تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     12-10-2025

قومی بقا اور اندرونی تقسیم کا چیلنج

پاکستان کے عوام اور سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو بے مثال قربانیاں دی ہیں ان کی قیمت خون کے ہر قطرے اور ہر شہید کے تابوت سے ادا کی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کی مساجد‘ گلی کوچوں اور دور دراز چیک پوسٹوں تک ہم نے ہزاروں افراد کو اس عفریت کا نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ ہر دھماکہ‘ دہشت گردی کا ہر حملہ‘ صرف ایک خبر نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی ماں کی گود‘ کسی سہاگن کاآنچل اور کسی بچے کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیتا ہے۔ دہشت گردی کے پے در پے دل دہلا دینے والے واقعات ہمیں شدید غم اور کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔ جب امن کی ہر کوشش کو خون میں نہلا دیا جائے‘ جب بات چیت کو کمزوری سمجھا جائے اور جب دہشت گردی کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے‘آئے روز قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد سکیورٹی فورسز کے پاس طاقت کے استعمال اورآپریشن کے علاوہ کیاآپشن رہ جاتا ہے؟ ایسے نازک حالات میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس نے ملک کی سلامتی کی صورتحال خصوصاً خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے حوالے سے تلخ حقائق کو واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ ترجمان پاک فوج کی پریس بریفنگ عسکری ترجمان کی رسمی گفتگو سے زیادہ ایک ایسے ادارے کی داخلی تشویش اور زمینی حقائق کے ادراک پر مشتمل ہے جو ملک کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ترجمان پاک فوج کا یہ اعلان کہ خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں کو جگہ دی گئی اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے‘ محض الزام نہیں بلکہ ایک تشویشناک اعتراف ہے کہ ملک کے اندر جہاں ریاست کی رِٹ ہر قیمت پر قائم ہونی چاہیے‘ وہاں کس مجبوری‘ غفلت یا بدنیتی کے تحت انتہاپسندوں کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع ملا۔ یہ محض سکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ ریاستی عزم کی ڈھیل‘ بنیادی انتظامی کمزوریوں اور مفادات کے ٹکراؤ کے باعث پیدا ہونے والی قومی تنزلی ہے۔ سب سے اہم نکتہ جو ترجمان پاک فوج نے اٹھایا‘ وہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کا نہ ہونا ہے۔ اے پی ایس سانحے کے بعد قوم نے اجتماعی طور پر دہشت گردی کے خلاف ایک عزم کیا تھا۔ اس منصوبے کا پہلا ہدف دہشت گردوں کا صفایا کرنا تھا جس پر فوج نے عمل کیا اور نو سو سے زائد دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا لیکن دوسرا اور تیسرا نکتہ یعنی مضبوط قومی بیانیے کی تشکیل اور دہشت گردی کے سہولت کاروں کا خاتمہ‘ سیاست کی نذر ہو گیا۔ ترجمان پاک فوج کا یہ سوال بجا ہے کہ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے؟ یہ بیان دراصل اس دوطرفہ سوچ پر ضرب ہے جو ایک طرف دہشت گردی کا شکار ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے اور دوسری طرف غیر واضح سیاسی یا فروعی مفادات کیلئے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا راگ الاپتی ہے۔ دہشت گردی ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی جارحانہ کارروائی ہے۔ اس کے خلاف سب سے پہلے طاقت کے استعمال سے ریاست کی رِٹ بحال کرنا لازمی ہوتا ہے‘ مذاکرات بعد کا مرحلہ ہوتے ہیں‘ وہ بھی شکست خوردہ گروہ کے ساتھ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے خیبرپختونخوا کی عدلیہ کی کارکردگی سے متعلق بھی سوال اٹھایا کہ خیبرپختونخوا کی عدلیہ سے دہشت گردوں کو سزا کیوں نہیں ملی؟ یہ سوال عدالتی اور قانونی نظام میں موجود نقائص کو عیاں کرتا ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انتھک محنت کے بعد دہشت گردوں کو پکڑتے ہیں اور عدالتیں شواہد کی کمی یا دیگر وجوہات کی بنا پر انہیں آزاد کر دیتی ہیں‘ تو دہشت گردی کی جنگ جیتنا ناممکن ہے۔ یہ عدم سزا کا کلچر ہی ہے جو سہولت کاروں اور دہشت گردوں کو دلیر کرتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں ملک کے دفاع کے ذمہ دار ادارے خاموش نہیں رہ سکتے یا عوام کو شدت پسند عناصر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ڈی جی ئی ایس پی آر نے سہولت کاروں اور مددگاروں کیلئے تین آپشنز دے کر حتمی لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ یہ اعلان محض ایک انتباہ نہیں بلکہ ریاست کی طرف سے ایک الٹی میٹم ہے کہ اب سٹیٹس کو یا موجودہ لچک والی صورتحال قبول نہیں کی جائے گی‘ یہ مجرمانہ گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کا اعلان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو غیر متزلزل قومی بیانیے کی ضرورت ہے۔ اس بیانیے کا محور یہ ہو کہ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست نہیں ہو گی ۔جو عناصر یا سیاسی قوتیں دہشت گردی کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کریں گی یا ان کے خلاف کمزور مؤقف اپنائیں گی وہ ملک کے ساتھ غداری کی مرتکب سمجھی جائیں گی۔ یہ وقت قومی اتحاد‘ نیشنل ایکشن پلان پر سخت ترین عملدرآمد اور دہشت گردوں کے ساتھ مجرمانہ گٹھ جوڑ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ہے بصورت دیگر دہشت گردی کا الاؤ ملک کے امن و امان کو ہمیشہ کیلئے خاکستر کر دے گا۔ ترجمان پاک فوج نے خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی جڑیں مضبوط ہونے کے پیچھے مقامی اور صوبائی سیاست کو ذمہ دار ٹھہرایا۔اس میں کوئی خلافِ واقعہ بات نہیں ہے کیونکہ گزشتہ 12 برسوں کے دوران جب صوبے میں دہشت گردی کی جڑیں دوبارہ مضبوط ہو رہی تھیں تو اس وقت کی صوبائی حکومت نے اس کے سدباب کیلئے وہ سنجیدہ اور ٹھوس کوششیں نہیں کیں جن کی ریاست کو توقع تھی۔ پاک فوج کے ترجمان کا بیان ایک ایسے نازک سیاسی موڑ پر سامنے آیا ہے جب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ سہیل آفریدی کو نامزد کیا گیا ہے۔ سہیل آفریدی اسمبلی میں اپنے جارحانہ بیانات اور سخت گیر مؤقف کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ان کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ سے ہے۔ اگر وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ نہ صرف قبائلی اضلاع سے بننے والے پہلے وزیر اعلیٰ ہوں گے بلکہ یہ ایک عجیب اتفاق بھی ہو گا کہ جس صوبے کو دہشت گردی کا سب سے بڑا چیلنج قبائلی اضلاع سے درپیش ہے‘ اس کی قیادت اسی علاقے کے ایک نمائندے کے سپرد کی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا عمران خان سخت گیر اور ریاستی بیانیے سے ممکنہ طور پر متصادم شخصیت کو نامزد کر کے ریاست کے ساتھ محاذآرائی کا راستہ اختیار کر رہے ہیں؟
پاکستان کے اندر دہشت گردی کی حالیہ لہر کو افغان سرحد پار سے ملنے والی پناہ گاہوں اور سہولت کاری سے کسی صورت الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایسے نازک وقت میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا دورہ بھارت اور وہاں سے پاکستان کے خلاف سخت بیانات آئندہ دنوں میں پاک افغان تعلقات میں مزید کشیدگی کی واضح علامت ہیں۔ مئی میں پاک بھارت جنگ کے بعد افغانستان کا بھارت کی طرف بڑھتا ہوا جھکاؤ پاکستان کے لیے سکیورٹی اور سفارتی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس دہرے چیلنج کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے کہ مقامی سیاسی قیادت بالخصوص خیبرپختونخوا کی قیادت اپنے فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وفاقی حکومت اور عسکری اداروں کے ساتھ غیر متزلزل قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ قومی بقا کی اس جنگ میں اندرونی تقسیم کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ متحدہ قومی عزم ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved