ہم پاکستانی پین اسلامک معاملات کے بارے میں خاصے جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ سو سال سے ذرا زیادہ عرصہ ہوا‘ ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ کے وجود کو خطرات لاحق ہوئے تو برصغیر کے مسلمان اس کو بچانے کیلئے جذباتی ہو گئے۔ انڈیا کو دارالحرب قرار دے دیا۔ ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ تمام عرب لیڈر سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف کام کر رہے تھے‘ اورترکی کے نوجوان مصطفی کمال کی قیادت میں خلافت کے خاتمے کیلئے یکسو تھے۔ اسی طرح 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین کی لڑائی ہوئی تو ہم نے اسے درجۂ جہاد پر فائز کر دیا۔
چند روز قبل نیویارک سے ہمارے وزیر خارجہ اسحاق ڈار واپس آئے تو ٹرمپ پلان آ چکا تھا۔ وہ غزہ میں امن کے بارے میں خاصے پُرامید نظر آئے۔ آتے ہی بیان دیا کہ انڈونیشیا نے اپنے بیس ہزار فوجی غزہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہاں متعلقہ اداروں میں یہ سوچ شروع ہوئی کہ پاکستان ایسا فیصلہ کب کرے گا۔ میرے خیال میں ایسا قدم اٹھانے سے پہلے ہمیں متعدد بار سوچنا چاہیے۔ قبل ازیں افغانستان میں مختلف گروہوں کی دوستی بھی ایک جذباتی فیصلہ تھا‘ جس کی قیمت بھی چکانا پڑی۔ اس بارے میں جنرل ضیا الحق اور وزیر خارجہ آغا شاہی کی سوچ مختلف تھی۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جب ٹرمپ پلان کو غور سے پڑھا تو انہیں پتا چلا کہ اس کے مندرجات خاصے تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ اسمبلی میں اپوزیشن کا موڈ دیکھا تو فوراً دفاعی پوزیشن میں آ گئے۔ یہ معاملہ اتنا حساس ہے کہ اس کے مختلف پہلوئوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یادش بخیر پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ڈاکٹر معید یوسف نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر تھے۔ وہ خود بین الاقوامی امور سے خوب واقف تھے‘ آتے ہی دنیا کے مختلف خطوں کے بارے میں چار پانچ کمیٹیاں بنائیں جہاں ان خطوں کے ایکسپرٹ وقتاً فوقتاً تازہ ترین صورتحال زیر بحث لاتے اور اپنی سفارشات نیشنل سکیورٹی ڈویژن کو بھیج دیتے۔ راقم الحروف مڈل ایسٹ کمیشن کا ممبر تھا۔ یہ سارا کام فی سبیل اللہ صرف ملک کی محبت میں ہوتا تھا۔ یقین مانیں کہ وزیراعظم آفس کی بلڈنگ میں ہونے والے اجتماعات میں لوگ اپنی کاروں میں آتے تھے‘ نیشنل سکیورٹی ڈویژن کا ایک جوائنٹ سیکرٹری کوآرڈینیٹر کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ کفایت شعاری کا یہ عالم تھا کہ ہمیں چائے کا کپ بھی نہیں پلایا جاتا تھا لیکن ہم یہ قومی فریضہ خوشی خوشی سرانجام دیتے تھے۔ ایسا فورم فارن آفس اور خارجہ پالیسی سے متعلقہ دیگر اداروں کے لیے مفید ہوتا ہے۔
واپس آتے ہیں غزہ کی طرف‘ قرائن بتا رہے ہیں کہ وہاں جنگ بندی ہونے والی ہے۔ یہ جنگ بندی کب تک چلے گی‘ یہ ایک لگ بحث ہے۔ قبل ازیں دسمبر 2024ء میں ہونے والی جنگ بندی زیادہ دیر نہیں چلی تھی۔ جنگ بندی کو دیرپا بنانے کیلئے امن دستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پاکستان سے امن دستے کی ڈیمانڈ کی جائے تو ہمیں معذرت کر لینی چاہیے۔ غزہ اب ایسی دلدل بن چکا ہے کہ وہاں جانے والے ہر شخص کے کپڑے خراب ہوں گے‘ خواہ وہ امن کے نفاذ کی نیک نیت ہی سے جا رہا ہو۔ اگر ٹرمپ پلان کی بات کریں تو یہ آغاز ہی سے متنازع ہو گیا تھا۔ اس میں اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں ۔ سارا زور اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی اور حماس سے ہتھیار لینے پر تھا۔ فلسطینیوں میں یقینا ٹرمپ پلان کے بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ میرے ایک فلسطینی دوست کا کہنا ہے کہ یہ ٹرمپ پلان نہیں بلکہ نیتن یاہو پلان ہے۔ یاد رہے کہ آٹھ مسلم ملکوں کے سربراہان کو ملنے کے بعد صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم کو ملے تھے اور پلان کی عبارت میں تبدیلیاں کی گئی تھیں‘ جس کا اقرار ہمارے وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر بھی کیا ہے۔
مڈل ایسٹ کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی کے دو بنیادی اصول ہیں؛ پہلا اصول ہے کہ جس معاملے پر عربوں میں اجماع یعنی Consensus (اتفاقِ رائے) ہو جائے‘ پاکستان اسے سپورٹ کرے گا۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ عرب ممالک کے آپس کے جھگڑوں کا پاکستان حصہ نہیں بنے گا‘ جس کی واضح مثال 2015ء میں ہمارا یمن فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ تھا‘ جو ایک صائب فیصلہ تھا۔ میں نے دس سال سے زیادہ کا عرصہ خلیجی ممالک میں گزارا ہے۔ وہاں کے اکثر لیڈر کہتے تھے کہ لڑائی تب لڑیں گے جب بہت اچھی تیاری ہو اور اس سلسلہ میں وہ حدیث شریف کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ ذرا غور کریں کہ پوری عرب دنیا میں ماسوائے اردن کے‘ غزہ کیلئے کہیں کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ اردن میں بھی اس لیے ہوئے کہ وہاں کی ستر فیصد آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ عرب دنیا تقریباً بیس ممالک پر مشتمل ہے‘ ہر ملک کی پالیسی مختلف ہے۔ عرب امارات اور بحرین نے غزہ کی سفاکانہ جنگ کے باوجود اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔ بیشتر عرب ممالک حماس کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم نہیں مانتے۔ یہی صورتحال پاکستان کی بھی ہے۔ اسلام آباد میں فلسطینی سفیر فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا نمائندہ ہے‘ حماس کا نہیں۔ ہمارے ہاں صورتحال مزید پیچیدہ ہے۔ ہماری بیشتر مذہبی جماعتیں حماس سے رابطے میں رہتی ہیں جبکہ حکومت کے تعلقات صرف فلسطین اتھارٹی سے ہیں۔ غزہ کے فلسطینی بھی تقسیم کا شکار ہیں۔ کئی فلسطینی کہتے ہیں کہ ہم اکتوبر 2023ء والی حماقت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں‘ لیکن زیادہ تر حماس پر دل وجان سے نثار اور اسے فلسطینی مزاحمت کی بڑی علامت سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ حماس ہتھیار ڈالنے کے بعد زیر زمین مزاحمت کا راستہ اختیار کرے گی۔ بہت سے ہتھیار چھپا لیے جائیں گے۔ آئندہ آنے والی حکومت میں پی ایل او کا حصہ ہو گا اور فلسطینیوں کے آپس کے اختلافات چلتے رہیں گے بلکہ زور پکڑیں گے۔ ایسے میں پاکستان کا وہاں امن دستہ بھیجنا عقلمندی نہیں ہو گی۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسرائیل غزہ کی جان آسانی سے چھوڑ دے گا؟ وہ تو غزہ کے اندر سکیورٹی زون کی باتیں کر رہا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ اسرائیل غزہ سے مکمل عسکری انخلا کر لیتا ہے‘ تب بھی زمینی بارڈر پر اسرائیلی فوجیں چوکس رہیں گی۔ فضائی اور سمندری حدود پہلے ہی اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے امن دستے پر اسرائیل کی جانب سے فائرنگ ہو جائے اور ہمارے جوان جوابی فائرنگ کریں‘ ایسے میں صورتحال کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔فلسطینی بھائی اس لیے بھی پریشان ہیں کہ وہ برطانوی وزیر خارجہ بالفور کے 1917ء کے یہود دوست خط کے بعد سے اب تک متعدد دھوکے کھا چکے ہیں۔ سیاسی راہ بھی پی ایل او نے اختیار کی تھی۔ اوسلو کا معاہدہ بھی ہو گیا جس کے تحت دونوں نے ایک دوسرے کو تسلیم کیا۔ پانچ برس میں دونوں ریاستوں کے بارڈر اور بے دخل فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے امور طے پانا تھے لیکن نیتن یاہو آج دو ریاستی حل کی بات ہی نہیں کرتا۔ ٹرمپ حکومت کی پوزیشن بھی اب واضح نہیں ہے۔ غزہ کے زخموں نے مغربی کنارے سے بھی فوکس ہٹا دیا ہے حالانکہ مغربی کنارے پر ظلم کم نہیں ہوا‘ جس کا مہاجر کیمپ عرصے سے اسرائیلی مظالم کا شکار ہے کیونکہ یہ مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ اب اسرائیل مغربی کنارے اور القدس کے درمیان ایک ایسی یہودی بستی بنا رہا ہے جس کے بعد مغربی کنارے سے القدس جانا ناممکن ہو جائے گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا ہے تو باقی عرب ممالک کے ساتھ کیوں نہیں؟ہم غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتے؟ میرا جواب ہوتا ہے کہ دونوں مختلف معاملات ہیں۔ پاک سعودی معاہدے کی میں نے عرب ٹی وی چینلز اور اخبارات میں کھل کر حمایت کی ہے۔ سعودی چینل العربیہ‘ اماراتی چینلز سکائی نیوز اور المشہد نے اس سلسلے میں میرے انٹرویوز کیے۔ لبنانی اخبار النہار نے بھی میرا مؤقف شائع کیا۔ غزہ کے بارے میں میری یہی رائے ہے کہ سیاسی اور اخلاقی امداد جاری رکھیں‘ غذا اور دوائیاں زیادہ سے زیادہ بھیجیں مگر امن دستہ بھیجنے میں احتیاط کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved