کھانا جس وافر مقدار میں تھا اور کھانے کی جو انواع واقسام تھیں‘ انجلینا نے افسوس اور حیرت کا اظہار کیا کہ ایک طرف لوگ سیلاب میں مر رہے ہیں اور دوسری طرف اس قدر اسراف اور عیاشی! اس نے ان تحائف پر بھی اعتراض کیا جو اسے پیش کیے گئے۔ اس نے اقوام متحدہ کو یہ بھی کہا کہ پاکستانی حکومت مدد مانگے تو اسے کہا جائے کہ پہلے ان اخراجات کو کنٹرول کرے جو تعیش پر اُٹھتے ہیں! ہماری شادیوں کے کھانے‘ ہماری دعوتیں اور حکومتی ظہرانوں اور عشائیوں کو دیکھ کر کوئی بھی صاحبِ عقل فوراً نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ہم لوگ شدید احساسِ کمتری کا شکار ہیں!
اس کالم نگار کو ملازمت کے دوران‘ بیرونِ ملک کئی سرکاری ضیافتوں میں شرکت کا موقع ملا۔ کہیں بھی یہ اندھیر نہیں دیکھا جو پاکستان کی سرکاری اور نجی دعوتوں میں مچایا جاتا ہے۔ کم از کم ایک اعلیٰ سرکاری وفد کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر دیتا ہوں۔ امریکی حکومت نے ایک ایسے ریستوران میں عشائیے کا انتظام کیا جس میں اُس وقت عام گاہک بھی موجود تھے۔ پاکستانی اعلیٰ درجے کے وفد کو ریستوران کے ایک کونے میں جگہ ملی۔ صرف تین پلیٹیں پیش کی گئیں۔ پہلے سلاد‘ اس کے بعد مچھلی کی ایک پلیٹ اور آخر میں میٹھے کے لیے دو آپشن دیے گئے؛ چاکلیٹ یا چیز ( پنیر) کیک! پاکستان میں امریکہ تو امریکہ ہے‘ صومالیہ یا ملاوی سے بھی وفد آئے تو لاکھوں روپے ایک وقت کے کھانے پر خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ قومی غیرت کا حال یہ ہے کہ غیر ملکی مہمانوں کے سامنے ہمارے خُدّام ہمارا قومی لباس پہنتے ہیں۔ انگریزی استعمار نے ہمیں ذلیل کرنے کے لیے نوکروں کو پگڑی اور شیروانی پہنائی تھی۔ ہمارے مقتدر ایوانوں میں انگریز کی عطا کردہ ذلت بدستور جاری ہے۔ اندازہ لگائیے! صوبیدار صوبے کے گورنر کو کہتے تھے۔ انگریز نے اپنے لفٹین اور کپتان کے ماتحت کو صوبیدار کا نام دے دیا جو آج بھی رائج ہے۔ کسی کابینہ‘ کسی وزیر دفاع میں اتنی سمجھ بوجھ نہیں کہ اسے بدل دے۔
بات کھانے کی ہو رہی تھی۔ آپ کسی مغربی ملک میں چلے جائیے۔ کوئی انگریز یا امریکی یا یورپی آپ کو اپنے گھر کھانے پر بلائے گا تو سلاد اور میٹھے کے علاوہ‘ اکثر وبیشتر حالات میں‘ صرف ایک ڈش ہو گی جو اصل کھانا ہو گا۔ ہم نے تو کھانے کو زندگی کا مرکزی نقطہ سمجھ رکھا ہے۔ تقریبات کے مینو پر کئی کئی دن بات چیت ہوتی ہے‘ بحث مباحثہ ہوتا ہے۔ مقصد پیٹ بھرنا نہیں‘ نمائش ہے‘ دولت کی دھونس ہے‘ مہمانوں کو متاثر کرنا ہے۔ ایک نارمل انسان کو ایک سالن کافی ہے۔ ساتھ پلاؤ یا بریانی رکھ لیجیے‘ بس! مگر پکوان یہاں گنتی ہی میں نہیں آتے۔ مرغ قورمہ‘ مٹن قورمہ‘ کباب‘ مرغ روسٹ‘ پالک گوشت‘ ساتھ مچھلی‘ چکن تکہ‘ ملائی بوٹی‘ کئی قسم کی کڑاہیاں‘ کئی اقسام کے میٹھے۔ خدا کا خوف کرو اللہ کے بندو! بدذوقی اور نو دولتیے پن کی انتہا ہے۔ اس رویے کو فرنگی Vulgarity کہتے ہیں اور درست کہتے ہیں۔ ایک شریف انسان کو ایک پلیٹ شوربے کی اور ایک نان کافی ہے۔ اور سوچیے! جانوروں کی طرح ہم لوگ کھانا کھلنے پر پل پڑتے ہیں۔ وہ جو کسی نے لکھا ہے صحیح لکھا ہے۔ ایک یورپی کو اس کے پاکستانی دوست نے اپنی شادی پر مدعو کیا۔ یورپی کو اس کے دوستوں نے منع کیا کہ پاکستان نہ جاؤ‘ دہشت گردی کا خطرہ ہے مگر وہ آگیا۔ شادی ہال میں بیٹھا تھا کہ اچانک افراتفری مچ گئی۔ لوگ سراسیمگی میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دھکم پیل شروع ہو گئی۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ یورپی کو یقین ہو گیا کہ دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ وہ ایک صوفے کے پیچھے چھپ گیا۔ اس کے میزبان نے بہت مشکل سے اسے ڈھونڈا۔ تسلی دی اور بتایا کہ حملہ نہیں ہوا‘ کھانا کھلنے کا اعلان ہوا ہے۔ یہ بسیار خوری‘ شکم پروری‘ اور پکوانوں کی کثرت اُس دور میں شروع ہوئی جب حکومت انگریز کا دردِ سر تھا۔ ہمارے کٹھ پتلی حکمران صرف دسترخوان کی ''ثقافت‘‘ کو ترقی دینے میں مصروف تھے۔ اس کا حال اگلی نشست میں ان شاء اللہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved