تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     08-10-2025

استاد کی عظمت اور سرکاری سکولوں کی حالت

ہر سال پانچ اکتوبر کو عالمی یومِ اساتذہ منایا جاتا ہے۔ اس بار ہمارے کالم ڈے اور ٹیچرز ڈے میں مطابقت نہ ہو سکی‘ اس لیے قدرے تاخیر سے اساتذہ کے بارے میں کالم آپ کے سامنے آ رہا ہے۔ ویسے پانچ اکتوبر کو ہی ہمارے شاگردوں نے ہمیں اور ہم نے اپنے اساتذہ کو پیغامات و مکالمات کے ذریعے یاد کیا۔
ٹیچرز ڈے کے موقع پر مجھے اندرون اور بیرونِ ملک سے اپنے کئی طلبہ و طالبات کے پیغاماتِ عقیدت موصول ہوئے۔ ایک استاد کیلئے وہ لمحات نہایت مسرت انگیز ہوتے ہیں جب اس کے شاگرد اپنے استاد کو شکر گزاری کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ میرے جو اساتذہ حیات ہیں وہی میرے لیے سرمایۂ حیات ہیں۔ میں نے ٹیچرز ڈے پر اپنے استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی کو پہلے میسج ارسال کیا اور پھر کال کرکے انہیں سلامِ عقیدت و محبت پیش کیا۔ میرے جو اساتذہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں‘ ان کی بلندیٔ درجات کیلئے بطورِ خاص دعا کی۔
دنیا میں بڑی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ آج AI یعنی مصنوعی ذہانت کا دور دورہ ہے۔ کلاسوں میں شفقت و محبت کے پیکر اساتذہ کے بجائے روبوٹس بچوں کو پڑھانے کا تجرباتی فریضہ انجام دینے لگے ہیں۔ اس کے باوجود مشرق ہو یا مغرب‘ ہر جگہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا دورِ جدید کا مشینی افلاطون ایک گوشت پوست کے پیکرِ صدق و صفا استاد کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اس لیے ساری دنیا میں نہایت گرم جوشی سے عالمی یومِ اساتذہ منایا جاتا ہے۔
آج کی ناراض نوجوان نسل کو اساتذہ کی عظمت کے بارے میں عظیم اقوال ایک بار پھر انہیں یاد دلا دوں۔ ایمرسن نے کہا تھا ''بڑا استاد وہ نہیں ہوتا جو ہمیں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ بڑا استاد وہ ہوتا ہے جس کی موجودگی ہمیں ایک مختلف انسان بنا دیتی ہے‘‘۔ ایک بار پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ایک حقیقی معلم ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کے اندر کی روشنی کو باہر لاتا ہے‘ جو لوگوں کو بلندیوں کی راہیں دکھاتا ہے‘ جو دلوں کو (اقبال کے الفاظ میں) سوزو سازِ آرزو اور ذوق و شوق کی حرارت سے بھر دے‘ جو خود کسی مقصد کا دیوانہ ہوتا ہے اور دوسروں میں بھی ایسی ہی خوبصورت دیوانگی پیدا کر دیتا ہے۔ ہم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے عظیم اساتذہ نے ہمیں بتایا کہ صرف حرف شناس نہ بنو بلکہ خود شناس اور خدا شناس بنو۔ اللہ نے ہمیں بھیرہ‘ سرگودھا سے لے کر کیمبرج یونیورسٹی تک علوم کے بحرِ بیکراں اساتذہ سے ملنے اور فیضانِ نظر سے دل کی دنیا بدلنے والے معلمین سے کسبِ فیض کا موقع عطا کیا۔عالمی یومِ اساتذہ کے موقع پر ہمارے حکمرانوں نے بھی اساتذہ کو سلام پیش کیا اور استاد کی خدمت اور کردار کو سراہا۔ مگر جب یہی استاد صرف زندہ رہنے کیلئے اپنا حق مانگتا ہے یا اپنی عارضی ملازمت کو مستقل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے وحشیانہ سلوک سے ہر صوبے کے واجب الاحترام اساتذہ کرام کو نوازا گیا ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں سرکاری تعلیمی اداروں کو اپنے لیے بوجھ تصور کرتی ہیں اور آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی تجویز سوچتی رہتی ہیں تاکہ اس ذمہ داری سے جان چھڑا سکیں۔ اگر لوکل حکومتیں برسرِکار ہوتیں تو پھر یہ فریضہ بطریقِ احسن انجام دیا جا سکتا تھا مگر ہر صوبے میں تمام شہروں کے مقامی وسائل کی بھی صوبائی حکومتیں مالک و مختار بنی ہوئی ہیں۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں آؤٹ سورس کیے گئے سکولوں میں معیارِ تعلیم بہت گر چکا ہے۔ والدین بیچارے سخت پریشان ہیں۔ ٹھیکے پر دیے گئے سکولوں میں 21 فیصد اساتذہ میٹرک اور ایف اے ہیں۔ صرف 24 فیصد کے پاس ٹیچرز ٹریننگ کی ڈگری ہے۔بہتر تعلیمی ڈگریوں والے نوجوانوں نے بدترین بیروزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان سکولوں میں بادل نخواستہ ملازمت اختیار کی ہو گی جن میں انہیں 20 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہاں کوئی بیماری الاؤنس نہیں‘ نہ کسی پنشن کا کوئی تصور ہے۔ پنجاب میں جن سکولوں کو ابھی تک آؤٹ سورس نہیں کیا گیا وہاں بھی اساتذہ کے سروں پر یہ تلوار لٹک رہی ہے کہ کسی وقت بھی ان اداروں کو بھی ڈیلی ویجز پر ٹھیکیداروں کے سپرد کر کے حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گی۔
اب ذرا پنجاب کے سرکاری سکولوں کی حالتِ زار ملاحظہ کیجیے۔ ذیل میں ہم پنجاب کی ایک اہم تحصیل کے ایک گرلز سکول کی حقیقی تصویر پیش کر رہے ہیں جو سو فیصد مصدقہ ہے۔ یہ ایک ہائر سیکنڈری سکول ہے جس میں چھٹی سے بارہویں جماعت تک کی طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس سکول میں بچیوں کی تعداد تقریباً دو ہزار ہے۔ نویں جماعت کے چار سیکشن ہیں اور ہر سیکشن میں طالبات کی تعداد 135 ہے۔ کمرے میں چالیس‘ پینتالیس کرسیاں ہیں۔ باقی کچھ بچیاں ڈیسکوں کی قطاروں کے درمیان خالی جگہ‘ آگے ٹیچر کے قدموں اور کچھ کمرے سے باہر برآمدے میں زمین پر بیٹھتی ہیں۔ دسویں جماعت میں اس طرح کے چار سیکشنوں میں فی کمرہ تعداد 120 کے قریب ہے۔ ایلیمنٹری سیکشن میں ایک سو سے لے کر 110 طالبات فی کمرہ ہوتی ہیں کیونکہ یہاں سیکشن نسبتاً زیادہ ہیں۔ دو ہزار بچیوں کیلئے صرف 25 ٹیچرز ہیں۔ جی ہاں! بالکل ایسے ہی ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں بورڈ اور دیگر کلاسوں کے نتائج کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہو گی۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ میں نے اس سکول کے واقفِ حال سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو اس نے مجھے نتائج بتا کر حیران کر دیا۔ انٹر میڈیٹ‘ کہ جہاں ایف ایس سی پری میڈیکل اور کامرس وغیرہ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے‘ کا نتیجہ گزشتہ برس 87 فیصد‘ دسویں کا 90 فیصد اور نویں جماعت کا 70 فیصد تھا۔ میں نے واقفِ حال سے پوچھا کہ اس ''کھلے تضاد‘‘ کا کیا سبب ہے؟ سہولتیں ناپید‘ اساتذہ کی تعداد انتہائی کم اور نتائج اتنے شاندار۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امتحانات لینے کا عملہ باہر سے آتا ہے۔ پرچوں کی مارکنگ بورڈ میں ہوتی ہے۔ اس نے میری خوشگوار حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہائر سیکنڈری سکول میں پڑھانے والی صرف ایک مضمون کی ٹیچرایم اے پاس ہے۔ باقی ساری کی ساری وہی ایس ایس ٹی اور ای ایس ٹی ٹیچرز ہیں۔ برسوں کا تدریسی تجربہ رکھنے والی یہ ٹیچرز اپنے سکول کی برسوں پرانی تابندہ روایات کو برقرار رکھنے کیلئے پتّہ مار کر کام کرتی ہیں جبکہ وزارتِ تعلیم پنجاب کی طرف سے مدرسات کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کا نظام بھی موجود ہے۔ پنجاب کے دیہی سکولوں کا ہر جگہ یہی نقشہ ہے۔ دیہی علاقوں کے یہ سکول ہمارے نظام تعلیم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ابھی چند سال پہلے تک طلبہ و طالبات انہی سکولوں سے زیورِ تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور‘ سرکاری میڈیکل کالجوں اور سی ایس ایس کی اوّلین پوزیشنز پر پہنچتے تھے۔ تعلیم کو اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل رکھنے والی وزیراعلیٰ سے درخواست کریں گے کہ وہ سرکاری سکولوں کے نہایت محنتی اساتذہ کے سروں پر لٹکتی ہوئی نجکاری کی تلواریں ہٹائیں۔ ان اساتذہ کی برسوں سے رکی ہوئی ترقی بحال کریں‘ اساتذہ کی کمی کو پورا کریں نیز سکولوں کی حالت زار کو درست کریں اور فی سیکشن تعداد کسی بھی صورت میں 50 سے اوپر رکھنے کو ممانعت دیں۔ ان سرکاری سکولوں میں نئی تعمیرات کریں اور جہاں جہاں ضرورت ہو وہاں نئے سکول بھی تعمیر کیے جائیں۔ پنجاب کے سرکاری سکولوں سے حاصل کردہ معلومات کے بعد تو ہم دل کی گہرائی سے ان سکولوں کے اساتذہ کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ پنجاب کے جواں سال اور جواں ہمت وزیر تعلیم رانا سکندر حیات بھی اصلاحِ احوال کی پوری کوشش کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved