میں یہ بات کسی سیاسی تعصب یا پسند اور ناپسند سے قطعاً ہٹ کر اپنی بہترین معلومات کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ یہ سال پاکستان‘ خاص طور پر پنجاب کی زراعت کے اعتبار سے شاید ملکی تاریخ کا بدترین سال ہے۔ پاکستان کی زراعت مختلف عوامل کی بنیاد پر‘ جن میں موسمیاتی تبدیلیاں اور حکومتی فیصلے دونوں شامل ہیں‘ مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں زراعت ہمیشہ سے ہی مکمل خدا کے سہارے چلنے والا پیشہ رہا ہے کہ کاشتکار فصل کاشت کرنے سے لے کر مارکیٹ میں فروخت کرنے تک قدرت اور سرکار کی مرضی‘ منشا اور رضا پر تابع ہونے کے علاوہ اپنے طور محنت کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پاتا۔
بقول آصف مجید قدرت نے زراعت کو انسانی بقا اور خدمت کیلئے ایک ذریعہ تو بنایا ہے لیکن آپ کاشتکاری کو کسی طور بھی غیرمعمولی منافع بخش پیشہ نہیں کہہ سکتے کہ اس پیشے کے پیشِ نظر منشائے الٰہی فوڈ سکیورٹی کا بندوبست کرنا ہے نہ کہ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے مخلوقِ خدا سے پیسے بٹورنا۔ اناج انسانی ضرورت ہے اور انسان ازل سے اس پیشے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو کاشتکار کو محض اس کی بنیادی ضروریات کے برابر عوضانہ بہم پہنچاتا ہے۔ ہاں! البتہ کارپوریٹ اور میکنائزڈ فارمنگ ایک علیحدہ موضوع ہے جس کی حرکیات عام کاشتکاری اور کاشتکار سے بالکل مختلف ہیں۔ویسے تو پاکستان میں زراعت پر اچھے برے سال آتے ہی رہے ہیں لیکن ہوتا یہ تھا کہ ایک سال خراب گزرا تو اگلا سال ایسا آیا کہ گزشتہ سال کی کسر نکال گیا۔ ایک سال کمر ٹوٹی تو آئندہ سال نے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا۔ خریف کی فصل خراب ہوئی تو ربیع نے ہاتھ پکڑ لیا مگر اب یہ عالم ہے کہ گزشتہ دو تین سال سے زراعت اور کاشتکار منیر نیازی کے اس شعر کی عملی تفسیر بن کر رہ گئے ہیں:کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیر؍ان روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو۔
پاکستان میں زراعت سے وابستہ تمام تر عوامل ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی کاشتکار کے بس میں نہیں۔ کاشتکار کے بس میں تو صرف یہ ہے کہ وہ اپنی بہترین عقل کو استعمال کرتے ہوئے فصل کا انتخاب کرے‘ استطاعت سے بڑھ کر مداخل ڈالے‘ کاشت سے لے کر کٹائی تک محنت کرے اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر قدرت سے کرم فرمائی کی دعا کرتا رہے کہ یہ سارا عرصہ موسم اور دوسرے عوامل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس کا کام صرف محنت کرنا ہے۔ اس دوران آندھی‘ طوفان‘ بارش‘ ژالہ باری اور موسم میں اتار چڑھاؤ سے ہونے والے نقصانات ایسے معاملات ہیں جو قطعاً اس کے بس سے باہر ہیں اور یہ وہ نقصانات ہیں جن کیلئے اسے صنعتکاروں اور دیگر کاروباری اداروں کی مانند کسی قسم کی انشورنس بھی میسر نہیں ہے۔ نقصان ہوا تو سارا اسی کے پیٹے پڑ گیا۔ کبھی حکومت نے چٹکی بھر امداد دے دی تو علیحدہ بات ہے وگرنہ اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔
فصل کی کٹائی کے بعد کا مرحلہ ایسا ہے جس میں کاشتکار کبھی سرکار کا‘ کبھی مل مالکان کا‘ کبھی آڑھتی کا‘ کبھی ذخیرہ اندوز کا‘ کبھی بیوپاری کا اور کبھی عالمی منڈی کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی فصل کٹائی کے بعد اپنے پاس ذخیرہ نہیں کر سکتا۔ اسے یہ کٹی ہوئی فصل ہر حال میں منڈی میں‘ ملز میں یا موقع پر آڑھتی‘ بیوپاری کو بیچ کر اپنا کھیت خالی کرنا اور اگلی فصل کے مداخل خریدنے کیلئے رقم کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ سو سب مل کر اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فصل خراب ہو جائے تو وہ یہ نقصان برداشت کرتا ہے‘ اگر فصل اچھی ہو جائے تو بمپر کراپ کا غلغلہ اٹھتے ہی اس کا استحصال کرنے والے میدان میں آ جاتے ہیں۔ مکئی کی فصل ضرورت سے بڑھ کر اچھی ہو جائے تو فیڈ ملز مالکان مع اپنے دیگر لٹیرے مدد گاروں کے میدان میں آ جاتے ہیں۔ گنے کی فصل بہتر ہو جائے تو شوگر مافیا جیب کاٹ لیتا ہے۔ گندم کی فصل کم ہو تو محکمہ خوراک ڈنڈے کے زور پر گندم اٹھا کر لے جاتا تھا۔ زیادہ ہو جائے تو سرکار خرید سے بھاگ جاتی ہے تب آڑھتی‘ بیوپاری اور فلور ملز مالکان میدان میں آکر اسے لوٹ لیتے ہیں۔ چاول کی فصل اچھی ہو جائے تو عالمی منڈی میں بمپر کراپ کی وجہ سے پاکستانی چاول پر عالمی منڈی کا ریٹ اثر انداز ہو جاتا ہے۔ فصل خراب ہو جائے تو اسکی قیمت پاکستانی حساب سے لگتی ہے اور اگر اچھی ہو جائے تو بین الاقوامی مارکیٹ کا ریٹ مقامی منڈی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ عالم یہ ہے کہ حکومت اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے مختلف مافیاز کے نمائندے اپنی اپنی انڈسٹری اور کاروبار کے تحفظ کیلئے اپنی مرضی کی قانون سازی اور سیزنل اقدامات کرواتے ہیں اور کاشتکار کی قیمت پر اپنا منافع کھرا کر لیتے ہیں۔
حکومتی پالیسیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں نے کاشتکار کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے کپاس کی فصل مسلسل کمی کی طرف جا رہی ہے۔ اس سال بھی سرکاری تخمینے سراسر غلط جا رہے تھے تاہم سیلاب سے ہونے والی تباہی نے سرکاری تخمینہ جات کی عزت بچانے کیلئے حکومتی اداروں کو بہانہ فراہم کر دیا ہے۔ یہی حال گندم کا ہے۔ گزشتہ سال گندم کے کاشتکار کے ساتھ جو ہوا تھا وہ شاید پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ سرکار نے 3900روپے فی چالیس کلو کے سرکاری ریٹ کا اعلان کیا مگر خریداری کے وقت میدان سے بھاگ گئی۔ پرائیویٹ مافیاز نے یہ گندم 1900روپے سے 2200روپے فی چالیس کلو تک خرید کر لی۔ اب اس کا ریٹ ساڑھے تین ہزار سے اوپر چلا گیا ہے تو سارا نفع ذخیرہ اندوزوں نے سمیٹ لیا ہے۔ کاشتکار کو جو دھچکا لگنا تھا وہ تو لگ گیا۔ اب عالم یہ ہے کہ سارے ذخیرہ اندوز مل کر عوام کو مہنگا آٹا دے رہے ہیں۔ ابھی دو روز قبل آٹے کی قیمت میں دس روپے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری دعوے ایک طرف‘ نہ آٹے کی قیمت کنٹرول ہو رہی اور نہ ہی چینی کی قیمت پر سرکار کی کوئی گرفت ہے۔ چینی کی قیمت نے دوسری سنچری مکمل کر لی ہے۔
اس سال سیلاب نے کپاس‘ چاول اور مکئی کی فصل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ضلع بہاولنگر میں جو تھوڑی بہت کپاس کاشت ہوئی تھی‘ اسے ستلج کا پانی بہا کر لے گیا اور دیگر علاقوں میں چاول‘ مکئی اور گنے کی فصلات کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں سے پانی تھوڑا جلد اتر گیا وہاں تو کچھ نہ کچھ بچ گیا مگر جہاں پانی مسلسل کھڑا رہا وہاں کچھ بھی نہیں بچا۔ یہ کاشتکار کا نقصان تو ہے ہی‘ ملک کا بھی ایسا نقصان ہے کہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ ملکی فوڈ سکیورٹی کیلئے درکار کم از کم اناج کی ضروریات کو پورا کرتے کرتے پہلے سے تباہ حال معیشت بالکل ہی نہ بیٹھ جائے۔ مختلف زرعی مدات اور اناج کی امپورٹ میں خرچ ہونے والا زر مبادلہ کمر توڑ ثابت ہو گا اور ملکی کاشتکار کو رگڑا لگا کر پیسہ بچانے کے بدلے غیرملکی کاشتکار کو ڈالروں میں ادائیگی کرنے کی پالیسی ایک بار پھر ملکی خزانے پر بوجھ بن کر گرے گی۔
کاشتکار کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ جہاں سیلاب آکر فصلوں کو ملیا میٹ کر گیا تھا وہ تو نقصان تھا ہی‘ جو علاقے اس قدرتی آفت سے تب بچ گئے تھے وہ چار دن قبل ہونے والی شدید بارش‘ ژالہ باری اور طوفانی ہواؤں کے باعث تباہ ہو گئے ہیں۔ چاول کی جو فصل ابھی پوری طرح پکی نہیں تھی اس کی تو شاید کچھ بچت ہو جائے لیکن جو فصل تقریباً پک چکی تھی وہ ساری کی ساری گر گئی ہے۔ چاول کی پکی ہوئی فصل اس نئی افتاد سے بری طرح تباہ ہو گئی ہے۔ مکئی کا حال اس سے بھی خراب ہے۔ طوفان بادو باراں کے نتیجے میں فصل کے بیشتر حصے کے تنے ٹوٹ گئے ہیں۔ یہ فصل اب مکئی کے بجائے محض چارے کیلئے بھی استعمال ہو گئی تو غینمت ہے۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے حالات ایک اور نئی افتاد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ آنے والے دن کوئی اچھی خبر لاتے دکھائی نہیں دے رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved