تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     11-10-2025

دو ٹوک پیغام

پریس کانفرنس میں تین باتیں واضح کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ طاقت ہی فیصلہ کن ہے۔ دوسری یہ کہ ایک قومی بیانیے پر قومی اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو سکا۔ تیسری یہ کہ خیبر پختونخوا کی حکومت دہشت گردی کے خلاف اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر سکی۔
ہمارے جوانوں کا لہو بہایا جا رہا تھا۔ ہمارے شہری شہید ہو رہے تھے۔ صرف ایک دن میں گیارہ خوبصورت جوان اس دھرتی کو دہشت گردی سے پاک کرتے کرتے جان کی بازی ہار گئے۔ خیبر پختونخوا کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ کسی ریاست اور قوم کے لیے یہ نقصان ناقابلِ برداشت ہے۔ بارہا افغانستان کو توجہ دلائی گئی کہ اس کی سرزمین ہمارے مجرموں کی پناہ گاہ ہے۔ ہمارے شہریوں اور سپاہیوں کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ کسی نے ہماری نہیں سنی۔ اس کے بعد طاقت ہی کو اپنا فیصلہ سنانا پڑا۔ہم اپنے جوانوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر ہمارے پاس طاقت ہے تو پھر ہمیں جواب دینا ہے۔
پُرامن زندگی کی طرف انسان کی تہذیبی پیش قدمی قابلِ ستائش ہے۔ اس کے باوصف طاقت کا کردار آج بھی فیصلہ کن ہے۔ یہ طاقت ہی ہے جو تاریخ کا رُخ متعین کرتی ہے۔ فیصلہ آج بھی طاقت کے ہاتھ میں ہے۔ ماضی میں جب سلطنتوں کا دور تھا‘ طاقت بے مہار تھی۔ جو جہاں قبضہ کر لیتا‘ وہ زمین اس کی ہو جاتی۔ یہی دنیا کا قانون تھا۔ پھر اقوامِ متحدہ وجود میں آئی۔ کہا گیا کہ اب یہ ادارہ فیصلہ کرے گا۔ طاقت کو بین الاقوامی قانون کا پابند کر دیا گیا ہے۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ اس ادارے کی موجودگی میں بھی طاقت ہی فیصلہ کرتی ہے۔ اس لیے کسی کو محفوظ رہنا ہے تو پھر اسے طاقت ہی پر بھروسا کرنا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ امریکہ کو شکایت ہوئی کہ افغانستان کی سرزمین اس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ اسامہ بن لادن وہاں بیٹھ کر امریکہ میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ طالبان حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ انہیں امریکہ کے حوالے کیا جائے اور امریکہ مخالف کارروائیاں بند کی جائیں۔ طالبان نے مان کر نہیں دیا۔ سفارتی کوششیں ہوئیں جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں۔ کہا گیا کہ پہلے عالمی عدالت میں ثابت کریں۔ طاقت اس جھمیلے میں نہیں پڑتی۔ وہ اپنی معلومات پر بھروسا کرتی ہے۔ پھر طاقت نے اپنا فیصلہ سنایا اور افغانستان کو تورا بورا بنا دیا گیا۔ دنیا بحث کر تی رہے گی کہ امریکی حملہ غلط یا صحیح‘ طاقت نے اپنا فیصلہ سنایا اور نافذ بھی کر دیا۔
یہ 2023ء کی بات ہے۔ حماس نے اسرائیل میں ایک تقریب پر حملہ کیا۔ چند اسرائیلی شہری جان سے گئے۔ بہت سے زخمی ہوئے اور کئی یرغمال بنا لیے گئے۔ اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنا مقدمہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا۔ اس نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ انسانی حقوق کی کوئی تنظیم اسے روک سکی نہ کوئی عوامی مظاہرہ۔ وہ اقوامِ متحدہ کی کسی قرارداد کو خاطر میں لایا نہ جنگ بندی کے کسی مطالبے کو۔ دنیا بحث کرتی رہے گی۔ شاعر اسرائیلی مظالم کے خلاف نظمیں لکھتے رہیں گے۔ مذمت کا سلسلہ جاری رہے گا مگر طاقت نے جو فیصلہ کرنا تھا‘ کر دیا اور پھر اس کا نفاذ ہو گیا۔
اقتدار کی سیاست‘ داخلی ہو یا عالمی‘ طاقت ہی کی بنیاد پر چلتی ہے۔ انسان کا تہذیبی ارتقا قابلِ تحسین ہے مگر یہ انسان کی جبلتوں کو تبدیل نہیں کر سکا۔ انسان طاقت ہی کی سنتا ہے۔ ان جبلتوں کو اخلاقی شعور ہی حدود کا پابند کر سکتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ انسان کی اخلاقی صلاحیت کو ابھارا جائے۔ اس کی ذہنی قوت کو بڑھایا جائے تاکہ وہ خیر اور شر میں فرق کر سکے۔ اس کی قوتِ عمل کو بڑھایا جائے جو خیر کے لیے ہو۔ اس کے لیے بیانیہ چاہیے۔ یہ اس مقدمے کا دوسرا پہلو ہے۔
'پیغامِ پاکستان‘ کے عنوان سے ایک بیانیہ بنایا گیا۔ اس کو آگے بڑھانا ان لوگوں کا کام تھا جنہوں نے اس پر دستخط کیے اور اسے قبول کیا۔ جسے فتنہ خوارج کہا جاتا ہے‘ اس کی بنیادیں مذہبی ہیں۔ اس لیے مذہب کا درست تصور عوام کے سامنے رکھنا ان افراد کی ذمہ داری تھی جو مذہب کے نام پر سماج میں متحرک ہیں۔ انہیں محراب و منبر سے آواز اٹھانی ہے۔ انہیں کتابیں لکھنی ہیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اس باب میں لوگوں نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے جو کوشش کی جانی چاہیے تھی‘ وہ نہیں کی گئی۔ میں نے یہ دیکھا کہ دہشت گردی کے بیانیے کو جنہوں نے علمی سطح پر چیلنج کیا اور جوابی بیانیہ سماج کے سامنے رکھا‘ وہ 'پیغامِ پاکستان‘ کا رسمی حصہ نہیں ہیں۔ وہ اس جوابی بیانیے پر اپنے طور پر برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ وہ اس کے لیے اپنی جانیں دیتے رہے‘ جلا وطن ہو گئے۔ آج بھی پاکستان ان کے لیے محفوظ نہیں لیکن وہ اس کو دہشت گردی سے پاک رکھنے کے لیے آج بھی متحرک ہیں۔
اس بیانیے کا دوسرا پہلو سیاسی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ لوگوں نے اپنے سیاسی مقصد کے لیے ریاستی اداروں کے بارے میں ابہام پیدا کیا۔ مسلسل اس تاثر کو ہوا دی گئی کہ دہشت گرد تو امن پسند ہیں اوردہشت گردی ریاستی اداروں کی غفلت یا نااہلی کا نتیجہ ہے۔ اس بیانیے کا تدارک موجودہ ہائبرڈ نظام کے اس حصے کا کام ہے جو سیاسی ہے۔ بیانیے کے اس پہلو پر بھی بدقسمتی سے کوئی کام نہیں ہوا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ابہام ابھی تک باقی ہے‘ اس کے باوجود کہ ہمارے فوجی جوان ہر دن جامِ شہادت نوش کررہے ہیں۔ یہ کام ان لوگوں نے کرنا ہے جو ہر شام ٹی وی شوز میں بیٹھتے ہیں اور حکومت کا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ان کا کام ہے کہ قومی ایکشن پلان میں جو ذمہ داری ان کو سونپی گئی ہے‘ اسے خوش اسلوبی سے ادا کریں۔ اگر وہ یہ کام کرتے تو قومی سطح پر بیانیے کے باب میں اتفاقِ رائے پیدا ہوتا اور یہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن ہوتا۔
میرا تاثر ہے کہ آج ہمیں ایک بار پھر قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ 2014ء میں جس سطح کی کوشش ہوئی تھی‘ اسے دہرایا جائے۔ علما اور مذہبی راہنما بھی 'پیغامِ پاکستان‘ کے ساتھ اپنی وابستگی کی تجدید کریں۔ میڈیا دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیے کا ابلاغ کرے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقتدار کی سیاست کو قومی سلامتی سے الگ کیا جائے۔ اتنے جوانوں کی شہادت ایک قومی مسئلہ ہے۔ اگر ایسے معاملے میں بھی قوم یکسو نہ ہو تو یہ بدقسمتی ہے۔ اگر آج بھی افغانستان کے طالبان اور ٹی ٹی پی میں حدِ فاصل قائم کی جائے تو اس کا مطلب ابہام پیدا کرنا ہے۔ یہ سب بیانیے کے مسائل ہیں۔ اس حوالے سے قومی سطح پر یکسوئی لازم ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے دو اور دو چار کی طرح بتا دیا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں‘ مذہبی راہنما‘ سول سوسائٹی اور میڈیا قومی سلامتی کو درپیش چیلنج کا ادراک نہیں کر سکے۔ فوج اگر اپنا کام کر رہی ہے تو ریاست اور سماج کو بیانیے کے محاذ پر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس بیانیے کا ایک پہلو مذہبی ہے اور دوسرا سیاسی۔ اس کو ایک منظم حکمتِ عملی میں بدلنا سیاسی قیادت کا کام ہے۔ اہلِ دانش کو اعتماد میں لینا اور ان کو رائے عامہ کی تشکیل کے لیے حساس بنانا بھی سیاسی حکومت کا کام ہے۔ لازم ہے کہ نواز شریف صاحب نے جس طرح 2014ء میں قوم کو جمع کیا‘ اسی طرح آج بھی یکجا کیا جائے۔ ڈی جی صاحب نے بین السطور خیبرپختونخوا کی حکومت کو بھی ایک پیغام دیا ہے۔ اللہ کرے کہ اس کا ابلاغ ہو گیا ہو۔ اگر صوبائی حکومت ریاست کے ساتھ تصادم کی طرف جائے گی تو یہ بڑا المیہ ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved