تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     11-10-2025

سینیٹر مشتاق احمد کی فاتحانہ واپسی

جمعرات کی دوپہر کو اہلِ پاکستان نے ایک خوشگوار اتفاق دیکھا کہ جب اڑھائی بجے کے قریب سابق سینیٹر مشتاق احمد اسلام آباد ایئر پورٹ سے باہر آ رہے تھے تو عین اُس وقت اہلِ غزہ سیز فائر کی خوشیاں منا رہے تھے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے غزہ کے جانباز شہریوں کے ساتھ یکجہتی کو اپنا مشن بنایا ہے۔ وہ اس مشن کی کامیابی کے لیے ہر دم بڑی سے بڑی قربانی دینے کو آمادہ رہتے ہیں۔ انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر 44 ملکوں کے باہمت لوگوں کے ساتھ گلوبل صمود فلوٹیلا میں شمولیت اختیار کی۔ جب وہ غزہ کے قریب پہنچے تو اسرائیلی فوج نے انہیں گرفتار کر لیا۔
سینیٹر صاحب نے رہائی کے بعد پہلے اُردن سے اور پھر اسلام آباد میں بتایا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اسرائیل کی ایک بدترین جیل میں ڈالا گیا۔ ان کے دونوں ہاتھوں کو ان کی پشت پر مسلسل ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں اور زنجیریں ڈالی گئیں۔ ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں اور کوٹھڑیوں میں بھونکتے کتوں کے ساتھ اسرائیلی پولیس والے انہیں ٹھڈے مارتے۔ غزہ سیز فائر کے موقع پر جہاں اسرائیل کو اپنے مذموم عزائم میں ناکامی ہوئی‘ وہاں اسے ساری دنیا کے کروڑوں باضمیر لوگوں کے احتجاجی مظاہروں کی بنا پر ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اخلاقی اعتبار سے بھی صہیونی ریاست کو دنیا کے سامنے بدترین خفت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا موازنہ کر رہی ہے کہ جب بھی کوئی اسرائیلی یرغمالی حماس کی قید سے رہا ہوا تو اس نے واپس جا کر حماس کے حسنِ سلوک کی تعریف کی۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ حماس والے خود بھوکے رہتے تھے مگر ہمیں کھانا فراہم کرتے تھے اور ہمارے آرام کا خیال رکھتے تھے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر جماعت اسلامی اسلام آباد کے ممتاز رہنما میاں محمد اسلم اور امیرِ جماعت اسلام آباد نصراللہ رندھاوا صاحب نے کارکنان کی بڑی تعداد کے ساتھ سینیٹر مشتاق احمد کا استقبال کیا۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی کے سینکڑوں لوگ بھی وہاں موجود تھے۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ برس سے جماعت اسلامی کے امیر اور دیگر قائدین کے ساتھ سینیٹر مشتاق احمد صاحب کے کچھ اختلافات چل رہے تھے لیکن جماعت کے لوگوں نے ایئر پورٹ جا کر اپنے لیڈر کی بدترین اسرائیلی جیل سے رہائی اور سرخروئی پر انہیں مبارکباد پیش کی۔ یہ مبارکباد اس بات کی دلیل تھی کہ جماعت انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرتی ہے۔ تاہم جمعرات کی شب مشتاق خان صاحب نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بتایا کہ انہوں نے 19 ستمبر کو جماعت اسلامی سے استعفیٰ دے دیا تھا‘ جسے تاحال امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے منظور نہیں کیا۔
ہم محترم حافظ صاحب سے یہی درخواست کریں گے کہ سینیٹر صاحب اب صرف جماعت کا نہیں پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کا بھی اثاثہ ہیں‘ انہیں گلے لگائیں تاکہ باہمی گلے جاتے رہیں۔ ہم سینیٹر صاحب سے بھی عرض کریں گے کہ ایک موج کتنی ہی تُند اور سر بلند کیوں نہ ہو‘ اس کے لیے دریا اور سمندر کی موجودگی اور روانی ضروری ہے۔ اسی لیے علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں۔ایک فرد چاہے کتنا ہی صاحبِ فکر و دانش اور جوش و جذبے سے سرشار کیوں نہ ہو لیکن ایک جماعت کی اجتماعی دانش زیادہ قابلِ اعتبار اور قابلِ بھروسا ہوتی ہے۔
جمعرات کے روز اڑھائی بجے دوپہر میں نے غزہ کے ایک ٹاؤن دیر البلاح میں فون پر ایک فلسطینی دوست سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ غزہ کے جہنم زار میں اسرائیلی آگ کے دوران اہلِ غزہ مسکراتے ہوئے سنتِ ابراہیمی ادا کرتے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ دو برس کے دوران 68 ہزار سے زائد اہلِ غزہ نے جامِ شہادت نوش کیا‘ تقریباً دو لاکھ فلسطینی شدید مجروح اور بہت سے مستقلاً معذور ہو گئے ہیں۔ اس فلسطینی بھائی نے بتایا کہ جب ہمیں اطلاع ملی کہ قاہرہ میں دوطرفہ جنگ بندی پر دستخط ہو گئے ہیں تو ہم بہت خوش ہوئے۔ استاد حسین! اس وقت تمام اہلِ غزہ اپنے اپنے خیموں‘ اپنے ٹھکانوں اور اپنے اپنے کھنڈرات سے نکل کر امن کی واپسی کا جشن منا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی یہ جشن بنتا ہے کہ اسرائیل کے تمام تر جارحانہ عزائم کو بدترین شکست ہوئی۔
سچی بات یہ ہے کہ نہ صرف اہلِ غزہ بلکہ امت مسلمہ کو یورپ‘ آسٹریلیا اور امریکہ کے کروڑوں دردِ دل رکھنے والے باضمیر‘ باہمت اور جرأت مند لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ یورپ کے عظیم شہریوں نے بڑے بڑے مظاہرے کیے۔ لندن میں مقیم بی بی سی کی سابق نیوز کاسٹر اور تجزیہ کار محترمہ مہ پارہ صفدر نے مجھے بتایا کہ لندن کے رہنے والوں نے مسلسل دو برس تک ہر ہفتے سینٹرل لندن میں اکٹھے ہو کر احتجاجی مظاہرے کیے۔ بلامبالغہ ان مظاہروں میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے رہے۔ ان میں گورے بھی تھے‘ کالے بھی‘ ایشیائی بھی اور افریقی بھی تھے‘ اور دنیا بھر کے مسلم ملکوں سے تعلق رکھنے والے بے شمار مسلمان بھی شامل تھے۔ ہاں! حیران کن بات یہ تھی کہ بڑی تعداد میں یہودی بھی ان مظاہروں میں شامل ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ صہیونی ایجنڈا ہے‘ یہودی نہیں۔ نیتن یاہو کا بدترین ظالمانہ رویہ ابراہیمی و موسوی تعلیمات کی سراسر نفی ہے۔ اسی طرح تمام یورپی ممالک بالخصوص اٹلی میں تو کئی روز تک پہیہ جام ہڑتال رہی‘ یہی کچھ آسٹریلیا میں بھی ہوا‘ وہاں بھی بار بار لاکھوں کے جلوس نکالے گئے۔ اس زبردست سیاسی و اخلاقی دباؤ کے سامنے بالآخر نیتن یاہو کو سر جھکانا اور اہلِ غزہ کو ان کا حق دینا پڑا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین طے پانے والے باہمی دفاعی معاہدے نے بھی نیتن یاہو کو حقیقت پسندی کے سامنے سر جھکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل جس پاکستانی قوت و شوکت کو دور سمجھ رہا تھا‘ وہ اب اس کے آنگن تک آ پہنچی ہے۔ میرے فلسطینی دوست نے جمعرات کی دوپہر کو جس باعزت اور باوقار جنگ بندی کی خوش خبری دی تھی‘ جمعرات کی شب پاکستانی وقت کے مطابق شب کے تقریباً نو بجے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس کی تصدیق کر دی اور اعلان کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے اس تاریخی موقع پر وہ بحیثیت ضامن بنفس نفیس خود قاہرہ جا رہے ہیں۔ عازمِ سفر ہونے سے پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انہیں یقین ہے کہ غزہ میں پائیدار امن قائم ہو گا۔ اپنے قیامِ قاہرہ کے دوران ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ بااختیار اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح اعلان بھی کر دیں تاکہ کسی طرح کا ابہام باقی نہ رہے۔
اگرچہ مسلسل دو برس تک اہلِ غزہ نے بہت بڑی قربانی دی ہے اور صلۂ شہید تو انہیں اپنے مولا کے ہاں ملے گا مگر انہوں نے فلسطین کی تاریخ کو اپنے خون سے ایک بار پھر تحریر کیا ہے اور دنیا کے کروڑوں باضمیر انسانوں کے دلوں میں اس کا نقشِ دوام ثبت کر دیا ہے۔ اب دنیا بھر کے لوگوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ ہم سینیٹر مشتاق احمد کو غزہ مشن میں کامیابی اور بدترین اسرائیلی جیل سے باعزت رہائی اور پاکستان فاتحانہ واپسی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved