جب تک مغلوں کے ہاتھ میں تلوار رہی اور جب تک وہ گھوڑے کی پیٹھ پر رہے‘ ان کی خوراک سادہ رہی اور سادہ نہیں بھی تھی تو مختصر ضرور تھی۔ جدوجہد کی زندگی میں تکلفات‘ لوازمات اور نزاکتوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عباس تابش نے کمال کا شعر کہا ہے:
حالتِ جنگ میں آدابِ خور و نوش کہاں
اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ
بابر‘ اکبر اور ہمایوں کی زندگی سلطنت کو استحکام دیتے گزر گئی۔ جہانگیر نور جہاں کے چنگل میں ایسا پھنسا کہ خود ہی کہہ دیا کہ شراب اور تھوڑے سے گوشت کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔ شاہ جہان کو بیماریوں نے گھیرے رکھا۔ آخری آٹھ برس نظربندی میں گزار دیے۔ روایت ہے کہ قید کے ایام میں زیادہ تر مسور کی دال کھاتا تھا کہ اس میں‘ بقول کسے‘ زہر نہیں حل ہوتا۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ذہن میں رہے کہ نیکوکار اور پارسا اورنگزیب باپ کے آخری آٹھ برسوں میں اسے ایک بار بھی نہ ملا۔ رہا خود اورنگزیب تو آخری پچیس سال دکن کے میدانوں میں مسلسل برسر پیکار رہا۔ باجرے کا دلیا‘ سپاہیوں کے ساتھ ہی کھاتا تھا۔ (یہی آخری پچیس سال سلطنت کے زوال کا باعث بنے)۔ اورنگزیب کے بعد کا زمانہ مسلسل زوال کا تھا اور زبردست عیاشیوں کا! سلطنت بکھری تو صوبوں کے گورنروں نے خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ جیسے حیدرآباد دکن میں نظام نے اور نوابانِ لکھنؤ نے اودھ میں۔
پھر وہ وقت آیا کہ ان خودمختار ریاستوں میں ایک ایک انگریز آکر بیٹھ گیا۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ ہوتا تھا۔ اسے ''ریزیڈنٹ‘‘ کہتے تھے۔ یہ اصل حکمران ہوتا تھا۔ داخلہ‘ خارجہ پالیسیاں اسی کے ہاتھ میں ہوتیں۔ کالم کی تنگ دامانی کی وجہ سے صرف اودھ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔ اودھ کے دارالحکومت لکھنؤ میں ریزیڈنٹ 1773ء میں تعینات ہوا۔ اس کے بعد 83برس تک اصل حکومت انگریزوں کے پاس رہی۔ دیسی حکمرانوں کے پاس ''ثقافت‘‘ کی ترویج کے علاوہ کرنے کو کچھ نہیں تھا یہاں تک کہ آخری حکمران واجد علی شاہ کو 1856ء میں انگریزوں نے پکڑ کر کلکتہ بھیج دیا جہاں وہ مشہور عالم مٹیا برج میں ٹوٹی پھوٹی باقی ماندہ عیاشی کرتا رہا۔ ان تراسی برسوں میں سات حکمرانوں نے ہر وہ عیاشی کی جس کا وجود ممکن تھا۔ دربار میں طوائفوں کے ہجوم ہوتے۔ بھانڈوں کی سرپرستی کی جاتی۔کبوتر بازی‘ بٹیر بازی اور مرغ بازی نے خوب ترقی کی۔ کنکوے بازی نے بھی عروج پایا مگر سب سے زیادہ توجہ کھانے پر رہی۔ محمد باقر شمس ''داستانِ لکھنؤ‘‘ میں لکھتے ہیں ''واجد علی شاہ کا باورچی حیدر بخش روٹی سالن‘ کباب‘ قورمہ‘ شیرمال‘ پلاؤ‘ زردہ‘ ہر کھانا مونگ کی دال کا پکاتا۔ تین سو ساٹھ قسم کی صرف روٹیاں پکاتا تھا۔ ایک دعوت میں قو رمہ ایسا پکایا کہ لوگ اسے مربہ سمجھے۔ اس کے جواب میں حسین علی دہلوی نے پلاؤ‘ زردہ‘ قورمہ‘ کباب‘ پراٹھا‘ ترکاریاں‘ چٹنی‘ اچار‘ روٹی‘ شیرمال سب پکا کے دسترخوان پر رکھے لیکن جس کو کھایا وہ شکر نکلی‘‘۔ اچار‘ چٹنیاں‘ مربے اور حلوہ جات پکانے والوں کو رکاب دار کہا جاتا تھا۔ پروفیسر مسعود حسن ادیب نے نان کی 35 اقسام گنوائی ہیں۔ نمکین پلاؤ کی 47 اقسام اور میٹھے پلاؤ کی 32 اقسام لکھی ہیں۔ کباب 19 طرح کے ہوتے تھے۔ قلیا (سالن‘ قورمہ وغیرہ) 51 قسم کا بتایا ہے۔ تقریباً 40 قسم کی سویٹ ڈشیں! 12 طرح کے مربّے۔ غازی الدین حیدر بادشاہ (1818-1827ء) کیلئے ان کا باورچی ہر روز چھ پراٹھے تیس سیر گھی میں پکاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ہر پراٹھے کو پانچ دفعہ تازہ گھی میں الٹتا تھا اور یوں چھ پراٹھوں میں تیس سیر گھی کا جوہر کھینچ لیتا تھا۔ بادشاہ تو بادشاہ تھا‘ عام امرا اور عمائدین کے دسترخوان پر بھی ایک ایک وقت میں تیس تیس‘ پچیس پچیس طرح کے پکوان ہوتے۔ چاول کی روٹی‘ پستہ کی روٹی‘ بادام کی روٹی‘ سولہ تہوں کی روٹی‘ کاغذی ٹکیاں‘ پرت دار پراٹھے یہ سب موجود ہوتے۔ یخنی پلاؤ‘ کوفتہ پلاؤ‘ مرغ پلاؤ‘ ماہی پلاؤ‘ پارچہ پلاؤ‘ چنبیلی پلاؤ اور موتی پلاؤ دعوت کیلئے لازم تھے۔ ریشمی کباب‘ طلسمی کباب‘ شامی کباب‘ بیضاوی کباب خوراک کا حصہ تھے۔ میٹھے میں زردہ‘ مزعفر‘ متنجن‘ انڈے کی کھیر‘ آم کا حلوہ اور گلگلے مقبولِ خاص و عام تھے۔ یہی زمانہ تھا جب باورچیوں کیلئے کھینچا تانی ہوتی اور خوب خوب مقابلے ہوتے۔ ماش کی دال کا ماہر باورچی اگر نظام حیدرآباد کے پاس تھا تو لکھنؤ کا حکمران ہزار کوششیں کر کے اسے اپنے پاس بلا لیتا۔ اب فتح اور شکست کے یہی میدان تھے۔ یہ سب کھانے کھا کر پالکیوں ہی میں بیٹھا جا سکتا تھا۔ اس سارے عرصے میں انگریز اتنا ہی کھاتے جو ضروری تھا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ کلائیو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا۔ شروع شروع میں کچھ انگریزوں نے ہندوستانی نوابوں کی تقلید کی۔ ہندوستانی لباس اپنایا۔ مقامی عورتوں سے شادیاں کیں۔ قالینوں پر بیٹھ کر حقے پیے۔ انہیں وائٹ (سفید) مغل کہا جاتا۔ ولیم ڈالرمپل کی معروف تصنیف ''وائٹ مغلز‘‘ اسی موضوع پر ہے۔ تاہم 1798ء میں جب ولزلے (Wellesley) گورنر جنرل بن کر آیا تو اس نے یہ سب چونچلے ختم کر دیے۔ اس نے انگریزوں کو حاکم بن کر رہنے کا درس دیا اور سمجھایا کہ ہندوستانیوں کو محکوم سمجھو۔ مقامی لوگوں کے ساتھ اختلاط کی اس نے حوصلہ شکنی کی۔
شکم پروری کو سائنس بنا دینے کا فن لکھنؤ کے حکمرانوں پر ختم تھا مگر باقی ریاستیں بھی پیچھے نہ تھیں۔ حیدر آباد‘ پٹیالہ‘ کپورتھلہ‘ ٹراونکور‘ ملیر کوٹلہ اور کئی اور ریاستیں عیاشی‘ اسراف اور تبذیر میں آسمان پر تھیں۔ کہیں دسترخوان پر کروڑوں لگائے جاتے تو کہیں کتے کتیا اور ہاتھی ہتھنی کی شادیوں پر خصوصی ٹرینیں چلائی جاتیں۔ اصل حکومت انگریز ریزیڈنٹ کے ہاتھ میں ہوتی۔ تاریخ دانی کا دعویٰ ہے نہ کسی اور علم کا زعم! مگر میرے ناقص خیال میں ہم اہلِ پاکستان نے دسترخوان کے حوالے سے‘ لکھنؤ اور حیدر آباد دکن کے نام نہاد بادشاہوں کا کلچر اپنا لیا ہے۔ جو روایتیں زبان زدِ خاص وعام ہیں ان کے مطابق باقر خانیاں پکانے کا ماہر باورچی ایک سابق حکمران کے ساتھ جدہ گیا تھا۔ دروغ بر گردن راوی‘ کابینہ اجلاس کے دوران (اگر کبھی یہ اجلاس ہوتا تو) پوچھا جاتا کہ لہوروں مچھی آئی اے کہ نئیں (لاہور سے مچھلی پہنچی ہے کہ نہیں؟)۔ جس دن کراچی میں دھماکا ہوا تھا اسی دن کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ظہرانہ تھا اور اس ظہرانے کو کمزور قرار دیا گیا تھا۔ مگر حکمرانوں کو چھوڑیے‘ ہم اور آپ اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ ہم اپنے طور پر تو یہ کر سکتے ہیں کہ جہاں تک بس چلے دعوتوں اور تقاریب میں کم سے کم پکوان رکھیں۔ اپنی خواتین کو سمجھائیں کہ ایک ڈش سالن کی اور ساتھ پلاؤ یا بریانی اور روٹی رکھنے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی۔ تہذیب کا کھانے کی مقدار اور پکوانوں کی کثرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت Marquees اور شادی ہال اربوں کھربوں کی انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امیر تو امیر ہیں‘ متوسط اور زیریں طبقہ بھی اس جال میں آ چکا ہے۔ بہت سے لوگوں میں استطاعت نہیں مگر قرض لے کر یا غلط آمدنی حاصل کر کے اس دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں۔ فی کس کے حساب سے جو رقم چارج کی جاتی ہے اس میں نفع خوری کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس کا بظاہر ایک ہی حل ہے کہ پکوانوں کی تعداد کم سے کم ہو!
لکھنؤ کے حکمرانوں اور ان کی عیاشیوں پر انگریزی زبان میں کئی کتابیں موجود ہیں۔ Rosie Llewellyn Jones نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ رئیس احمد جعفری کی تصنیف ''واجد علی شاہ اور ان کا عہد‘‘ بھی مطالعہ کے قابل ہے۔ مولانا باقر شمس نے اس ضمن میں دو کتابیں تصنیف کی ہیں؛ دبستان لکھنؤ اور داستان لکھنؤ۔ یہ کتابیں کہاں سے ملتی ہیں؟ قارئین کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس بات کا پتا وہ خود ہی لگایا کریں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved