پاکستان نے ہمیشہ ایسی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو اور جس کی حد بندی 1967ء کی سرحدوں کے مطابق کی جائے۔ ہماری وزارتِ خارجہ کا مؤقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ مسئلہ فلسطین کسی فردِ واحد یا کسی مغربی پالیسی ساز کے یکطرفہ فیصلے سے حل نہیں ہو سکتا‘ یہ ایک ایسا مذہبی اور سیاسی تنازع ہے جس کی جڑیں صدیوں کی تاریخ میں پیوست ہیں۔ اس تنازع کا پائیدار حل القدس شریف کو آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی میں مضمر ہے۔ اگرچہ عالمی طاقتیں اس اہم مسئلے کا وقتاً فوقتاً عارضی حل پیش کرتی رہی ہیں‘ مگر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نظریے پر کاربند رہیں۔
غزہ کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا حالیہ 20 نکاتی امن منصوبہ سامنے آنے کے باوجود فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ منصوبہ سامنے آنے کے بعد برطانوی میڈیا کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ حماس اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دے گی کیونکہ حماس نے فوری ہتھیار ڈالنے سمیت اس منصوبے کی دیگر کئی شقوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اسے منصوبے کے نکات پر مزید غور کیلئے وقت درکار ہے۔ حماس اسرائیل کے غزہ سے مکمل انخلا اور اپنے رہنماؤں کی فلسطین کے اندر بے خوف وخطر نقل وحرکت اور ان کی جان کے تحفظ کی ضمانت چاہتی ہے۔ اسی لیے حماس نے امریکی صدر کے غزہ پلان کی چند شقوں میں ترامیم کا مطالبہ کیا۔ حماس کے غیر مسلح ہونے سے انکار کے بارے میں امیرِ قطر نے بھی صدر ٹرمپ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دیتے ہوئے غزہ امن منصوبہ قبول کرنے کیلئے پانچ اکتوبر شام چھ بجے تک کا الٹی میٹم دیا۔ تاہم اسی روز یہ خبر سامنے آگئی کہ حماس نے بڑی حد تک غزہ امن منصوبہ قبول کر لیا ہے۔ حماس تمام یرغمالیوں کوواپس کرنے پر آمادہ ہو گئی اور وہ ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں شامل ہونے کو بھی تیار ہے۔ سوموار کو دو سالہ غزہ جنگ کے خاتمے کیلئے اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری مذاکرات میں حماس کے وفد کی سربراہی خالد الحیہ کر رہے ہیں جو گزشتہ ماہ دوحہ میں اسرائیلی حملے میں بال بال بچے تھے جبکہ اسرائیلی ٹیم کی قیادت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے مشیر رون ڈرمر کر رہے ہیں۔ مصر اور قطر ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ فریقین اگر کسی معاہدے پر متفق نہ ہوئے تو امریکی حکومت اپنا متبادل فارمولا پیش کریگی تاکہ فوری جنگ بندی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ حماس کی امن معاہدے پر آمادگی اور مذاکرات کے آغاز کے باوجود غزہ میں اسرائیلی بربریت تھمنے میں نہیں آ رہی۔ اسرائیلی افواج نہ صرف غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہیں بلکہ غزہ میں بھوک سے بلکتے بچوں کیلئے خوراک‘ ادویات اور دیگر ضروریات کا سامان لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل افراد کو گرفتار کرکے ان کی کشتیوں کو بھی تحویل میں لے لیا گیا۔ اگرچہ سابق سینیٹر مشتاق احمد سمیت بیشتر قیدیوں کی رہائی عمل میں آ چکی ہے مگر امدادی سامان کو جس طرح غزہ پہنچنے سے روکا گیا‘ اس پر پوری دنیا سراپا احتجاج ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بارہا اعلان کر چکا کہ اسرائیل غزہ نہیں چھوڑے گا‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی امن منصوبے کی سب سے بڑی رکاوٹ خود اسرائیلی حکومت ہے۔
اس ساری صورتحال میں پاکستان کی پالیسی ہینڈلنگ پر اس وقت سوالات اٹھے جب ایک طرف وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے پیش کردہ امن نکات میں مسلم ممالک کے نکات شامل نہیں اور پاکستان کوشش کرے گا کہ وہ نکات شامل ہوں‘ جبکہ دوسری طرف منصوبے کے اعلان کیساتھ ہی وزیراعظم شہباز شریف نے فوراً صدر ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کر دی۔ اس صورتحال سے عوام میں کنفیوژن پیدا ہوئی اور اپوزیشن کو موقع مل گیا کہ وہ اس اقدام کو بالواسطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف قرار دے۔ حکمرانوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ فلسطین کے حوالے سے کسی بھی عالمی منصوبے کی غیر مشروط تائید یا پارلیمانی منظوری کے بغیر اس کی حمایت نہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کے دوٹوک فیصلے بلکہ پاکستان کی ریاستی پالیسی کے بھی منافی ہے۔ اسی تناظر میں ایک اہم خبر روزنامہ دنیا کے کالم نگار اور سینئر رپورٹر محمد حسن رضا نے دی‘ جس کے مطابق پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران فلسطین کانفرنس میں شرکت نہیں کی‘ جس کے باعث پاکستان اس معاملے پر اپنا مؤقف پیش کرنے سے محروم رہا۔ اس کے برعکس 33 مسلم ممالک کے سربراہان نے فلسطین کانفرنس میں اپنا مضبوط مؤقف پیش کیا۔ حیران کن طور پر پاکستانی وفد نے اس کانفرنس میں محدود سرگرمی دکھائی‘ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ ہماری سفارتی تیاری مکمل نہیں تھی۔ امریکہ ہمیشہ اپنی مخصوص حکمت عملی اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے مسلم قیادت کو زیرِ اثر لانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان جھکنے کیلئے نہیں‘ اٹھنے کیلئے ہیں۔ مسلمانوں کی اصل طاقت قرآن‘ اتحاد اور خودی میں ہے نہ کہ امریکہ کی خوشنودی میں۔ مسلم ممالک کو احساس ہونا چاہیے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی سادہ قیادت اور عدل سے بیت المقدس کی کنجیاں حاصل کی تھیں۔ اسی طرح حضرت علیؓ، حضرت خالدؓ بن ولید اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے معرکوں کی حکمت عملی آج بھی امت کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ اس تناظر میں صدر ایوب خان کا وہ تاریخی خط یاد آتا ہے جو انہوں نے انڈو چائنا جنگ کے بعد امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو لکھا تھا‘ جس میں پاکستان کے اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ کی بھارت نوازی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس خط کو بعد میں کلاسیفائڈ کر دیا گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک ملاقات میں سرسری طور پر مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے صدر کینیڈی کو باور کرایا کہ پاکستان ابتدا سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے لیکن اگر امریکہ نے بھارت نوازی کی پالیسی ترک نہ کی تو یہ اتحاد کمزور ہو جائے گا۔ یہی وہ موقع تھا جسکے بعد پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں محتاط رویہ اختیار کرنا شروع کیا۔
ملک کے مقتدر حلقوں کو ادراک ہو گا کہ مشرقِ وسطیٰ کی تیزی سے بدلتی صورتحال کیساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کا نقشہ بھی تزویراتی تبدیلیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نریندر مودی اپنے سیاسی کیریئر کے انتہائی حساس مقام پر کھڑے ہیں۔ بھارت میں درجنوں علیحدگی پسند تحریکیں جاری ہیں جنہیں ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش ہو رہی ہے جبکہ پاکستان کے خلاف بھارتی فنڈنگ اور پروپیگنڈا بھی جاری ہے‘ تاہم فیلڈ مارشل عاصم منیر کی حکمتِ عملی نے ان سازشوں کو بڑی حد تک ناکام بنایا ہے۔ حالیہ سفارتی کامیابیوں کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بنے رہے۔ مستقبل کیلئے بھی یہ ضروری ہوگا کہ آئینی و عسکری سطح پر ایسی حکمتِ عملی اپنائی جائے جس سے ملک کا نظام مستحکم ہو کیونکہ ایک مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچے کے بغیر معاشی‘ پارلیمانی اور دفاعی استحکام ممکن نہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی آج بھی وہی ہے جو ہمیشہ سے رہی کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک فلسطین کو مکمل آزادی اور خودمختاری حاصل نہیں ہوتی۔ البتہ ضروری ہے کہ اپنے داخلی نظام کو مضبوط اور خارجہ مؤقف کو واضح رکھا جائے تاکہ قومی وحدت اور امتِ مسلمہ کے ساتھ یکجہتی برقرار رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved