تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     07-10-2025

حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ…(3)

حضرت عدیؓ نے بہت لمبی اور صحت مند عمر پائی۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ آپؓ کی وفات 120 سال کی عمر میں کوفہ میں ہوئی۔ آپؓ کی مجلس میں کئی صحابہ اور بہت بڑی تعداد میں تابعین بیٹھا کرتے تھے اور آپ سے آپ کے حالاتِ زندگی‘ قبولِ اسلام اور جہاد کے میدانوں میں صحابہ کرامؓ کے کارناموں کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔ حضرت عدی بن حاتمؓ کا حافظہ کمال کا تھا۔ تمام واقعات پوری تفاصیل وجزئیات کے ساتھ آپ کو یاد تھے جن کو مجلس کے سامنے پیش کرتے تو سب حاضرین کے ایمان تازہ ہو جاتے تھے۔ آپ کہا کرتے تھے ''میں نے حضور کریمﷺ کی بتائی ہوئی دو باتیں تو دیکھ لی ہیں۔ بابل کے محلات بھی فتح ہوچکے ہیں اور حیرہ سے تنہا سفر کرنے والی عورت بھی میں نے دیکھی ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیسری بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی اور صدقہ و خیرات لینے والا کوئی نہ رہے گا‘‘۔ یہ تیسری بات بھی جو آنحضورﷺ نے فرمائی تھی‘ لوگوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دورِ خلافت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لی جب خلیفہ کے پاس دور دراز سے لوگ آ کر بیت المال میں صدقات کی رقمیں جمع کراتے تھے۔ آپؒ نے جب بھی ان سے کہا کہ جا کر اپنے علاقے کے حاجت مندوں میں یہ رقوم تقسیم کر دیں تو ان کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا کہ امیر المومنین ہم نے جس کسی کے بارے میں خیال کیا کہ وہ ضرورت مند ہو گا‘ جب اس کے پاس گئے تو اس نے کہا میں تو دینے والا ہوں‘ لینے والا نہیں۔ حضرت عدیؓ تو اُس وقت وفات پا چکے تھے مگر جن تابعین نے آپ سے وہ حدیث سنی تھی وہ اس کو یاد کرکے فرطِ جذبات اور مسرت سے اشکبار ہو جاتے تھے‘ کیونکہ انہوں نے یہ تیسری بشارت بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔
حضرت عدیؓ نے قبولِ اسلام کے بعد جہاد کے معرکوں میں بڑی بہادری سے حصہ لیا۔ شروع میں مغربی محاذ پر رومیوں کے خلاف بہادری کے جوہر دکھائے اور پھر آخر میں مشرقی محاذ پر فارس کی فوجوں کو شکست دینے کے لیے ہر جنگ میں شریکِ جہاد رہے۔ مؤرخین نے تفصیلاً لکھا ہے کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی سربراہی میں اسلامی فوجوں میں حضرت عدیؓ نے بہت بہادری کے ساتھ شرکت فرمائی اور ہر معرکے میں کارنامے سرانجام دیے۔ بابل کی فتح‘ پھر مدائن پر قبضہ سبھی عظیم واقعات آپ کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوئے۔ ان فتوحات کے موقع پر بھی آپؓ نے حضور پاکﷺ کی پیش گوئی کا ذکر فرمایا۔ ان تمام مواقع پر آپ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے دستِ راست کے طور پر ہر جہاد ومشاورت میں شریک رہے۔ ان دو عظیم المرتبت صحابہ کے درمیان محبت واپنائیت کا مثالی تعلق تھا۔
ایک روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی رحلت کے موقع پر حضرت عدیؓ اپنے قبیلے میں تھے۔ جب یہ خبر وہاں پہنچی تو بے ساختہ آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ آنحضورﷺ کے ساتھ پہلی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؓ کی ہچکی بندھ گئی۔ انہی دنوں میں آپ نے یہ خبر سنی کہ کئی قبائل نے اسلام کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور بہت سے لوگ مرتد ہو گئے ہیں۔ آپؓ کا قبیلہ اگرچہ اسلام میں نیا نیا داخل ہوا تھا اور گرد ونواح کے کئی قبائل میں فتنۂ ارتداد کے شعلے بھڑک رہے تھے مگر آپؓ کی پُراثر قیادت میں اس قبیلے کے اندر اسلام کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھی۔ یہ پورا قبیلہ یکسوئی کے ساتھ دینِ اسلام پر کاربند رہا۔ آپؓ اپنے قبیلے کے صدقات وزکوٰۃ کی ایک بڑی رقم لے کر مدینہ پہنچے۔ راستے میں ہر جگہ خطرات تھے مگر آپ کسی خطرے کو خاطر میں نہ لائے۔ بڑے پُرآشوب حالات اور مشکل معاشی صورتحال میں خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں رقم پیش کی تو انہوں نے آپ کے پورے قبیلے کو دعائیں دیں اور بیت المال کی حالت سدھر گئی۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کہا کرتے تھے کہ بنو طے کی طرف سے آنے والی مالی امداد مدینہ کی اسلامی ریاست کا بہت بڑا سہارا ہوا کرتی تھی۔
حضرت عدیؓ نے مرتدین کے خلاف بھی جہاد میں حصہ لیا اور اس فتنے کے خاتمے کے بعد پہلے حضرت خالدؓ بن ولید کی سرکردگی میں شام کے علاقے میں رومیوں کے خلاف بہادری کے کارنامے سر انجام دیے اور اس کے بعد‘ جیسا کہ اوپر بیان ہوا‘ آپ اسلامی لشکر کے ساتھ فارس کے مقابلے پر برسرپیکار فوجوں میں شامل ہوئے۔ ان تمام جنگوں میں جو بڑی جان لیوا اور کٹھن تھیں‘ آپ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ آپ لشکرِ اسلامی کے سالارِ اعلیٰ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے مشیران میں سے تھے۔ جب حضرت سعدؓ نے ایران کے مقابلے پر آخری فتح حاصل کی اور کسریٰ کے محل میں داخل ہوئے تو حضرت عدیؓ ان کے شانہ بشانہ موجود تھے۔ اس موقع پر حضرت عدیؓ نے بلند آواز سے نبی اکرمﷺ پر درود وسلام بھیجا اور کہا: میرے آقاﷺ نے مجھے پہلی ملاقات ہی میں بتا دیا تھا کہ یہ سب محلات اسلامی فوجوں کے سامنے مفتوح ہو جائیں گے اور کسریٰ کا نام ونشان مٹ جائے گا۔
ایک موقع پر حضرت عمرؓ کے دور میں آپ مدینہ تشریف لائے تو کافی عرصے بعد ملاقات ہونے کی وجہ سے پہلی نظر میں حضرت عمرؓ ان کو پہچان نہ سکے۔ انہوں نے کہا: اے امیرالمومنین آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ آپ کی آواز سنتے ہی حضرت عمرؓ فوراً پہچان گئے اور آپ کی بہت تعریف کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے عدی تم نے اس وقت حق کا اقرار کیا جب لوگ انکار کر رہے تھے اور تم نے اہلِ ایمان کے ساتھ اس وقت وفا کی جب لوگ بدعہدی کر رہے تھے اور تمہارے صدقے کی رقم سب سے پہلی آمدنی تھی جس سے حضور اکرمﷺ کا چہرہ ہشاش بشاش ہو گیا۔ تمہاری اور تمہارے قبیلے کی اس قدر نوازشات ہیں کہ انہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔ خلیفہ راشد کی زبان تحسین کے یہ الفاظ سن کر حضرت عدیؓ بولے: بس بس امیر المومنین! میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ظاہر ہے کہ بندۂ مومن نیکی اور بھلائی کے کام اللہ کی رضا کیلئے کرنا چاہتا ہے نہ کہ ذاتی شہرت اور تعریف کیلئے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے کہ خیر کے کاموں کی تحسین اور حوصلہ افزائی کی جائے اور کسی بھی احسان پر تشکر میں بخل نہ کیا جائے۔ حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے: جس نے انسانوں کے احسان پر ان کا شکریہ ادا نہ کیا‘ اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہ کیا۔ (سنن ترمذی‘ عن ابی ہریرہؓ) گویا دونوں عظیم صحابہ کا عمل خیر پر مبنی تھا۔
حضرت عمرؓ کی شہادت نے پوری امت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تمام صحابہ کی طرح حضرت عدیؓ بھی کئی دن تک اس غم سے نہ نکل سکے۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت میں حضرت عدیؓ نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ کچھ عرصے کے بعد حضرت عدیؓ نے خلیفہ کے بعض فیصلوں سے اختلاف کیا۔ ان کا خیال تھا کہ حضرت عثمانؓ کی نرم دلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ شاطر لوگ نظامِ خلافت کو تباہ کر دیں گے۔ آپؓ نے اصولی اختلافات کا اظہار تو کیا مگر کبھی بغاوت کے بارے میں دل میں خیال تک نہ آیا۔ اس عرصے میں آپ نے دیکھا کہ کچھ نوجوان خلیفہ راشد کے کنٹرول میں نہیں رہے تو آپ اختلاف کے باوجود خاموشی کے ساتھ اپنے گھر میں مقیم رہے۔
تاریخ وسیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس وقت بنو امیہ کا مروان بن حکم سب سے زیادہ شاطر اور دنیا پرست تھا۔ وہ حضرت عدیؓ کی تنقید کی وجہ سے آپ سے بہت بغض رکھتا تھا‘ جبکہ حضرت عثمانؓ آپ کے اختلافِ رائے کے باوجود آپ کو مخلص‘ نیک نیت صحابی سمجھتے اور آپ کا احترام کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے خلاف فسادیوں نے مدینہ منورہ میں شورش برپا کی تو حضرت عدیؓ بھی دیگر صحابہ کی طرح مضطرب و پریشان ہو گئے مگر اس عرصے میں بھی اپنے گھر ہی میں مقیم رہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved