تحریر : محمد حسن رضا تاریخ اشاعت     08-10-2025

ترقی آن لائن، عوام آف لائن

پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ کسی مصور کی ادھوری پینٹنگ کی طرح ہے۔ ایک طرف رنگ اتنے چمکدار ہیں کہ آنکھیں چندھیا جائیں‘ دوسری طرف مٹی کی خوشبو اتنی دھندلا چکی ہے کہ شناخت مٹنے لگی ہے۔ ایک صوبہ ہے جو اپنے پُلوں اور انڈرپاسوں کی وجہ سے خود کو ترقی کا مترادف سمجھ بیٹھا ہے‘ اور دوسرا صوبہ ہے جو اَب بھی پرانے وعدوں اور روایتی نعروں کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔ دونوں سمتوں میں شور بہت ہے مگر سکون کہیں نہیں۔ یہ ملک دو مختلف مکاتبِ سیاست کا قیدی بن چکا ہے۔ ایک سوچ رفتار کو ترقی سمجھتی ہے‘ دوسری روایت کو اقتدار کا جواز۔ ایک طرف نظم ہے مگر احساس نہیں‘ دوسری طرف احساس ہے مگر نظم ندارد۔ شاید یہی تضاد اس قوم کی سیاست کا مستقل چہرہ بن گیا ہے۔ سب سے بڑے صوبے نے گزشتہ برسوں میں ترقی کا ایک نیا بیانیہ تراشا۔ چمکتی سڑکیں‘ ایپس‘ ڈیجیٹل دفتری نظام اور نعرہ کہ ہم بدل رہے ہیں۔ بجٹ کے حساب سے ترقیاتی رقم 842 ارب روپے ہے جس میں 270 ارب انفراسٹرکچر‘ 200 ارب سماجی بہبود اور تعلیم اور 150 ارب صحت وزراعت کیلئے مختص ہیں۔ کاغذوں میں یہ اعداد وشمار بلاشبہ متاثرکن ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترقی صرف بڑے شہروں کی فوٹو گرافی تک محدود ہے یا واقعی دیہی زندگی میں بھی سانس لیتی ہے؟ صفائی مہموں کے پوسٹرز لگے ہیں مگر گلیوں کے نالے بدبودار ہیں۔ ڈیجیٹل سکولوں کے اشتہارات تو ہیں مگر کئی اضلاع میں کلاس روم خالی۔ ای ہیلتھ سنٹرز کا شور ضرور ہے مگر بنیادی مراکز صحت میں ڈاکٹر مفقود۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ شہری مسائل کے حل کیلئے آن لائن پورٹل نے انقلاب برپا کر دیا ہے مگر دیہات میں اب بھی شکایات وہیں رکتی ہیں جہاں پرانی فائلیں رکتی تھیں۔ پانی بچانے‘ پشتے مضبوط کرنے اور سیلاب سے بحالی کے منصوبے بلاشبہ اہم ہیں۔ رپورٹوں میں بتایا گیا کہ سیلاب سے سترہ لاکھ افراد متاثر ہونے سے بچ گئے مگر زمینی حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔ کئی علاقوں میں حفاظتی پشتے اب بھی کاغذوں پر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا بڑا حصہ 'کامیاب پورٹنگ‘ ہے زمینی کارکردگی نہیں۔ یعنی ترقی کی تصویر تو مکمل ہے مگر فریم خالی ہے۔
ادھر سندھ کے ساحلوں سے صحراؤں تک کہانی مختلف نہیں۔ بجٹ کے اعداد وشمار کہیں زیادہ ہیں‘ وعدے کہیں بڑے مگر حقیقت وہی پرانی۔ 3.05 ٹریلین روپے کے صوبائی بجٹ میں سے 959 ارب ترقیاتی منصوبوں کیلئے رکھے گئے مگر عملدرآمد کی رفتار ماضی سے زیادہ سست ہے۔ جنوبی اضلاع اب بھی بحالی کے انتظار میں ہیں۔ دو سال گزرنے کے باوجود سیلاب کے زخم بھر نہیں سکے۔ عالمی بینک کے اشتراک سے شروع ہونے والا ''Climate Resilient Sindh Program‘‘ 300 ملین ڈالر کے پراجیکٹس پر مشتمل تھا مگر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق ان فنڈز کا صرف 42 فیصد استعمال ہوا۔ بدین‘ ٹھٹھہ‘ دادو‘ سجاول اور خیرپور جیسے اضلاع میں بحالی کے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ سندھ حکومت اپنی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پالیسی کو کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہے‘ 700 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں مگر عوامی سطح پر شفافیت اور احتساب دونوں غائب ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق صوبے میں 87 فیصد شہری سرکاری اداروں سے معلومات حاصل کرنے کو ''بہت مشکل‘‘ سمجھتے ہیں۔ کراچی جیسا شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا‘ آج گرد‘ شور‘ پانی کی قلت اور بے ترتیب ٹریفک میں ڈوبا ہوا ہے۔ کے فور واٹر سپلائی پراجیکٹ جو 2016ء میں شروع ہوا تھا‘ 2025ء تک بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ شہر سے نلکوں میں اب پانی کم اور مایوسی زیادہ بہتی ہے۔
دونوں صوبوں کی کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوئے بھی خاصی مماثلت رکھتی ہیں۔ ایک طرف تیز رفتار منصوبے ہیں جن کا اثر کم اور چرچا زیادہ ہے‘ دوسری طرف وہ حکمرانی ہے جس کے وعدے پرانے اور نتائج محدود ہیں۔ حکومتوں کے جاری کردہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ترقی ہو رہی ہے‘ غربت کم ہو رہی ہے‘ تعلیم پھیل رہی ہے مگر عوامی تجربہ کچھ اور کہتا ہے۔ ایک طرف چمکتا لاہور ہے‘ دوسری طرف جلتا دادو۔ یہ دعوے ہیں لیکن حقیقت اکثر خاموش رہتی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں فی کس آمدنی سندھ سے 14 فیصد زیادہ ہے‘ شرح خواندگی 67 فیصد جبکہ سندھ میں 59 فیصد ہے اور صحت کے شعبے میں ہر 1200 افراد پر ایک ڈاکٹر ہے ‘ سندھ میں 2100 افراد پر۔ مگر یہ ''بہتری‘‘ کہاں دکھائی دیتی ہے؟ اگر ترقی واقعی اتنی ہے تو احساسِ محرومی کیوں ہے؟ وفاقی بجٹ کی تقسیم بھی اسی کہانی کا تسلسل ہے۔ پنجاب کو 43 فیصد‘ سندھ کو 27 فیصد حصہ دیا گیا۔ یہ محض اعداد نہیں یہ احساسات کا حساب ہے۔ مرکز جب توازن کھوتا ہے تو صوبے بیانیے بناتے ہیں۔ ایک شکایت کرتا ہے کہ اسے کم دیا گیا‘ دوسرا سمجھتا ہے کہ اسے زیادہ سمجھا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ فاصلہ بڑھ رہا ہے‘ نہ صرف وسائل میں بلکہ سوچ میں بھی۔ وفاقی نظم توازن کا نام ہونا چاہیے‘ مگر یہ اکثر سیاسی جھکاؤ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایک طرف رفتار کی سیاست ہے دوسری طرف جذبات کی سیاست ہے جو نعروں میں پناہ لیتی ہے۔ دونوں اپنی جگہ درست مگر ادھورے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام دونوں جگہ مختلف مگر نتیجہ ایک سا ہے۔ ایک طرف شہری ووٹر ہے جو نظم‘ ترقی اور سڑکوں کے خواب دیکھتا ہے۔ دوسری طرف روایتی ووٹر ہے جو تعلق‘ تاریخ اور نام سے جڑا ہوا ہے۔ ایک کو ترقی چاہیے‘ دوسرے کو تسلیم مگر دونوں کو انصاف نہیں ملا۔ دونوں فریق اس خوش فہمی میں ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ واقعی اتنا یقین ہے تو شفاف انتخابات سے کیوں گھبراتے ہیں؟ عوام کا مزاج اب واضح ہے‘ عمران خان چاہے جیل میں ہو‘ مگر گلیوں کے لہجے اور نوجوانوں کی آنکھوں میں اب بھی وہی ہے۔ سیاست اگر یقین پر قائم ہے تو پھر امتحان سے گزرنے میں خوف کیسا؟
یہ تضاد اب قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک طرف جدیدیت کی دوڑ ہے دوسری طرف احساسِ محرومی کی گہری دراڑ۔ ملک ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں سیاست کا بیانیہ قومی نہیں رہا‘ صوبائی‘ ذاتی اور وقتی مفادات میں بٹ چکا ہے۔ اگر ایک صوبہ روشنیوں میں ہے اور دوسرا اندھیروں میں تو یہ ترقی نہیں تقسیم کہلاتی ہے۔ پاکستان کو اب سیاسی رنگوں کے امتزاج کی ضرورت ہے نہ کہ مقابلے کی۔ جہاں ایک شہر کی چمک دوسرے کی مٹی کو نظر انداز نہ کرے۔ جہاں اربوں روپے کے منصوبے دکھاوے سے نکل کر انسانوں کی زندگی میں اتریں۔ ترقی وہ نہیں جو بل بورڈز پر دکھائی دے بلکہ وہ ہے جو گاؤں کے سکول اور شہر کے ہسپتال میں محسوس ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب تماشا کہاں سے چلایا جا رہا ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دو صوبوں کے مابین یہ سیاسی کشمکش روز بروز گہری ہو رہی ہے؟ کہیں یہ محاذ کسی بڑی حکمتِ عملی کا حصہ تو نہیں‘ جس میں مرکز اپنی گرفت مضبوط رکھے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ وہی ہاتھ جو بیرونی ملاقاتوں میں لہراتے ہیں‘ اب اندرونی اتفاق کیلئے اٹھنے چاہئیں۔ یہ وقت ہے کہ قیادت حقیقت کی زمین پر قدم رکھے۔ چمک اور مٹی دونوں کو ایک تصویر میں جوڑے‘ روشنی اور سایہ مل کر مکمل رنگ بنائیں۔ کیونکہ یہ ملک صرف رفتار سے نہیں توازن سے آگے بڑھے گا۔ اگر کسی کو اب بھی یہ گمان ہے کہ سب اچھا ہے‘ سب کام مکمل ہیں تو یہ خود فریبی ہے۔ عوام اب تقریر نہیں نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں‘ اور یہ بات سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت مرکز سیاسی جماعتیں نہیں کوئی اور ہے‘ اور عالمی سطح پر مرکز کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر بھی مکمل کنٹرول ہے۔ اس لیے یہ پیسوں پر نعروں‘ بیانات‘ دعووں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے نکل کر خدمت پر توجہ دیں۔ جو یہ حقیقت نہ سمجھے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ رات تو دُور دن میں بھی تارے نظر آ جاتے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved