تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     20-11-2013

ہماری سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ

آج پاکستان کی ریاست اور معاشرے کو درپیش سب سے مہیب خطرہ کون سا ہے؟کس خطرے نے اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے؟ کون سے عفریت اس کی رگ ِ جان کو کاٹنے کے درپے ہیں؟ ان سوالوں کے کئی جواب ہو سکتے ہیں لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے۔۔۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔قومی سطح پر ان خطرات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور اس پربات بھی کی جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ اُنہیں انتہا پسندی، دہشت گردی ، نسلی اور لسانی تعصبات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے خطرہ ہے۔ حکومتی حلقے اور ارباب ِ اختیار بھی سب کچھ جانتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ بے خبری کا نہیں ہے کہ ہم اندھیرے میں ہیں او ر نادیدہ خطرہ ہماری گھات میںہے۔ یہ تمام خطرات مظاہر ہیں لیکن ان کی بنیاد کچھ اور ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان خطرات کی اصل جڑ کی طرف توجہ کی جانی چاہیے۔ حکومتی حلقوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس بات کا فہم ہونا چاہیے کہ ان تمام مسائل کی بنیاد کیا ہے۔ اگر ہم اس کا ادراک نہیں کریں گے تو گرتی ہوئی دیوار پر رنگ و روغن کرنے سے کچھ نہیںہوگا۔ اسے گرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اس ضمن میں میری رائے یہ ہے کہ ان تمام مسائل کی بنیاد کثرت ِ آبادی ہے۔ اس بات کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیںہے۔ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیںتو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارا معاشرہ تہہ در تہہ پیچیدگی اختیار کرتا جارہا ہے۔ انسانوں کی تعداد میں بے ہنگم اضافے نے اس پر ریاستی کنٹرول کو اگر ختم نہیں تو کمزور ضرور کردیا ہے۔ جن افراد کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے ، ان کی نظروں کے سامنے چھوٹے چھوٹے قصبے وسیع وعریض شہر بن چکے ہیں۔ آپ کے جاننے والے کتنے افراد ہیں جن کا کنبہ مختصر ہے؟آبادی میں دھماکہ خیز اضافہ ہی تمام مسائل کی جڑ ہے لیکن افسوس، اسے کسی سیاسی جماعت کے منشور میں تلاش نہیںکیا جاسکتا۔ کسی حلقے کی اس طرف توجہ نہیںہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ سماجی اورسیاسی مسائل کے ادراک کے لیے آپ دیہاتی اورشہری علاقوں کا دورہ کریں، مختلف افراد سے ملیںاور سنیں کہ وہ کیا کہتے ہیں اور اُنہیں کیسے مسائل کا سامنا ہے۔ گزشتہ پانچ دنوں کے دوران مجھے اپنے علاقے راجن پور کے سات نوجوانوںسے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ مجھ سے میرے چھوٹے سے فارم پر آکر ملے۔ انہیں مل کر مجھے احساس ہوا کہ جس چیز سے ہماری سلامتی کو خطرہ ہے وہ ان کے چہرے سے ہویدا ہے۔ اب مجھے بھی اس کے بارے میںکوئی ابہام نہیں ہے۔ جب وہ لڑکے مجھے ملے تو میں نے روایت کے مطابق ان میںسے ایک، جس نے مجھے سلام کیا تھا، کے والد کا نام پوچھا۔اس نے جواب دیا ، ’عیدو‘۔ پھر میںنے دوسرے، تیسرے اور چوتھے سے یہی سوال کیا تو سب کے جوا ب میں یکسانیت پائی جاتی تھی۔ سب کے والد ِ گرامی کا نام عیدو تھا۔ گویا وہ سب بھائی تھے۔۔۔ سات نوجوان لڑکے۔ میرا تجسس بڑھ گیا۔ میںنے پوچھا کہ وہ کتنے بھائی ہیں تو جواب ملا۔۔۔ دس۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ ان کی ایک بہن بھی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ مسٹر عیدو گیارہ بچوں کے والد صاحب تھے۔ ان تمام لڑکوں کو میں نے غور سے دیکھا تو مجھے احساس ہو اکہ وہ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان کے قد نہیں بڑھ رہے تھے اور جسمانی طور پر بھی کمزور تھے۔ ان کی آنکھوں میں زندگی کی تاب و تواں نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کی زرد آنکھوںمیں جھانکتے ہوئے میری سوچ ساٹھ کی دہائی میں چلی گئی جب ایوب دور میں فیملی پلاننگ کا پروگرام شروع ہوا لیکن مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مل کر پوری شدومد سے اس کی مخالفت کی۔ کچھ افراد کو اس وقت کا سیاسی نعرہ بھی یاد ہوگا کہ ہر انسان کا ایک منہ مگر دوہاتھ ہوتے ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ کمانے والے جتنے ہاتھ ہوں گے معاشی حالات اتنے ہی بہتر ہوں گے۔ اس وقت خاندان کو مختصر رکھنے میں دقیانوسی سوچ مانع تھی۔۔۔ ابھی بھی وہی صورت ِ حال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا تصور ہماری قومی سوچ میں جاگزیں نہیں ہوسکا۔ ہم بچوں کو قدرت کا تحفہ سمجھ کر اپنے خاندان کی تعداد میں بلا روک ٹوک اضافہ جاری رکھتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عام معاشروں میں کثرتِ آبادی سے صرف معاشی بدحالی اور عام قسم کے جرائم میں اضافہ ہوگا لیکن پاکستان عام حالات سے دوچار نہیںہے، یہ دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے؛ چنانچہ یہاں آبادی میں اضافے کا مطلب دہشت گردی میں اضافہ ہے۔ درحقیقت یہ ہے وہ ٹائم بم جس نے ہماری بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور ہم صرف اس کے مظاہر پر سر پیٹ رہے ہیں لیکن جب تک کانٹا پائوںسے نہیں نکالا جائے گا، کوئی مرہم یا جراحت کام نہیں دے گی۔ اس وقت حکومت کی لاپروائی (اس میں مختلف حکومتیں شامل ہیں) کی وجہ سے ملک کی آبادی کے درست اعداد وشمار بھی میسر نہیںہیں۔ ہر حکومت نیم دلی سے مردم شماری کی کوشش کرتی ہے لیکن ٹھوس اعدادوشمار سامنے نہیں آتے۔ اس میں کچھ سیاسی مسائل بھی سامنے آتے ہیں ، جیسا کہ بلوچستان اور سندھ میں مردم شماری کرتے ہوئے تعداد بڑھا دی جاتی ہے جبکہ ملک کے کچھ حلقوں کی آبادی کم دکھائی جاتی ہے۔ اس طرح درست آبادی سامنے نہیں آتی۔ اس میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی حلقہ بندیاں بھی شامل ہیں۔ اس وقت آبادی میں اضافہ وہ خطرناک معاملہ ہے جس پر تمام سیاست دانوں کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجانی چاہئیں اور اس میں کمی کرنے کے لیے ہر فورم پر بات ہونی چاہیے لیکن قومی سطح پر ہونے والی کسی بحث میں آپ آبادی میں کمی کرنے کی ضرورت کا ذکر نہیں سنیں گے۔ جب تک ہماری قومی ترجیحات میں تبدیلی نہیں آئے گی، ہمارے مسائل حل نہیں ہوںگے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved