تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-10-2025

عمران خان بات کرے گا …اور کون؟

احرامِ مصر کے مقابلے میں 300 مقدمات کا احرامِ ناانصافی تعمیر ہو چکا۔ پنجابی فلم اور اُردو ڈرامے کی طرح وہی میک اَپ آرٹسٹ‘ وہی ہدایت کار‘ وہی اداکار‘ وہی سکرپٹ رائٹر‘ وہی وِلن اور وہی ہیروئن کی سہیلیاں۔ ہر مقدمے میں پچھلی سٹوری کا سو فیصد ری پلے چلایا گیا۔ یہ سوپ سیریل پہلی بار مشتاق خُنڈکر‘ تاج الدین اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف مغربی بنگال کے شہر اگرتلہ میں سہولت کاری کی سازش کرنے پر شروع ہوا تھا۔ پھر یہ ڈرامہ بار بار سٹیج ہوتا چلا گیا۔ اس دوران راولپنڈی میں تین وزرائے اعظم‘ جو ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھتے تھے‘ انہیں قتل کر دیا گیا۔ جن کے اصل ٹرائل کھوہ کھاتے چلے گئے۔ پہلا قتل شہید ملت لیاقت علی خان کا ہوا۔ راولپنڈی کے کوتوالی تھانے میں آج بھی معلوم ملزمان کے خلاف درج کی گئی نامعلوم ایف آئی آر تفتیش کار کا انتظار کر رہی ہے۔ ایک ایسا بہادر‘ غیرسرکاری‘ عدم درباری اور آزاد تفتیشی جو میرٹ پر کھلی شہادتوں کو یکجا کر سکے۔ راولپنڈی کی بدقسمتی کہ دوسرا وزیراعظم‘ جس کا تعلق شہید لیاقت علی خان کے صوبے سے تھا‘ اس کے عدالتی قتل کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا۔ دوسرے وزیراعظم کو مارنے کے لیے پھر قتل گاہ کا قرعۂ فال راولپنڈی کے نام ہی نکلا۔
میں نے وفاقی وزارتِ قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے کر بھٹو عدالتی قتل کے بارے میں جو ریفرنس فائل کیا تھا‘ اس کی ڈیڑھ عشرے بعد شنوائی ہوئی۔ بھٹو کے عدالتی قتل کا ریکارڈ دیکھ کر سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا ہے۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اس عدالتی قتل کے ملزم جانے پہچانے تھے۔ کچھ عدالت میں بیٹھے ہوئے۔ کچھ سرکاری عہدوں پر اور کچھ درباری خدمت گار۔ مگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اشک شوئی سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ایک ملزم نے بعد از ریٹائرمنٹ خود اپنی کتاب Memoirs میں اعترافِ جرم کیا کہ میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کا فیصلہ اس وقت کی مارشلائی حکومت کے دباؤ میں کیا تھا۔ پاکستان کے دوسرے وزیراعظم کے قتل کے اعتراف کے بعد بھی ملزم کا ضمیر مگر نہ جاگ سکا۔ لہٰذا اس نے اس اعترافِ جرم کے باوجود پنشن اور مراعات سے دست کشی نہ کی۔ تیسرے وزیراعظم کا قتل پھر پنڈی کے حصے میں آیا۔ قتل گاہ کے طور پر پہلے مقتول وزیراعظم کے نام پر بننے والے لیاقت باغ کو چنا گیا۔ جہاں فلیش لائٹوں کی روشنی اور کیمروں کی آنکھوں کے سامنے بے نظیر بھٹو کو شہید کر ڈالا گیا۔ ملزموں کے سہولت کاروں نے پورے شہرکے باؤزر اور پانی کے ٹرک جمع کیے۔ کرائم سین سے فرانزک ثبوت‘ موقع کی شہادتیں‘ فُٹ پرنٹس‘ فنگر پرنٹس‘ اسلحے سمیت سارے ثبوت بی بی شہید کے قتل کے فوراً بعد رات کی تاریکی میں نالہ لئی میں بہا دیے گئے۔ اس تیسرے قتل کے نامزد ملزم بھی بچا لیے گئے۔
ابھی تقریباً دس دن پہلے میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں شاہراہِ دستور سے جڑے ایک ہوٹل کے جِم میں روٹین کے مطابق مصروف تھا۔ اتنے میں ایک اٹینڈنٹ نے آکر کہا: کوئی صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا: ورزش کے بعد‘ آپ ان کو لابی میں بٹھا لیں۔ چند منٹ بعد ایک بھدی جسامت والا پستہ قامت شخص میری سائیڈ پہ آکر رک گیا۔ میں نے اسے نظر انداز کیا اس کے باوجود اس نے مجھے انگلینڈ کے قصائیوں کے لہجے والی انگریزی میں مخاطب کرتے ہوئے کہا: میرا نام ... ہے۔ میں دنیا کے چار ملکوں میں کاروبار کرتا ہوں مگر رہتا برطانیہ میں ہوں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں میری ساری فیملی کو برطانیہ کی شہریت دلوا دی گئی۔ مجھے اس کی سٹوری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے میں نے اس پر کان نہ دھرے اور اپنی دھن میں لگا رہا۔ مایوس ہوکر اس نے ایک کارڈ نکالا اور کہا: سر یہ میرا وزیٹنگ کارڈ لے لیں‘ کبھی انگلینڈ میں کوئی خدمت ہو تو میں حاضر ہوں‘ I am Your big fan! sir۔ پھر کہنے لگا: میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔ آپ نے بھٹو کے عدالتی قتل کا مقدمہ لڑا تھا۔ میرے باپ کا نام محمود مسعود تھا۔ ان دنوں پاکستانی قوم مختلف سوشل میڈیا سائٹس اور پلیٹ فارمز اور مین سٹریم میڈیا میں اپنے محسن لیاقت علی خان کے قاتل کے خاندان والوں کے انٹرویوز دیکھ رہی ہے۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بارے میں مَیں نے اسی صفحے پر تین نومبر 2022ء کو کالم لکھا تھا (ملاحظہ کریں... عمران خان حملہ کیس‘ سوالات اور سوالات)
پھر دائرے کے سفر پر نکلی ہوئی ہماری قومی تاریخ مسلسل اسی دائرے میں گھومنے لگی۔ گھومتے گھومتے کبھی وہ ڈیرہ بگتی کے پہاڑوں میں دو تالے لگا کر بند کیے جانے والے آئرن باکس میں اکبر بگتی کی میت پر کھڑے خونیں دانت نکالے مسکراتی ملتی ہے۔ کبھی لاہور میں ڈاکٹر خان کی لاش پر انہی دانتوں کے ساتھ شیطانی قہقہہ لگاتی ہوئی دکھائی دی۔
قارئینِ وکالت نامہ دائرے کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ تاریخ یاد کر لیں تین‘ مہینہ نومبرکا‘ سال 2022ء۔ جب یہ خونیں دانت وزیر آباد میں آدم بو‘ آدم بوکہتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں۔ جے آئی ٹی کی دو اعلیٰ سطح کی رپورٹوں کے مطابق عمران خان پر تین علیحدہ علیحدہ ہتھیاروں سے تین مقامات سے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس بار تقدیر کے قاضی نے شیطانی دانتوں والی تاریخ کو دھتکار دیا۔ فیصلہ یہ صادر فرمایا کہ عمران خان نے ابھی زندہ رہنا ہے۔ آپ اگر ذرا سی تحقیق کریں تو آپ کو پتا چلے گا‘ بڑے کھلاڑیوں کے اس کھیل میں چھوٹے چھوٹے واقعات سچ کا ساتھ نبھاتے رہتے ہیں۔
اس دائرے کے سفر میں مختلف رنگوں کی بیورو کریسی اور دو اڑھائی خاندانوں کا اقتدار نظر آتا ہے۔ ملک کے لیے کچھ نہیں۔ کبھی ایک بھائی دو دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب‘ کبھی دوسرا بھائی تین دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب۔ کبھی ایک بھائی کا بیٹا وزیراعلیٰ کبھی دوسرے بھائی کی بیٹی وزیراعلیٰ۔ سازش اور نوازش کی برسات ایسی کہ کبھی ایک بھائی تین بار وزیراعظم پاکستان کبھی دوسرا بھائی دو بار پاکستانی پرائم منسٹر۔ پنجاب مگر عمران خان کے ساتھ کھڑا ہو گیا‘ خیبرپختونخوا کی طرح۔ پھر عثمان بزدار اور محمود خان جیسے عام لوگ وزیراعلیٰ بنے۔ پنجاب نے پچھلے تین الیکشن میں شریف خاندان کا قبضہ توڑا‘ مگر ہر بار ووٹ گننے والے آدھی رات کو ان کے ریسکیو کے لیے آن پہنچے۔
ایک بار پھر پنجاب میں م اور ش کا پتلی تماشا چل رہا ہے۔ بلھے شاہ اور وارث شاہ کے پنجاب کی وراثت کا دعویٰ پتلیاں کرتی ہیں۔ پتلے انہیں پنجاب کا وراثت سرٹیفکیٹ دے کر کہتے ہیں کہ پنجاب کے لیے آلِ شریف نہ بات کرے تو کون کرے۔ لیڈی سی ایم کو فارم 47 پر فاتح قرار دلوایا گیا۔ نواز‘ شہباز کے حقیقی فارم45 پوری قوم دیکھ چکی۔ پنجاب کی بات کرنا اسے زیب دیتا ہے جسے بغیر کسی انتخابی نشان‘ انتخابی مہم اور انتخابی لیڈر کے‘ پنجاب نے دو تہائی سے زیادہ ووٹ ڈالے۔ عمران خان ہے نا‘ عمران خان بات کرے گا اور کون؟
مشرق کے ہر رواج کی قربان گاہ پر
ہمراہیانِ صد شہدا ہم ہوئے کہ تم
جس کی خموشیوں میں حکایت کا سوز تھا
اس کی حکایتوں کی بِنا ہم ہوئے کہ تم
اس عقل و فہم و عمرو فراست کے باوجود
اس کہکشاں پہ آبلہ پا ہم ہوئے کہ تم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved