ایران کے جوہری بحران کا تمام تر تعلق عالمی سطح کے جوہری نظام سے ہے جس کی بنیاد بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے بقول نسلی تعصب پر مبنی جوہری امتیاز (Nuclear Apartheid) پر ہے۔ مغرب میں ہمارے دوستوں کے نزدیک جوہری سوال‘ روایتی طور پر یک طرفہ رہا ہے۔ ان کا مسئلہ مرض نہیں بلکہ اس کی علامات ہیں۔ ان کی پوری توجہ محض جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو پر رہی اور انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنی خواہش اور مقاصد کی خاطر اسے ایک نظریے کی شکل دے کر اپنا رکھا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے انبار‘ ان طاقتوں کو اس بات سے باز نہیں کرتے کہ وہ باقی دنیا کو جوہری کلب میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے ان کی سرزنش کرتے رہیں یا ان پر عقوبتی پابندیاں عائد کرتے رہیں۔ ان کی یہ روش اس صورت حال کے مشابہ ہے کہ کوئی شخص سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے دوسروں کو تمباکو نوشی سے منع کر رہا ہو۔ اسی روش کا نتیجہ ہے کہ بیان بازی کے سوا دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی جانب کوئی پیشرفت نہیں ہو پا رہی۔ اگر آج دنیا ترکِ اسلحہ کی منزل سے دُور ہے تو اس کا واحد سبب یہ ہے کہ چند ممالک کے سٹریٹیجک اور سکیورٹی سیٹ اپ کو جواز بخشنے کی خاطر جان بوجھ کر کثیر الاطراف نظام استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ آج دنیا ہتھیاروں پر کنٹرول اور ترک اسلحہ کے اقدامات میں کمی‘ معاہدوں کی خلاف ورزی اور ترک اسلحہ سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کمزور ہونے کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ عدم پھیلائو کے ایجنڈے پر خلافِ قاعدہ اور امتیازی طریقے سے عمل کیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے (این پی ٹی) کے آرٹیکل VI میں مذکور ’’مطلق اور کامل ترکِ اسلحہ‘‘ کا ہدف حاصل کرنے کے لیے کمزور عزم سے کام لیا جا رہا ہے۔ کچھ بڑی جوہری طاقتوں کی طرف سے ہتھیاروں کی تجارت بڑھانے اور مخصوص ملکوں کو جوہری ایندھن اور ٹیکنالوجی کی امتیازی فراہمی نے اس صورت حال میں شدت پیدا کردی ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی بحران‘ اسی مایوس کن پس منظر کے ساتھ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے سُلگ رہا ہے۔ امریکہ کی سربراہی میں مغرب کو ایران کے جوہری پروگرام پر انتہائی سنجیدہ تحفظات ہیں۔ اس پر الزام ہے کہ این پی ٹی پر دستخط کرنے والا ملک ہونے کے باوجود اُس نے جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کو اپنی کچھ جوہری تنصیبات کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کیں۔ دوسری جانب ایران ان الزامات کی تردید کرتا ہے‘ اُسے اصرار ہے کہ اس کی تمام جوہری سرگرمیاں این پی ٹی کی شرائط کے مطابق ہیں‘ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے اور این پی ٹی میں کی گئی صراحت کے مطابق یورینیم کی افزودگی اس کا حق ہے۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے قواعد کے مطابق ’’خلاف ورزی‘‘ اُس وقت واقع ہوتی ہے جب کسی مخصوص مقام پر واقعتاً جوہری تعامل (Nuclear Reaction) وقوع پذیر ہو۔ کیونکہ ایران اُس وقت مبینہ جوہری سرگرمی میں مصروف نہیں تھا جب اُس کے انفراسٹرکچر کا سراغ ملا‘ اس لیے تکنیکی اعتبار سے اُسے این پی ٹی کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار نہیں دیا گیا تھا؛ اگرچہ اسے سیاسی طور پر غفلت برتنے کا الزام دیا جا سکتا ہے۔ اکتوبر 2007ء میں آئی اے ای کے سربراہ محمد البرادی نے ایرانی تنصیبات کا معائنہ کرنے کے بعد تصدیق کی تھی کہ ایران میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ واضح رہے کہ ایران کا جوہری بحران اچانک رونما نہیں ہوا بلکہ یہ اب گیارہویں برس میں داخل ہو چکا ہے۔ ایران نے گزشتہ برسوں میں جو نیوکلیئر انفراسٹرکچر تعمیر کیا وہ ا چھا خاصا ترقی یافتہ ہے۔ اس کی بڑی تنصیبات میں بُوشہر کا پاور پلانٹ‘ اصفہان میں یورینیم افزودہ کرنے کا پلانٹ‘ ناتانز میں اسی طرح کا ایک اور پلانٹ اور اراک میں بھاری پانی کا پلانٹ شامل ہیں۔ 2002ء کے موسم گرما میں جب یہ بحران شروع ہوا‘ اُس وقت صرف روس- ایران جوہری تعاون اور بُوشہر میں ہلکے پانی کا نیوکلیئر ری ایکٹر کمپلیکس تعمیر کرنے کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اب ناتانز اور اراک کی جوہری تنصیبات حالیہ بحران کے مرکزی نقطے ہیں۔ تاریخی تناظر میں یہ بحران اپنی ’’پسند‘‘ کا ہے ’’ضرورت‘‘ کا نہیں۔ ابتدا میں امریکہ اس معاملے پر ایران سے بات تک کرنے کے لیے تیار نہ تھا؛ چنانچہ اُس نے اپنے تین یورپی اتحادیوں… فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ سے کہا کہ وہ تہران سے یورینیم افزودگی روکنے کا مطالبہ کریں۔ مذاکرات کے کئی ادوار اور 2006ء سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے پابندیاں عائد کرنے کی متعدد قراردادیں منظور ہونے کے بعد بھی بحران بدستور جاری رہا۔ صدر اوباما کے منظر پر آنے تک یورپی یونین کے مذکورہ تین ممالک نے سنجیدگی سے ایران کے ساتھ تصادم سے پاک لائحہ عمل اختیار کرنے کی کوشش نہ کی۔ صدر اوباما کی ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے کی نئی پالیسی کے تحت اکتوبر 2009ء میں ایران اور پی 1+5- (امریکہ‘ روس‘ چین‘ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی) کے مابین جنیوا میں مذاکرات ہوئے جن میں مغرب کا بنیادی مطالبہ یورینیم کی افزودگی روکنے کا رہا جبکہ ایران کا موقف یہ تھا کہ یورینیم افزودہ کرنا اور جوہری تحقیق سے متعلق سرگرمیاں پرامن مقاصد کے لیے ہیں اور یہ این پی ٹی کے آرٹیکل VI کے تحت قانونی اور اس کا حق ہیں‘ لہٰذا انہیں روکا نہیں جا سکتا۔ ڈیڈلاک کے باوجود ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جنیوا مذاکرات نے فریقین کے مابین سفارت کاری کا در وا کردیا ہے۔ مذاکرات کے نتیجے میں ایک جزوی مفاہمت اس طرح سامنے آئی کہ ایرانی یورینیم روس بھیجنے کا انتظام کیا گیا تاکہ وہ اسے طبی مقاصد کے لیے اعلیٰ درجے میں پروسس کردے‘ اس کی پیکجنگ فرانس میں ہو اور پھر اسے تہران میں قائم ایرانی ریسرچ ری ایکٹر میں استعمال کیا جائے۔ اس انتظام کو وہ دروازہ کھلنے سے تعبیر کیا گیا جو تین دہائیوں سے بند تھا۔ صدر اوباما اپنے پیش روئوں کے برعکس کم از کم اس قابل ہو گئے کہ ایران کے ساتھ بات چیت اور روس کی مدد سے آٹھ گھنٹوں میں اُس سے کہیں زیادہ ایران سے کشید کر کے لے گئے جو ان کے پیش رو آٹھ برسوں میں طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں دے کر حاصل کر پائے تھے۔ اس کے بعد مزید مذاکرات مئی 2012ء میں بغداد میں اور پھر فروری 2013ء میں الماتے میں ہوئے جن میں پوری دہائی پر محیط بحران کے خاتمے کے لیے جزوی تفصیلات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران مذاکراتی عمل پر خوشگوار اثرات مرتب کرنے کے لیے خیر سگالی نوعیت کے کچھ ضمنی اقدامات بھی کیے گئے۔ البتہ اس سال پندرہ جون کے انتخابات حسن روحانی کا ایرانی صدر منتخب ہونا‘ کھیل تبدیل کرنے والا (Game Changer) عامل بن گیا۔ تہران اب ایک نئے چہرے کے ساتھ نمودار ہوا ہے۔ وہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں مغرب کی تشویش پر توجہ دینا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی معیشت کو تباہ کرنے والی ان پابندیوں میں نرمی کرا سکے۔ ستمبر کے آخر میں روحانی نے امریکی صدر بارک اوباما سے ٹیلی فون پر بات کی۔ 1979ء کے بعد اس سطح پر دونوں ملکوں کے مابین یہ پہلا رابطہ تھا۔ اس رابطے سے بحران کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نئی تقویت ملی۔ صدر اوباما نے اس کا ان الفاظ میں خیر مقدم کیا: ’’یہ تہران میں نئی قیادت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ایک منفرد موقع ہے‘‘۔ جنیوا میں ایران اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات سے پہلے واشنگٹن نے محسوس کر لیا تھا کہ تہران پابندیاں ہٹوانے کے لیے کم از کم مطلوبہ شرائط تسلیم کر لے گا۔ اس عندیے کے بعد یہ بات تعجب خیز نہیں کہ تہران کو امریکہ اور یورپ کی جانب سے چند مخصوص شرائط کے تحت یورینیم افزودہ کرنے کا حق دینے کے بارے میں حوصلہ افزا اشارے مل رہے ہیں۔ آج جب یہ سطور پڑھی جا رہی ہوں گی‘ ایران اور پی1+5- کے درمیان وہ فیصلہ کن مذاکرات جنیوا میں ہو رہے ہوں گے جن کے بارے میں فریقین پُرامید ہیں کہ ان کے نتیجے میں دس برس سے زائد عرصہ سے جاری بحران ختم ہو جائے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایران کے نو منتخب صدر حسن روحانی نے یہ کہہ کر ایران کی حتمی پوزیشن واضح کردی ہے کہ این پی ٹی کے تحت ایران کو جوہری سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق حاصل ہے اور اپنی سرزمین پر ہی یورینیم افزودہ کرنے کو ایران کی جانب سے سرخ لکیر (Red Line) سمجھا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آیا دونوں طرف کی سفارت کاری اس سرخ لکیر کو پار کیے بغیر ایک دوسرے کی تشویشیں دُور کر سکتی ہے۔ جنیوا مذاکرات کا شکریہ کہ اب دونوں فریق ایک دوسرے کے کم از کم سطح کے مؤقف سے آگاہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے روسی وزیر خارجہ سرجی لاروف نے اس پوری صورت حال کو بجا طور پر ایک فقرے میں بیان کر دیا ہے: ’’اب اس معاملے کو صحیح‘ بالکل واضح اور باہمی احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے کاغذ پر منتقل کرنے کا مرحلہ آن پہنچا ہے‘‘۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved