تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     12-10-2025

ٹرمپ کو نوبیل پرائز کیوں نہیں ملا؟

دس اکتوبر کو اوسلو میں ناروے کی نوبیل پرائز کمیٹی کی طرف سے سال رواں کا امن کا نوبیل انعام لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا کی سرکردہ اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچاڈو (María Corina Machado) کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ماریا کورینا ماچاڈو کو یہ انعام ان کی سیاسی جدوجہد اور سماجی کوششوں کے اعتراف میں دیا جا رہا ہے۔ نوبیل پرائز کمیٹی کے سربراہ جورگن واٹنے فرائڈنیس (Jørgen Watne Frydnes) نے 2025ء کا نوبیل امن انعام دینے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ماچاڈو نے وینزویلا کی اُس سیاسی اپوزیشن کو متحد کر دیا جو کبھی بری طرح تقسیم کا شکار تھی۔ ماچاڈو کی کوششوں کے نتیجے میں وینزویلا کی اپوزیشن اپنی اس بلند اور متحدہ آواز کو تلاش کر چکی ہے جس کے ساتھ ملک میں اب آزادانہ انتخابات اور حقیقی نمائندہ حکومت کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ماریا کورینا ماچاڈو کو گزشتہ برس نکولاس مادورو کے خلاف صدارتی امیدوار بننا تھا لیکن انہیں نااہل قرار دے دیا گیا یا دلا دیا گیا تھا۔ وینزویلا میں صدر نکولاس مادورو (Nicolás Maduro) کی حکومت نے گزشتہ برس ہونے والے صدارتی الیکشن سے پہلے اپنے ایسے مخالفین کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا تھا جو واقعی مادورو کے مخالف تھے یا مادورو حکومت انہیں اپنے مخالفین سمجھتی تھی۔ پھر ماچاڈو کی جگہ ایڈمنڈو گونزالیس کو صدارتی امیدوار بنایا گیا تھا لیکن انہیں مختلف ہتھکنڈوں سے ہرا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ 2024ء میں وینزویلا میں ہونے والے صدارتی انتخابات وسیع تر حکومتی جبر‘ انتخابی نااہلی کے سیاسی فیصلوں‘ گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے واقعات سے عبارت تھے۔ یہ الیکشن مادورو کے حامیوں سے بھری ہوئی نیشنل الیکٹورل کونسل کے فیصلے کے مطابق نکولاس مادورو نے جیت لیے تھے‘ حالانکہ بہت سے ٹھوس شواہد اس فیصلے کے برعکس بھی سامنے آئے تھے۔ اس متنازع انتخابی فتح کے بعد مادورو حکومت کے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن شدید تر کر دیا گیا تھا۔ ریاستی اور حکومتی جبر کی وجہ سے گزشتہ برس ماچاڈو کو روپوشی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اس بہادر خاتون نے اپنی زندگی کو لاحق انتہائی شدید نوعیت کے کئی خطرات کے باوجود اپنے وطن کو نہیں چھوڑا اور ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کیا۔
امن کے نوبیل انعام کے اس فیصلے میں انوکھی بات یہ ہے کہ ماچاڈو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرایا ہے۔ ٹرمپ خود کو امن کے نوبیل انعام کے سب سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے کیونکہ بقول ان کے انہوں نے سات‘ آٹھ جنگیں بند کرائی ہیں اور اس طرح انسانیت کو بڑی تباہیوں سے بچایا ہے۔ لیکن یہ محض ان کی ذاتی سوچ ہے‘ نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کی طرح بہت سے لوگ‘ حلقے اور تھنک ٹینک یہ سمجھتے ہیں کہ ممکن ہے یہ جنگیں (جن کا ذکر ڈونلڈ ٹرمپ کرتے نہیں تھکتے) واقعی انہوں نے رکوائی ہوں لیکن ان (یعنی ڈونلڈ ٹرمپ) کے بہت سے فیصلے دنیا بھر میں بہت سی خرابیوں کا باعث بھی بنتے رہے ہیں۔
آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ٹرمپ کو نوبیل انعام کیوں نہیں مل سکا۔ میری نظر میں ایسا نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں‘ جیسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے اور اب دوسرے دور میں بھی دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کے بجائے اکیلے چلنے کی پالیسی اپنائی اور اجتماعی مفادات کے بجائے تن تنہا انفرادی سوچ پر مبنی فیصلے کیے اور ایسا کرتے ہوئے یہ باور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ان فیصلوں کے باقی دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے ایسے پروگراموں میں کٹوتی کی جن سے دنیا بھر میں کئی شعبے متاثر ہوئے۔ ٹائم میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق اوسلو کے پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر نینا گریگر (Nina Graeger) کا ماننا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ خود کو عالمی امن کے لیے کردار ادا کرنے والا رہنما قرار دیتے ہیں لیکن ان کی پالیسیوں نے عالمی تعاون تخفیفِ اسلحہ اور انسانی امداد کے میدان میں منفی اثرات ڈالے ہیں۔ انہوں نے عالمی ادارۂ صحت‘ پیرس ماحولیاتی معاہدے اور دیگر عالمی اداروں سے امریکہ کو الگ کر کے کثیر جہتی نظام کو کمزور کیا۔ اس کے علاوہ ان کی جانب سے امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کی بندش اور بیرونی امداد میں کمی سے لاکھوں جانوں کو خطرہ لاحق ہوا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ فلسطین خصوصاً غزہ کو تباہ ہونے سے بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں اقدامات کے لیے جان بوجھ کر تاخیر کی اور غزہ میں انسانیت کو بلکنے دیا۔ ان کی جانب سے اسرائیل کو مالی اور حربی تعاون کے نتیجے میں غزہ میں 67ہزار سے زائد بے گناہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
وائٹ ہاؤس نے اس فیصلے پر کھل کر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نوبیل پرائز کمیٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن سٹیون چیونگ (Steven Cheung) نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ دنیا بھر میں امن معاہدے کرتے رہے ہیں‘ جنگوں کا خاتمہ کیا اور بے شمار جانیں بچائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوبیل پرائز کمیٹی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اس کے ارکان امن کے بجائے سیاسی ایجنڈے کو فوقیت دیتے ہیں۔ اسی لیے انسان دوست رہنما ٹرمپ کو‘ جو اپنی قوتِ ارادی سے پہاڑ ہلا سکتے ہیں‘ نوبیل انعام نہیں دیا گیا۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ سال رواں کے آغاز میں غزہ امن منصوبے کے تحت فریقین میں ابتدائی جنگ بندی ضرور ہوئی مگر فلسطینیوں کو مذاکرات سے باہر رکھنے پر ٹرمپ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اب بھی غزہ امن منصوبے میں پیش رفت کے باوجود پائیدار امن کے ثبوت ناکافی ہیں۔ غزہ میں امن منصوبے پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق تمام یرغمالی جلد ہی رہا ہو جائیں گے اور اسرائیل اپنی فوج کو ایک متفقہ لائن تک واپس بلا لے گا‘ جو مضبوط‘ پائیدار اور مستقل امن کی طرف پہلا قدم ہے۔ ادھر حماس آنے والے دنوں میں تمام 20زندہ یرغمالیوں کو فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کرے گی‘ جبکہ اسرائیلی فوج غزہ کے بیشتر حصوں سے انخلا شروع کر دے گی۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ سے جزوی انخلا شروع کر دیا ہے۔ اس ساری پیش رفت کے بعد بھی کچھ حلقے اس منصوبے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف غزہ کے فلسطینیوں کو دھوکا دینے کے لیے تو نہیں کیا جا رہا اور کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ یہودی قیدیوں کی رہائی کے بعد غزہ کو ایک اور تباہی سے دوچار کر دیا جائے۔ اس شک کی وجہ ماضی میں غزہ کے بارے میں پیش کردہ امن منصوبے ہیں جن میں سے ایک بھی منصوبہ فلسطینی مسلمانوں کے حق میں نہیں تھا۔ اللہ کرے کہ یہ شکوک غلط ثابت ہوں۔ اللہ کرے کہ فلسطینیوں کو پائیدار امن نصیب ہو۔ لیکن شکوک و شبہات کے بادل ابھی پوری طرح چھٹے نہیں ہیں کیونکہ غزہ امن منصوبے کے ابھی صرف ابتدائی مرحلے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا ہے اور دوسرے مرحلے کا ابھی کچھ پتا نہیں کہ اس میں فریقین کے مابین معاملات طے ہوتے ہیں یا نہیں۔ ایسے میں کہاں کا نوبیل انعام اور کیسا نوبیل انعام‘ اور وہ بھی امن کا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved