مصر میں حماس اور اسرائیل کے مذاکرات کے بعد غزہ میں جنگ بندی معاہدہ نافذ العمل ہو گیا ہے۔ یہ مذاکرات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کے تحت مصر اور قطر کی ثالثی میں ہو رہے تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں سالانہ اجلاس میں شرکت اور آٹھ اہم عرب اور مسلم ملکوں‘ جن میں پاکستان بھی شامل تھا‘ کے سربراہان سے نیویارک میں ملاقات کے بعد جب امریکی صدر نے غزہ میں جنگ بندی اور قیام امن کیلئے یہ منصوبہ پیش کیا تھا تو بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ حماس اس پر راضی ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس منصوبے میں گزشتہ دو برس سے جاری جنگ کی ساری ذمہ داری حماس پر ڈال کر‘ اس کے اختتام کو حماس کے ہتھیار ڈالنے اور اُس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ بیشتر حلقوں نے اس منصوبے کو یکطرفہ قرار دیا تھا کیونکہ اس منصوبے میں عالمی اداروں کی طرف سے اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیے جانے کے باوجود انہیں ہر الزام سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس منصوبے پر ردِعمل دیتے ہوئے ایک فلسطینی شہری نے کہا تھا کہ اس منصوبے میں جان بوجھ کر ایسی شرائط شامل کی گئیں جن کے بارے میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کو یقین ہے کہ حماس اسے کبھی قبول نہیں کرے گی اور یوں اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے کا جواز مل جائے گا۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ایک ماہر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ اپنے اس منصوبے کو امن کا منصوبہ کہتے ہیں جبکہ یہ دراصل جنگ جاری رکھنے کا منصوبہ ہے۔ یہاں تک کہ جن آٹھ عرب اور مسلم ملکوں کے ساتھ مشاورت کے بعد صدر ٹرمپ نے یہ منصوبہ پیش کیا تھا‘ ان کا بھی یہ مؤقف تھا کہ یہ وہ منصوبہ نہیں جس پر ان ملکوں نے دستخط کیے تھے۔ لیکن حماس نے یہ کہہ کر کہ وہ صدر ٹرمپ کے منصوبے کی بنیادی شقوں‘ جن میں حماس کو غیرمسلح کرنا اور غزہ میں جنگ بندی کے بعد قائم ہونے والی انتظامیہ سے باہر ہونا شامل ہے‘ کے ساتھ اتفاق کرتی ہے‘ دنیا کو حیران کیا ہے۔ تاہم یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس منصوبے کی بعض دفعات وضاحت طلب ہیں اور ان پر بحث ہونی چاہیے۔ دنیا میں اسرائیلی جارحیت کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور فلسطینیوں کے ساتھ عالمی یکجہتی کے فقید المثال اظہار سے صدر ٹرمپ کو حماس کے اس مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا۔
قاہرہ میں مصر‘ قطر اور امریکہ کے نمائندوں کی موجودگی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات‘ اور عرب اور مسلم ممالک کے دباؤ کے نتیجے میں اب جو معاہدہ ہوا ہے‘ اس کا فوکس غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کی حراست میں بھوکے اور بے گھر فلسطینیوں تک خوراک اور دیگر ضروری اشیا کی فراہمی ہے۔ اصولی طور پر ٹرمپ منصوبے کے اعلان کے فوری بعد غزہ میں جنگ بند ہو جانی چاہیے تھی لیکن ٹرمپ منصوبے کے منظر عام پر آنے کے باوجود اسرائیل نے غزہ پر بمباری جاری رکھی‘ حتیٰ کہ مصر میں جاری مذاکرات کے دوران بھی اسرائیلی حملے جاری رہے‘ تاہم امریکہ سمیت باقی دنیا کو امید تھی کہ اس منصوبے کو قابلِ عمل اور حماس کیلئے قابلِ قبول بنانے کیلئے درکار تبدیلیوں کے ساتھ صدر ٹرمپ کا منصوبہ غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی محاصرہ ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن کیا اس سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع مستقل طور پر ختم ہو جائے گا؟ اس بارے عالم اسلام اور دنیا کے دیگر ملکوں میں جو رائے پائی جاتی ہے‘ اس کے مطابق محض غزہ میں جنگ بندی سے یہ پیچیدہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
گزشتہ 77 برسوں میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان بلکہ خود حماس اور اسرائیل کے درمیان خونریز جھڑپوں کے بعد متعدد بار جنگ بندی ہو چکی ہے‘ مگر اس سے مستقل امن قائم نہیں ہوا۔ اس پر عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ 1993ء میں اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ عرب مقبوضہ علاقوں یعنی دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ مشرقی بیت المقدس سے ملحقہ علاقوں اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی اس مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل ہے۔ اسرائیل میں ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی سخت مخالفت پائی جاتی ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت اعلانیہ طور پر فلسطینی ریاست کی مخالفت کا اظہار کر چکی ہے بلکہ گزشتہ چند دہائیوں میں اسرائیلی حکومتیں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ عرب علاقوں میں ایسے اقدامات کر چکی ہیں جن کے نتیجے میں ان علاقوں پر مشتمل ایک الگ اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام نہ صرف ناقابلِ عمل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ ان اقدامات میں سب سے نمایاں دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کے اردگرد کے اُن علاقوں‘ جہاں فلسطینیوں کی اکثریت آباد ہے‘ میں یہودی بستیوں کی تعمیر ہے۔ عالمی عدالت انصاف ان بستیوں کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے‘ اس کے باوجود اسرائیل نے حال ہی میں سینکڑوں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے۔ اس سے دریائے اردن کے مغربی کناروں پر آباد یہودیوں کا فلسطینی آبادی میں تناسب اس حد تک بڑھ جائے گا کہ ان کی موجودگی میں ایک الگ فلسطینی ریاست کا قیام تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
نیتن یاہو کی حکومت مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہر اس اقدام پر کمربستہ نظر آتی ہے جس کے نتیجے میں فلسطینی ریاست کا منصوبہ ناکام ہو جائے۔ نیتن یاہو کی اس پالیسی کو اسرائیل کی یہودی آبادی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس لیے اسرائیل کی طرف سے شروع سے ہی فلسطینی ریاست کے متبادل حل کی تجویز پیش کی جاتی رہی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ایک موقع پر اسرائیل نے اُردن میں فلسطینیوں کو آباد کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر اردن‘ عرب ممالک اور خود فلسطینیوں کی طرف سے اس تجویز کے مسترد کیے جانے کے بعد اس پر اصرار نہیں کیا گیا۔ فلسطین میں فلسطینیوں اور یہودیوں کیلئے دو الگ اور خود مختار ریاستوں کے قیام کے بجائے آج کل ایک متبادل حل کی ایک ایسی تجویز‘ جسے بعض سرکردہ اسرائیلی اور یہودی دانشوروں کی حمایت بھی حاصل ہے‘ پیش کی جا رہی ہے جس کے تحت دریائے اردن کے مغربی کنارے سے بحیرۂ روم کے ساحل تک کے علاقے میں ایک ہی ریاست قائم کر دی جائے جس میں فلسطینیوں اور یہودیوں کو برابر کے شہری‘ سیاسی اور معاشی حقوق حاصل ہوں۔ اس تجویز کے حق میں جو سب سے مضبوط دلیل پیش کی جاتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ 1967ء کے بعد سے یہ علاقے ایک ہی ریاست کی شکل میں قائم چلے آ رہے ہیں۔ مگر اس کے راستے میں بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں جن میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیلیوں کی نسل پرستی کے تحت اسرائیل کو ایک خالص صہیونی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ اسی مائنڈ سیٹ کے تحت فلسطین میں آباد پچاس لاکھ فلسطینیوں کو ہر قسم کے سماجی‘ سیاسی اور قانونی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
یہ تنازع اتنی پیچیدہ اور مشکل صورت اختیار کر چکا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دعوے کے برعکس ان کا منصوبہ موجودہ شکل میں اسے حل نہیں کر سکے گا۔ یہاں مجھے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان‘ جنہیں قائداعظم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد اقوام متحدہ میں زیر بحث فلسطینی مسئلے پر عرب مؤقف کی حمایت کیلئے بھیجا تھا‘ کا وہ مشہور مقولہ یاد آتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''یہ (فلسطین) مسئلہ گزشتہ دو ہزار سال سے موجود چلا آ رہا ہے اور آئندہ دو ہزار سال تک موجود رہے گا‘‘۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی بحث میں سر ظفر اللہ خان نے عرب مؤقف کے حق میں یعنی فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے خلاف ایسے جامع ناقابلِ تردید دلائل دیے تھے کہ خود عرب وفود بھی ششدر رہ گئے تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved