سرگودھا پاکستان کا ایک اہم شہر ہے اور پاک فضائیہ کے مرکز کے حوالے سے مشہور ہے۔ پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح سرگودھا میںبھی تجارتی سرگرمیوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ سرگودھا کی سڑکیں کشادہ ہیں اور یہاں بڑی تعداد میں بلند اور خوبصورت عمارتیں بھی موجود ہیں۔ مجھے لاہور میں سرگودھا یونیورسٹی سے وابستہ ایک کالج سے اسلامیات میں ایم فل کرنے کا موقع بھی میسر آیا۔ ایم فل کے مقالے کو جمع کرانے اور اس کی آخری بحث کیلئے مجھے سرگودھا جانا پڑا تھا۔ سرگودھا یونیورسٹی ایک بڑی یونیورسٹی ہے‘ جس میں طالب علموں کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ سرگودھا میں اس وقت بہت سے تعلیمی اداروں کی شاخیں بھی کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کے دیگر بہت سے شہروں کی طرح سرگودھا میںبھی گاہے گاہے دینی اجتماعات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے اور دینی ذوق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں پر سرگرم رہتی ہے۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام سرگودھا میں ختم نبوت کے عنوان پر سالانہ ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ضلع بھر سے ہزاروں افراد شریک ہوتے اور ختم نبوت کے عظیم عقیدے کے ساتھ وابستگی اور اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی ایک سرکردہ مذہبی تنظیم ہے جس کا بنیادی مقصد ہی ختم نبوت سے متعلقہ معاملات پر قوم کو مجتمع کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے۔ اس کا مرکز چناب نگر میں واقع ہے جہاں سالانہ اجتماع میں ملک بھر سے ختم نبوت سے محبت کرنے والے لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ مجھے ماضی میں چناب نگر کی کانفرنس میں تسلسل کے ساتھ شرکت کا موقع ملتا رہا۔ مجلس کے زیر اہتمام پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔ ختم نبوت کے موضوع پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے محققین منظم مواد کو نشر کرتے رہتے اور ان کے مبلغین دعوتی سرگرمیوں کیلئے اندرون اور بیرون ملک مسلسل سفر کرتے رہتے ہیں۔
دو ماہ قبل مجلس تحفظ ختم نبوت ضلع سرگودھا کے منتظمین لاہور میرے پاس ملاقات کیلئے آئے اور تقاضا کیا کہ میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کروں۔ میں نے اس کانفرنس میں شرکت کی ہامی بھر لی جسکا بنیادی مقصد ختم نبوت کے حوالے سے اپنی معروضات اور گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھنا تھا اور اس کیساتھ ساتھ ان دین پسند کارکنان سے ملاقات کرنا بھی مقصود تھا جو عرصہ دراز سے میری آمد کے منتظر تھے۔ دو اکتوبر کو جب مغرب کی نماز کے بعد میں سرگودھا پہنچا تو قرآن وسنہ موومنٹ کے رہنما یوسف خان‘ افضل خان اور دیگر رفقا استقبال کیلئے موجود تھے۔ دوستوں سے پُرجوش ملاقات ہوئی اور بہت سے مذہبی اور سیاسی عناوین پر تبادلہ خیال ہوا۔ بعد ازاں ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کیلئے ہم مرکزی عیدگاہ پہنچے۔ سٹیج پر بڑی تعداد میں جید علماء اور اکابرین موجود تھے۔ علماء کرام اپنے جذبات اور خیالات کا پُروقار انداز میں اظہار کرتے رہے۔ بعد ازاں مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کوکچھ ترامیم اور اضافے کیساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
ختم نبوت کے حوالے سے کتاب وسنت کے دلائل بہت واضح ہیں۔ سورۃ الاحزاب کی آیت: 40 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ ''محمد (ﷺ) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔ جہاں قرآنِ مجید نے مسئلہ ختم نبوت کو واضح کیا‘ وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم‘ مسند احمد اور سنن الکبریٰ للبیہقی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: میری اور سابق انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص نے ایک خوبصورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کر اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ''قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی‘ جب تک تیس بڑے کذاب نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ ''رسول اللہﷺ جب جنگ تبوک کیلئے نکلے تو آپﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ حضرت علیؓ نے عرض کی کہ (میں تو میدانِ جنگ کا سوار ہوں) کیا آپ مجھے بچوں اور خواتین کے پاس چھوڑکر جانا چاہتے ہیں؟ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ کو ہارون (علیہما السلام) سے تھی‘ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ''بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء کرام حکومت کرتے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہو جاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہوگا تاہم خلفا ہوں گے اور تعداد میں بہت ہوں گے‘‘۔ سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''میرے بعد تیس بڑے جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔
جہاں ختم نبوت کا عقیدہ کتاب وسنت سے بالکل واضح ہے وہیں قرونِ اولیٰ سے اس عقیدے کے تحفظ کے حوالے سے جدوجہد جاری ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف جو جنگ ہوئی تھی‘ اس کابنیادی مقصد عقیدہِ ختم نبوت ہی کا دفاع کرنا تھا۔ تاریخ اسلام میں کئی لوگوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کیے لیکن نبوت کا ہر جھوٹا دعویدار ذلت سے دوچار ہوا۔ سقوطِ خلافت کے بعد ختم نبوت کے حوالے سے سازشوں نے ایک مرتبہ پھر زور پکڑا۔ مسلمان جب سیاسی اعتبار سے کمزور ہوئے تو موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے بہت سے جھوٹے دعویدار منظر عام پر آئے۔ بہائی‘ بابی اور قادیانی فتنے اسی دور کی یادگار ہیں۔ بابی اور بہائی فتنے نے ایران اور گرد ونوا ح کے علاقے پر اثرات چھوڑے تو قادیانی فتنے نے برصغیر پر منفی اثرات مرتب کیے۔ تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے کتاب وسنت کی روشنی میں اس فتنے کا انسداد کرنے کی بھرپور کوشش کی اور لٹریچر اور اجتماعات کے ذریعے اس فتنے کی بیخ کنی کیلئے امت کی ذہن سازی کی۔ 7 ستمبر 1974ء کو آئین پاکستان میں ختم نبوت کے عقیدے کے دفاع پر اتفاق کیا گیا اور قانونی طور پر ان تمام لوگوں کو دائرہِ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا جو نبی کریمﷺ کے بعد کسی اور شخص کے جھوٹے دعویٰ نبوت پر یقین رکھتے‘ اس کی تائید کرتے یا جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو مصلح اور امام قرار دیتے ہیں۔ بعد ازاں امتناعِ قادیانیت سے متعلقہ شقوں کو بھی آئین کا حصہ بنا دیا گیا جن کے تحت ختم نبوت سے انحراف کرنے والے گروہوں کی اعلانیہ دعوت وتبلیغ پر پابندی عائد کر دی گئی اور ان کی تاویلات اور تحریفات پر مبنی لٹریچر کے اسلام کے ساتھ کسی بھی تعلق کے دعوے کو مسترد کر دیا گیا۔
علمائے اسلام ہر دور میں اس فتنے کی سرکوبی کیلئے بیدار اور مستعد رہے ہیں اور ختم نبوت سے متعلقہ اجتماعات میں جہاں دینی اعتبار سے ختم نبوت کے عقیدے کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے وہیں تجدید عزم بھی کیا جاتا ہے کہ آئین وقانون میں اس حوالے سے کسی رخنہ اندازی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ختم نبوت کے حوالے سے اس اجتماع میں شرکا نے بڑی دلچسپی کے ساتھ مقررین کے خطابات کو سنا اور ختم نبوت کے حوالے سے ہر طرح کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ یوں مرکزی عیدگاہ سرگودھا میں ہونے والی کانفرنس بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved