تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     08-10-2025

غریب دباؤ مہم زوروں پر

جس کی روزی پر لات پڑے اُس کا غزہ تو یہیں ہو گیا۔ زیادتی یا ظلم کے معنی جاننے کیلئے اُسے غزہ جانے کی ضرورت نہیں۔ پتا نہیں اوپر کے آرڈر ہیں یا نیچے کی من مانیاں لیکن جو افسر چکوال کی ضلعی انتظامیہ میں بیٹھے ہیں لگتا ہے اُنہیں لاچاروں کے ساتھ کوئی خاص بیر ہے۔ ہمارے شہروں کے غریبوں اور لاچاروں کے پاس روزی کمانے کیلئے کیا آپشن ہوتے ہیں؟ کہیں ریڑھی لگا لی‘ دکان والوں کو کچھ پیسے دے کر اُن کے سامنے ٹھیہ بنا دیا‘ چنگ چی رکشہ قسطوں یا کرائے پر چلانا شروع کر دیا یا پھر کسی چوراہے پر کھڑے ہوکر راہگیروں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے۔ اس کے علاوہ چوری ڈکیتی رہ جاتی ہے۔ موجودہ ضلعی انتظامیہ کے کارناموں میں سے سب سے نمایاں یہ ہے کہ چکوال کی انارکلی یعنی چھپڑ بازار سے بزورِ ڈنڈا ٹھیہ بانوں اور ریڑھی والوں کو نکال دیا ہے۔ بازار صرف اُن سے صاف نہیں ہوا بلکہ آدھے کاروبار سے بھی صاف ہو گیا ہے۔ چھپڑ بازار کی وہ پرانی رونق ہی نہیں رہی۔ ایک موجودہ ملے جلے بندوبست کی کسان دوست پالیسیوں سے کسان کا حشر ہو گیا ہے‘ دوسرا تجاوزات کے نام پر ریڑھی اور ٹھیہ بانوں کاحشر کر دیا گیا ہے۔ موٹر کاروں کا مزہ ہے‘ کھڑا ہونے کیلئے اُن کیلئے جگہ بڑھ گئی ہے اور شاید ہمارے افسروں کی نظروں میں یہی ترقی کی بڑی علامت ہے۔
ہماری کوئی ویلفیئر سٹیٹ تو ہے نہیں کہ کوئی بے روزگار ہو اور اُسے حکومتی وظیفہ ملنے لگے۔ غریب ولاچار انہی چھوٹے موٹے حیلے بہانوں سے اپنی روزی کماتے ہیں۔ ایسے وسیلے ان کیلئے ختم ہو جائیں تو بے چارے کہاں جائیں؟ آس پاس کی گلیوں میں اپنی ریڑھیاں لیے مارے مارے پھرتے ہیں کہ کوئی گاہکی ہو جائے۔ لیکن دہائیوں سے یعنی پاکستان بننے سے لے کر آج تک جو کام کرتے تھے اور جو کام اُن کے باپ دادا کرتے تھے‘ تجاوزات ختم کرنے کے نام پر اُن کی روزی پر لات مار دی گئی ہے اور پھر اکڑ بھی ہے کہ ہم نے بہت بڑا کام سرانجام دیا ہے۔ یہ تو ٹھیہ بانوں اور ریڑھی والوں کی داستان‘ ساتھ ہی چھپڑ بازار کے شروع میں اوقاف پراپرٹی پر بنی 13 دکانوں کو ایک آپریشن کے ذریعے مسمار کر دیا گیا ہے۔ بے چارے دکاندار ادھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے‘ فارم 47 کے نام نہاد نمائندوں کے پاس بھی گئے۔ اُنہوں نے کیا کرنا تھا بس لالی پاپ کھلائے اور ٹرخا دیا۔
معاملہ لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں سنا جا رہا تھا لیکن ماحول ہی ایسا بن چکا ہے کہ ضلعی ہرکاروں نے عدالتوں کی پروا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ دکانوں کے گرانے کے بعد سائلان نے پھر ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور متعلقہ جج صاحب بڑے برہم بھی ہوئے اور انہوں نے میونسپل کمیٹی چکوال سے مسمار کی گئی جگہ کی ملکیت کے دستاویز مانگ لیے ہیں۔ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم سے پہلے یہ جگہ ایک ہندو سکھ سکول ہوا کرتا تھا جس پر تقسیم کے بعد چکوال کا پوسٹ آفس بن گیا۔ لیکن ملکیت محکمہ اوقاف کی رہی۔ پوسٹ آفس کی اپنی عمارت بنی تو ڈاک والے وہاں چلے گئے اور میونسپل کمیٹی نے ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت میونسپل کمیٹی چکوال کو یہ جگہ دی ایک ایلیمنٹری سکول چلانے کیلئے۔ اس عمارت کا ایک تھڑا ہوا کرتا تھا اور کیونکہ ہمارا پرانا گھر اس عمارت کے بالکل سامنے تھا مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اسی تھڑے پر ہوا لینے شاموں کو ہم بیٹھتے تھے۔ جب پوسٹ آفس اپنی جگہ پر چلا گیا تو اس تھڑے کو توڑ کر دکانیں بنا دی گئیں۔ لیکن جو بھی ہوا پراپرٹی اوقاف کی رہی۔ ضلعی انتظامیہ نے ان دکانات کو مسمار کرنے کیلئے جو ہلہ بولا ہے یہ ساری دلیری اوقاف پراپرٹی پر دکھائی گئی ہے۔
فارم 47 نے اور جو کچھ کیا یا نہ کیا اُس کے ذریعے جو پارلیمانی ممبران پیدا ہوئے ہیں اُن بے چارو ں کو اپنی حیثیت کا احساس ہے‘ اسی لیے اُن میں وہ دم خم نہیں جو عام وقتوں میں پارلیمانی ممبران میں ہوا کرتا تھا۔ کہیں بھی آپ دیکھ لیں ان کا موجودہ کردار گھگھوؤں سے زیادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ جہاں بھی ہو انہیں زیادہ خاطر میں نہیں لاتی۔ دکانوں کو مسمار کرنے کا آپریشن ہو رہا تھا تو چکوال کے کسی معزز ممبر کے منہ سے چوں کی آواز نہیں نکلی۔ معمولی سے ممبر اسمبلی ہم بھی رہے ہیں لیکن اُن گزرے زمانوں میں کسی ضلعی ہرکارے کو اس قسم کی من مانیوں کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ مانا کہ وقت بدلا ہے لیکن کچھ تو قاعدے قانون کی پاسداری ہونی چاہیے۔
بے چارے ریڑھی یا ٹھیہ بان نے کتنی تجاوزات کرنی ہے؟ تجاوزات تو اُن کی دیکھیں جنہوں نے مشکوک طریقوں سے زمینیں ہتھیائیں اور اُن پر اتنی وسیع وعریض ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں کہ پاکستان کی زراعت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ہر جگہ ہاؤسنگ سوسائٹی ہی بننی ہے تو اناج ہم مریخ پر اُگائیں گے؟ لیکن اُس طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا کیونکہ ان کاموں میں بڑے لوگ اور اثر رکھنے والے ملوث ہوتے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا تو ایک شعبہ ہوا‘ کون سا شعبہ اس مملکتِ خداداد میں ہے جہاں بے ایمانی کا راج نہیں؟ ضلع کا ڈی سی او اپنے جملہ فرائض کے ساتھ ضلع کا ریونیو کلکٹر بھی ہوتا ہے۔ کیا محکمہ مال میں رشوت اور بدعنوانی ختم ہو گئی ہے کہ انصاف کے سارے تقاضے غریبوں پر ہی لگنے ہیں؟ محکمہ مال میں معمولی سا معمولی کاغذ نہیں ہلتا جب تک اُس کے نیچے رشوت کے پہیے نہ لگے ہوں۔ ضلع میں کوئی کام آن پڑتا ہے تو ہراول دستہ پٹواریوں کا ہوتا ہے۔ پٹواریوں سے کام لیا جاتا ہے اور بہت سے خرچے ایسے ہیں جو اُنہی سے کرائے جاتے ہیں۔ پٹواری پھر اپنا حساب سائلان کی جیبوں سے پورا کرتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ محکمہ مال میں کام کروانے کیلئے رشوت دینے کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ اسے بس ایک قدرتی آفت سمجھ کر برداشت کیا جاتا ہے۔ پولیس کا بھی یہی حال ہے۔ کون سا کام تھانے میں ہوتا ہے جس میں آپ کو پیسے نہیں دینے پڑتے؟ کسی معاملے میں تفتیش مطلوب ہو تو گاڑی کا بندوبست سائل کو کرنا پڑتا ہے ۔ اہلکاروں کا مزاج ایسے بن چکا ہے کہ نخرے ختم ہی نہیں ہوتے۔ چَپے چَپے پر کام کروانے کیلئے منہ میں ہڈی ڈالنی پڑتی ہے۔ جنہوں نے ناجائز کام کروانے ہوں وہ بہتر رہتے ہیں کیونکہ اکثر اُن کے پاس مال زیادہ ہوتا ہے اور رشوت کا سلیقہ بھی اُن کا نہایت عمدہ ہوتا ہے۔
یہ تو آپ نے ڈاکٹروں کا مزاج بھی دیکھا ہوگا‘ سرکاری ہسپتالوں میں سرکاری ٹائم میں کسی ڈاکٹر سے ملیں تو آنکھیں اُٹھا کر آپ کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہی ڈاکٹر اپنے کلینک میں بیٹھا ہو اور آپ فیس لے کر جاتے ہیں تو اُس کی باچھیں پھیل جاتی ہیں۔ مسکرانا اُس کا ختم ہی نہیں ہوتا ۔ یہی حال پولیس والوں کا ہے۔ دور سے پہچان جاتے ہیں کہ آنے والا دینے والا لگتا ہے یا وقت برباد کرنے والا۔ جو سائل سے خدمت خاطر کرتا ہے تو پولیس اہلکاروں کا مزاج ہی نرالا اور مہربان ہو جاتا ہے۔ ان ضلعی ہرکاروں سے کوئی پوچھے کہ ان چیزوں کی طرف بھی آپ کا دھیان کبھی جاتا ہے یا سارا رعب دبدبہ غریبوں اور لاچاروں کیلئے ہی رکھنا ہے؟ ایک اور تماشا بھی آج کل رواج بنتا جا رہا ہے۔ کسی کام یا دادرسی کیلئے سائل افسر کے دفتر پہنچتا ہے اور افسر صاحب ٹک ٹاک بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹک ٹاک پھر اَپلوڈ بھی ہوتی ہے‘ لائکس بے شمار ملتے ہیں اور نظم ونسق کی یہ حالت بن چکی ہے کہ اوپر سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved