تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     11-10-2025

پُرامن احتجاج‘ ایک جمہوری حق

سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور نیپال میں جو کچھ ہوا وہ اشرافیہ اور استحصالی نظام کے خلاف مظاہرے تھے جنہیں ریاستی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے پاکستان میں بھی اشرافیہ کو ملنے والی مراعات کے خلاف اسی طرح کی عدم اطمینان کی صورت حال دیکھی ہے اور اس کی تازہ ترین مثال آزاد جموں وکشمیر کے حالات تھے۔ مشہور کہاوت بلکہ ایک عالمی سچائی ہے کہ جب تک بچہ روئے نہ ماں بھی دودھ نہیں دیتی۔ آزاد کشمیر میں گزشتہ کچھ عرصے میں یہ دوسرا بڑا عوامی احتجاج تھا جب عوام اپنے حق کیلئے باہر نکلے اور حکومت کو اپنے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کیا۔ حق حاصل کرنے کیلئے بھیک نہیں مانگی جاتی بلکہ آئینی و قانونی حدود میں رہ کر اربابِ اختیار کو مجبور کرنا پڑتا ہے۔
اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد ناگزیر ہے۔ احتجاج ہر زندہ معاشرے کا جمہوری حق ہے‘ آئین بھی یہ حق فراہم کرتا ہے البتہ اس حق کو لامحدود اور بے مہار نہیں ہونے دیا جاسکتا۔ اس حق کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ عام شہریوں کے حقوق سلب کر کے ان کی زندگیاں اجیرن بنا دی جائیں‘ لوگ اپنے گھروں سے نہ نکل پائیں‘ بچے درس گاہوں میں نہ پہنچ پائیں‘ امتحانات نہ دے سکیں‘ مریض ہسپتالوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیں‘ مزدور خالی ہاتھ فاقہ کش بچوں کے پاس لوٹتے رہیں۔ آئین کا آرٹیکل 16 قرار دیتا ہے کہ امن عامہ کے مفاد میں‘ قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہر شہری کو پُرامن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہوگا۔ آئین کسی اجتماع کو نہیں روکتا‘ کسی سیاسی سرگرمی پر قدغن نہیں لگاتا‘ آزادیٔ اظہار کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔
پاکستان نوجوان آبادی کا ملک ہے۔ گلوبل یوتھ ڈویلپمنٹ انڈیکس کی رپورٹ 2023ء کے مطابق پاکستان کی دو تہائی یعنی 67 فیصد آبادی (پونے سترہ کروڑ) 30 سال سے کم عمر ہے۔ اگر عمر کی حد 40 سال تک رکھی جائے تو مزید 12 فیصد آبادی اس میں شامل ہو جائے گی۔ اگر ملک کی نوجوان آبادی کا صرف ایک فیصد ہی پُرامن اور منظم طور پر سڑکوں پر نکل آئیں اور ان کے ہاتھوں میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی جھنڈا نہ ہو‘ نہ ان کا کوئی سیاسی مفاد ہو اور نہ ہی کوئی اور ایجنڈا‘ اگر یہ صرف ون پوائنٹ ایجنڈے یعنی اپنے حقوق کے حصول کے لیے منظم انداز میں پُرامن طور پر باہر نکل آئیں تو کیا کچھ نہیں کر سکتے؟ سیاسی اور مذہبی ایجنڈوں پر احتجاج کی روایت پوری دنیا میں ختم ہو رہی ہے۔ دنیا اب مشترکہ مفادات کی خاطر جدوجہد کرتی ہے۔
پاکستان میں نو مقتدر طبقوں کا ایک نادیدہ گٹھ جوڑ ہے‘ جو عوام کے لیے وبال بنا ہوا ہے۔ ان کا مقصدِ حیات معاشیات ہے۔ وہ کہتے ہیں نا:
کون عاشق خدا کی ذات کا ہے
سارا جھگڑا معاشیات کا ہے
بات دوسری طرف نکل گئی‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر صرف ایک لاکھ لڑکے‘ لڑکیاں پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑے لاہور کی سڑکوں پر نکل آئیں اور پُرامن انداز میں اپنے جائز جمہوری حقوق کے لیے احتجاج کریں تو حکمرانوں کو حالات کی تپش کا اندازہ ہو جائے گا۔ ایک لاکھ لڑکے‘ لڑکیاں کراچی میں نکل آئیں‘ ایک لاکھ اسلام آباد‘ اسی طرح ملک کے دس‘ بارہ بڑے شہروں پر پُرامن نوجوان نکل آئیں تو اور صرف تین دن تک پُرامن احتجاج کیا جائے تو حکمرانوں کے پاس اس کے سوا کیا چارہ رہ جائے گا کہ عوام کے تمام جائز مطالبات ماننے کیلئے تیار ہو جائیں۔ شہر کی مرکزی سڑکوں پر پُرامن انداز میں احتجاج سے حکومت کی پوری انتظامی مشینری مفلوج ہو سکتی ہے‘ مگر اس کے لیے پُرامن رہنا اور امن و امان کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ احتجاج جس قدر منظم‘ مہذب اور پُرامن ہو گا‘ عوامی حمایت اور حکومت پر دبائو میں اسی قدر اضافہ ہو گا۔
ہمارے ملک میں کئی احتجاجی تحریکیں چل چکی ہیں‘ جن میں گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی‘ گوادر میں حق دو تحریک‘ سندھ بچاؤ تحریک اور بلوچ یکجہتی کمیٹی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ سادہ سا رہا ہے۔ آئینی‘ معاشی اور سیاسی حقوق اور سب سے اہم انہوں نے عزت کے ساتھ جینے کا حق مانگا۔ حکومت نے ان احتجاجی تحریکوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ تحریکیں بڑے شہروں یا مرکزی علاقوں تک نہ پھیل جائیں جہاں یہ رائے عامہ پر زیادہ اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
اگر ہم بڑے اور مشترکہ عوامی مسائل کی بات کریں تو یہ جو آئی پی پیز ہیں‘ یہ عوام کے ماہانہ اربوں روپے کھا رہے ہیں۔ ان کے خلاف ایک منظم عوامی احتجاج کی اشد ضرورت ہے۔ یہ لوگ حکومت سے بغیر بجلی پیدا کیے اربوں روپے کے چیک لیتے ہیں اور بینک میں جمع کروا دیتے ہیں۔ حکومت اپنے استعمال کیلئے مارک اَپ پر دوبارہ یہ رقوم لے لیتی ہے۔ نہ پیسے کہیں جاتے ہیں اور نہ آتے ہیں بلکہ وہیں پڑے پڑے بڑھتے رہتے ہیں۔ اس نہ پیدا ہونے والی بجلی سے بجلی کی قیمت اور گردشی قرضہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔ مجھے ایک ماہر سائنسدان نے بتایا تھاکہ صرف پانچ سو ارب کی لاگت سے پورے ملک میں بجلی فری ہو سکتی ہے۔ جب بجلی فری ہو سکتی ہے تو پورے ملک کے بجلی کے بل بھی فری ہو سکتے ہیں۔ اس ماہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی سولر کپیسٹی پچاس کروڑ میگا واٹ ہے۔ چین کی ترقی کا ایک بڑا سبب اس کی سستی بجلی ہے‘ جس سے فیکٹریاں دھڑا دھڑ چلتی ہیں۔ بھارت میں بھی پنجاب اور دہلی سمیت کئی علاقوں میں حکومتیں شہریوں کو دو سو‘ تین سو یونٹس تک بالکل مفت بجلی فراہم کر رہی ہیں‘ کیسے؟ آج سستی انرجی پر دنیا بھر میں خوب ریسرچ ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی ایک ایسا ریسرچ سنٹر بنانے کی ضرورت ہے جہاں یہ تحقیق کی جائے کہ ملک بھر میں بجلی کو کیسے فری کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح کشمیریوں نے کہا کہ ساڑھے تین سو ارب روپے انہیں ملتے ہیں اور دو سو ارب روپے پچاس خاندان کھا جاتے ہیں‘ اسی طرح پورے پاکستان میں چند سو خاندان ہیں جو پورے ملک کے وسائل کھا رہے ہیں جبکہ ان کے حواری ان کا تحفظ کر رہے ہیں۔ یہ اشرافیہ بدہضمی سے مر رہی ہے اور عوام غربت سے مر رہے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو پاکستان کے وسائل لوٹنے سے روک لیا جائے تو ملک کے ساتھ عوام کی بھی جان بخشی ہو سکتی ہے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتیں پبلک لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔ ان کو صرف اپنے آپ اور اپنے خاندان کے مفادات کی فکر ہے‘ عوام سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔ اس کے لیے عوام کو خود ہی کوئی تدبیر کرنا ہو گی۔
اگر پاکستانی عوام اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے لیے خود جدوجہد کرنا ہو گی۔ قرآن پاک کی سورۃ النجم کی آیت: 39 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کی اس نے سعی کی۔ جو کچھ کرنا ہے‘ اپنی محنت اور کوشش کے بل پر کرنا ہو گا ‘ محض خواہشوں اور تمنائوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ مولانا ظفر علی خان نے ہماری توجہ اس طرف دلائی تھی:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اپنے جمہوری اور آئینی حقوق کے حصول کا پُرامن راستہ دکھانے کی ضرورت ہے‘ یہ استحصالی نظام بہت جلد گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گا۔
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved