گزشتہ کالم کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ ڈویژنل سطح کے صوبوں کی تشکیل کا جو تصورپنجاب گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود صاحب نے پیش کیا ہے وہ سیاسی جماعتوں کو ہضم نہیں ہورہا اور جہاں تک عوام کی بات ہے تو ان بیچاروں کی سوچ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے اس ظالمانہ نظام نے بجلی‘گیس کے بلوں اور دو وقت کی روٹی کی جدوجہد تک محدود کردی ہے۔ تاہم میرا خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ جس طرح محترم مجیب الرحمن شامی اور دیگر صحافی دوستوں نے اس حوالے سے اپنی قیمتی آرا کا اظہار کیا اور لیہ سے لاہور تک عام لوگوں نے 'دنیا‘ کی ویب سائٹ پرمیرے کالم پہ اپنے کمنٹس شیئر کئے‘ اس سے لگتا ہے کہ میاں عامر محمود صاحب کے اس آئیڈیا کا جادو سر چڑھ کر بولے گا ۔
قارئین اور اہلِ دانش حلقوں نے ڈویژنل صوبوں کی تشکیل کے موضوع پر ویسے تو کئی سوالات اٹھائے ہیں لیکن ان میں مالیاتی خود مختاری اور گورننس سے متعلق ایک سوال اور دو خدشات ایسے ہے جو بجا طور پر جواب طلب اور حل کے متقاضی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اپنے صوبائی فنانس کمیشن فارمولے کے مطابق پورے فنڈز دے د یں تو ڈویژنل صوبوں کی ضرورت کیوں رہے گی؟ اورخدشہ ہے کہ ڈویژنل صوبے کی صورت میں صوبائی سطح پر سرکاری سیٹ اَپ تشکیل پائے گا تو غیرترقیاتی اخراجات اتنے زیادہ ہوجائیں گے کہ ترقیاتی بجٹ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔دوسرا خدشہ یہ کہ ملک میں بیورو کریسی کا رائج نظام جس پر پنجابی کی یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ''جہیڑے ایتھے بھیڑے ‘اوہ لہور وی بھیڑے‘‘ چنانچہ اگر چھوٹے صوبائی یونٹس بن بھی گئے تو انگریزدور کی ورثہ دار بیورو کریسی کا رویہ اور کلچر کیونکر بدلے گا اور اس طرح کیا ڈویژنل صوبے بنانے کی ساری تگ و دو رائیگاں نہ جائے گی؟
آیئے پہلے سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا موجودہ صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت کیا حصہ بنتا ہے اور اگر اس ڈویژن کو ایک صوبہ بنا دیا جائے تو اس صوبے کو کیا ملے گا؟یاد رہے کہ پنجاب میں اس وقت عبوری صوبائی مالیاتی ایوارڈ 2016ء لاگو ہے جس کا فارمولا یہ ہے کہ صوبے کے نیٹ کنسالیڈیٹڈ اکاؤنٹ کا 44 فیصد لوکل گورنمنٹس میں تقسیم ہوگا۔ نیٹ کنسالیڈیٹڈ کا مطلب یہ ہے کہ کُل صوبائی مالیاتی وسائل میں سے قرضوں اور سود کی ادائیگی‘لاہور ہائیکورٹ‘ پنجاب اسمبلی اور گورنر سمیت چارجڈ (وہ اخراجات جو اسمبلی کی منظوری سے مستثنیٰ ہیں ) کے علاوہ پنشن اور سبسڈیز کی رقوم اور سیلز ٹیکس آن امپورٹس کی مد میں وفاقی پول سے ملنے والی رقم کا 1/6 حصہ مائنس کرکے جو رقم بچے گی وہ نیٹ کنسالیڈیٹڈ فنڈ ہوگا‘ اور اس رقم کا 56 فیصد صوبائی حکومت رکھے گی اور باقی 44 فیصد شیئر مقامی حکومتوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔مقامی حکومتوں کے درمیان افقی (Horizontal) تقسیم کا فارمولا یہ ہے کہ 75 فیصد آبادی کی بنیاد پر اور باقی 25 فیصد غربت‘ اخراجات کی ضرورت اور کاسٹ آف سروس ڈِلیوری کی بنیادپر (زیادہ تر ضرورت بڑے شہروں کی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کو ہے) تقسیم ہوگا۔ہم نے اپنی کیس سٹڈی میں رواں مالی سال کے پنجاب بجٹ‘ سٹیٹ بینک‘ وفاقی وزارتِ خزانہ اور دیگر دستاویزات کو بنیاد بنایا ہے‘ جس کے مطابق رواں مالی سال (2025-26ء) کا نیٹ کنسالیڈیٹڈ فنڈ 4187 ارب روپے بنتا ہے اور پی ایف سی فارمولے کے تحت 44 فیصد یعنی 1842 ارب روپے مقامی حکومتوں کے بنتے ہیں‘ لیکن بجٹ کی کتاب میں لوکل گورنمنٹس کے لیے 934 ارب روپے رکھے گئے ہیں‘ مطلب یہ کہ مقامی حکومتوں کے 908 ارب روپے پر صوبائی حکومت قابض ہے ۔رواں مالی سال کے 1240 ارب روپے کے صوبائی ترقیاتی پروگرام میں لیہ،مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے منصوبوں کے لئے ایک محتاط تخمینے کے مطابق 35 ارب روپے مختص ہیں۔
گزشتہ کالم میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن اگر صوبہ ہو تو وفاق سے این ایف سی فارمولا کے تحت اسے براہ راست‘ صرف آبادی کی بنیاد پر 82 فیصد قابلِ تقسیم محاصل کی مد میں 357 ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں اور ڈی جی خان ڈویژن میں شامل لیہ‘راجن پور ‘مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان پنجاب کے غریب ترین اضلاع ہونے کے ناتے کم از کم 40 ارب روپے مزیداس ڈویژنل صوبے کے حصے میں آتے ہیں۔ یوں مجوزہ ڈیرہ غازی خان ڈویژنل صوبے کے پاس کل وسائل 397 ارب روپے ہوتے۔ مجوزہ صوبے کے انتظامی‘آئینی اور عدالتی ڈھانچے اور اس کے اخراجات کا روڈ میپ زیر بحث لائیں تو سب سے پہلے ڈیرہ غازی خان کی اسمبلی کی بات کرتے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے مطابق پنجاب کیلئے صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے آبادی کا کوٹہ چار لاکھ 29 ہزار 929 نفوس ہے ۔اس قاعدے پر عمل کرنے سے مجوزہ ڈیرہ غازی خان ڈویژنل صوبے کی براہ راست یا جنرل صوبائی اسمبلی نشستیں 29 سے بڑھ کر 31 ہو جائیں گی اور خواتین کی اور اقلیتی مخصوص نشستوں کے بعد اسمبلی کی تعداد 39 ارکان پر مشتمل ہوگی۔پنجاب اسمبلی کے موجودہ سیٹ اَپ کو بنیاد بنایا جائے تو ڈی جی خان اسمبلی افسران سمیت ملازمین کی تعداد 141 ہوگی۔ارکان اسمبلی‘ وزیر اعلیٰ ان کے سیکرٹریٹ ‘گورنر ہاؤس‘ 8 وزرا(ہر ضلع سے دو) کے علاوہ پارلیمانی سیکرٹری اور معاونین خصوصی اور دیگر سیاسی گورننس سیٹ اَپ کا تنخواہوں‘ یوٹیلیٹی چارجز ‘ دیگر تمام اخراجات کا سالانہ بجٹ ایک ارب 11 کروڑ روپے ہوگا۔نئے صوبے کے دو نئے بڑے محکمے ہائی کورٹ اور سول سیکرٹریٹ ہوں گے۔لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ سیٹ اَپ میں 22 لاکھ 8 ہزار 833 نفوس کیلئے ایک جج مقرر ہے۔ اس لحاظ سے ڈی جی خان ہائیکورٹ چیف جسٹس سمیت چھ ججز پر مشتمل ہوگی اور اسی نظام کے تحت تنخواہوں اور دیگر مراعات کے ساتھ سالانہ بجٹ ایک ارب 23 کروڑ روپے ہو گا۔سول سیکرٹریٹ میں چیف سیکرٹری کے بعد داخلہ‘تعلیم‘ صحت‘ فنانس اینڈ پلاننگ‘ خوراک و زراعت‘لائیو سٹاک ‘سی اینڈ ڈبلیو‘ اریگیشن‘فشریز‘جنگلات اور بورڈ آف ریونیو وغیرہ سمیت 12 سیکرٹریز اور ان کا سیٹ اَپ ہوگا۔پنجاب میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی مثال سامنے رکھی جائے تو فی محکمہ نئے صوبے کے سیکرٹریٹ آفس کا خرچہ تین کروڑ 65 لاکھ روپے سالانہ ہوگا اور 12 سیکرٹریز کے اخراجات‘44 کروڑ تنخواہیں اور الاؤنس جبکہ سروس ڈلیوری سمیت ایک ارب روپے ہوں گے۔گزشتہ کالم میں ہم بتاچکے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے چاروں اضلاع میں 30 جون کو ختم ہونے و الے مالی سال میں ترقیاتی اور نان ترقیاتی مدات میں 157 ارب 49 کروڑ روپے خرچ کئے گئے تھے۔اب اگر مجوزہ صوبے کے این ایف سی کے تحت دستیاب وسائل کو دیکھیں تو 397 ارب میں سے نئی حکومت کے زیادہ سے زیادہ اخراجات 200 ارب سے زیادہ نہیں ہوں گے اور تقریباًاتنی ہی رقم ترقیاتی منصوبوں کیلئے بچتی نظر آتی ہے۔
ڈویژنل صوبے کے اس ماڈل سٹرکچر سے فرق بہت حد تک واضح ہوجاتا ہے۔ باقی رہی بات بیوروکریسی کے کلچر کی تو وہ نئے صوبوں کی سیاسی قیادت کی کمٹمنٹ اور ویژن پر منحصر ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved