ہمارے ملک کی سیاست بھی خوب ہے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا چل رہا ہوتا ہے کہ بندہ اپنا آپ بھول کر اس سیاسی چکر میں پھنس جاتا ہے۔ مجھے آج کل جولوگ ملتے ہیں ‘ ان میں اکثر عمران خان کے بارے میں پریشان ہوتے ہیں۔ کوئی دور تھا کہ لوگ نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں پریشان تھے۔ لمبا عرصہ وہ آصف زرداری کے جیل میں بیٹھنے پر ڈسٹرب تھے۔
یہ فہرست خاصی لمبی ہے کہ کس کس لیڈر کی خاطر یہ قوم پریشان رہی اور ان لیڈروں کیلئے ہمدردیاں اور ووٹ بڑھتے رہے۔ اس خطے میں کسی بڑے بندے کو جیل جانا پڑے تو اسے زیادہ ہمدردی ملتی ہے۔ لوگ اس کے سکینڈلز یا غلط کاموں پر بات نہیں کریں گے بلکہ اسے مظلوم سمجھ کر اس کا ساتھ دیں گے۔ لوگوں کے نزدیک غلط کام کوئی نہیں ہوتا اور اگرکوئی قانون کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ سیاسی انتقام ہوتا ہے۔ آج تک کسی ایک لیڈر کے جیل جانے پر قوم متفق ہوئی ہو تو مجھے بتائیں۔ ان کے حامیوں یا ووٹروں کا گروہ یا میڈیا بھی اسے سیاسی انتقام کہتا رہے گا۔ کئی برسوں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر قوم میں یہ اتفاق ہوا تھا کہ ان کو دی گئی پھانسی غلط تھی‘ لیکن بھٹو صاحب کو اپنی جان دینا پڑی تب جا کر قوم اس بات پر متفق ہوئی کہ یہ ظلم تھا۔ اس لیے ان لیڈروں کو جیل بھیجنے سے کوئی فرق پڑا ہے؟ آصف زرداری‘ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ مریم نواز... سب جیل میں رہے ہیں اور ان سب پر بڑے سنگین الزامات تھے۔ کہاں گئے وہ الزامات؟ وہ سب دوبارہ پاور میں ہیں۔ صدر اور وزیراعظم بن گئے ہیں۔
عمران خان پر بھی اتنے ہی سنگین الزامات ہیں لیکن ان کیلئے ہمدردی یا ان کے ووٹرز میں کمی آئی؟ کیالوگوں نے یہ سمجھا ہو کہ خان صاحب بھی کوئلے کی اُس کان میں گھس گئے جہاں زرداری اور شریف پہلے سے موجود تھے اور انہوں نے اپنے کپڑے کالے کرا لیے۔ نہ شریفوں کا کوئی مانتا ہے کہ انہوں نے کچھ غلط کیا‘ نہ آصف زرداری کے جیالے اور نہ ہی عمران خان کے حامی مانتے ہیں۔ سب اچھے اور نیک ہیں۔ آپ ان کے کسی حامی سے ان کی غلطی منوا کر دکھا دیں۔ تو پھر ان سب کو جیلوں میں رکھنے کا کیا فائدہ؟ اگر فائدہ ہوتا تو آصف زرداری آج دوبارہ صدر اور شہباز شریف وزیراعظم نہ ہوتے۔ لہٰذا میرے نزدیک انہیں جیلوں میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
دراصل شریفوں اور آصف زرداری کا جیل جانا عوام کیلئے کوئی بڑی خبر نہیں تھی۔ ان کیلئے بڑی خبر اس وقت بنی جب عمران خان گرفتار ہوئے۔ ان کی گرفتاری اس لیے مختلف تھی کہ انہیں اب تک قوم کے لاڈلے اور ایک طرح سے دیوتا کا درجہ ملا ہوا تھا۔ خود خان صاحب کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ ان پر بھی ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے۔ لوگ عمران خان کو ان سب سے مختلف سمجھتے تھے اور تمام تر خامیوں کے باوجود وہ انہیں اب بھی بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن خان صاحب کو بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنا پڑا۔ لہٰذا دھیرے دھیرے خان صاحب اور دیگر لیڈران میں فرق ختم ہونا شروع ہوا اور اس بات پر خان کے ناقدین خوش ہوئے کہ چلو جو اخلاقی برتری عمران خان کو ان پر حاصل تھی‘ وہ ختم ہو رہی ہے۔
خان صاحب کی آخری برتری یہ رہ گئی تھی کہ وہ دیگر جماعتوں کے برعکس اپنے خاندان کو سیاست سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ وہ شریفوں اور زرداریوں کے برعکس میرٹ اور جمہوری انداز میں پارٹی چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ جب تک خان صاحب اقتدار میں نہیں آئے تھے‘ اس وقت تک سب باتیں ٹھیک لگتی تھیں لیکن جب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کیلئے عثمان بزدار کا نام سامنے آیا تو لوگوں کوپتا چلا کہ وہ نام دراصل عمران خان کو ان کی بیگم صاحبہ نے دیا تھا۔ لوگ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ وہ فیملی کو سیاست سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی تاثر تھا کہ ریحام خان سے ان کی علیحدگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سیاسی طور پر زیادہ Ambitious تھیں اور وہ ان کے پارٹی لیڈروں سے براہِ راست سیاسی معاملات پر بات چیت بھی کرتی تھیں۔
میں خود اس بات کا عینی شاہد ہوں۔ 2015ء میں مجھے عون چودھری کا فون آیا کہ خان صاحب ایک بڑے اہم ایشو پر بات کرنے کیلئے آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں بنی گالا پہنچا تو میرا خیال تھا کہ خان صاحب نے خود بات کرنی ہے‘ لیکن وہاں ان کے ساتھ ریحام خان بھی موجود تھیں۔ خان صاحب نے مجھے کہا کہ آپ اپنے دوست ارشد شریف کو روکیں کہ وہ ریحام کے بارے ٹویٹس نہ کرے۔ سنا ہے وہ صرف آپ کی بات سنتا اور مانتا ہے‘ اسے کہیں مجھ پر جو بات کرنی ہے کرتا رہے لیکن ریحام پر ٹویٹس نہ کرے۔ اُن دنوں ارشد شریف کی ٹویٹس نے عمران خان اور ریحام خان کو بہت مشکل میں ڈالا ہوا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ ارشد شریف من موجی ہے‘ میری عزت کرتا ہے اور کبھی کبھار مان بھی لیتا ہے۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ عمران خان مجھ سے بات کررہے تھے تو ریحام بار بار ٹوک کر سیاسی ایشوز پر بات کر رہی تھیں اور یہ بات عمران خان کو ناگوار گزر رہی تھی کہ ایک صحافی کے سامنے وہ نہ صرف سیاسی ایشوز پر بات کررہی ہیں بلکہ انہیں ٹوک بھی رہی ہیں۔ ریحام خان کی وجہ سے بنی گالا میں مہمانوں کو کباب‘ بسکٹ‘ چائے اور دیگر لوازمات مل جاتے تھے ورنہ وہاں تو چائے تک کوئی نہیں پوچھتا تھا۔
خیر ارشد کا منت ترلا کیا کہ یار جانے دو۔ ارشد ہنس کر مان گیا کہ تم کہتے ہو تو یہ سلسلہ روک دیتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی ان کے حکم پر میرا ٹی وی شو بند کرایا گیا اور میں بیروزگار ہو گیا‘ کیونکہ میں مسلسل پی ٹی آئی حکومت کے وزیروں کے سکینڈلز فائل کر رہا تھا۔ تب ارشد شریف نے مجھے کہا تھا: ہُن آرام اے۔ خیر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کو ریحام خان کا پارٹی کے اندر بڑھتا ہوا سیاسی کردار اچھا نہیں لگ رہا تھا اور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ ریحام کے بعد یہ کردار بشریٰ صاحبہ کے پاس گیا تو عثمان بزدار برآمد ہوئے۔ اور پھر عمران خان نے بھی کئی بار ان کے حوالے سے خود بھی بات کی لیکن تاثر یہی دیا گیا کہ وہ غیر سیاسی ہیں۔ حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ میں بھی یہ تاثر اُبھرا کہ عمران خان ہر فیصلہ بشریٰ بیگم کے حساب کتاب کے بعد کرتے ہیں اور یوں مسائل پیدا ہوئے۔ عثمان بزدار کو نہ ہٹانے کے پیچھے بھی بشریٰ بیگم کا فیصلہ بتایا جاتا ہے۔ جب علیمہ خان صاحبہ سامنے آئیں تو یہی کہا گیا کہ وہ غیرسیاسی ہیں؛ اگرچہ وہ ساری گفتگو سیاسی ہی کرتی ہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دیگر جماعتوں کی خواتین بھی سیاست میں ہیں تو پھر بشریٰ بی بی اور علیمہ خان صاحبہ کے سیاسی کردار میں کیا حرج ہے؟ شاید حرج وہی ہے کہ عمران خان نواز لیگ اور پیپلز پارٹی پر حملے کرتے آئے ہیں کہ وہ خاندانی پارٹیاں ہیں۔ وہ اس امیج یا الزام سے بچنا چاہتے تھے‘ لیکن اب جس طرح علیمہ خان اور علی امین گنڈاپور کے مابین کھلے عام سخت لفظوں کا تبادلہ ہوا اس کے بعد عمران خان نے فیصلہ کرنا تھا کہ وہ فیملی کے ساتھ ہیں یا علی امین کے ساتھ۔ اگرچہ عمران خان نے ماریو پُزو کا ناول 'دی گاڈ فادر‘ نہیں پڑھا ہو گا‘ جس کی فلاسفی تھی کہ ہمیشہ فیملی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ خان نے بھی فیملی کو ترجیح دی‘ وہی فیملی جسے سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی یا دعوے کیے۔ آخرکار اب خان صاحب بشریٰ صاحبہ اور علیمہ خان کے درمیان خود کو بے بس پا کر وہی کرتے ہیں جو اُنہیں یہ دو قریبی خواتین کہتی ہیں۔
مجھے دس سال پہلے بنی گالا کے ڈرائنگ روم والا منظر یاد آیا‘ جب خان صاحب کو ریحام خان کی سیاسی گفتگو اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ اگر ایک دن بشریٰ صاحبہ اور علیمہ خان نے ہی سب سیاسی فیصلے کرنے تھے تو پھر ریحام خان میں کیا خرابی تھی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved