علی امین گنڈاپور صاحب وزارتِ اعلیٰ کے لیے عمران خان صاحب کا انتخاب کیوں بنے؟
کیا وہ صوبائی اراکینِ اسمبلی میں سب سے نیک اور پرہیزگار تھے؟ کیا وہ امانت اور دیانت میں ممتاز تھے؟ کیا وہ دوسروں سے زیادہ باصلاحیت اور حکیم تھے؟ کیا کے پی کی ترقی اور عوامی بہبود کے لیے وہ سب سے بہتر منصوبہ ساز ہو سکتے تھے؟ کیا سیاسی اعتبار سے ان کا حلقۂ اثر دوسروں سے زیادہ تھا؟ کیا ان کے دامن پر کرپشن اور اخلاقی رزائل کا کوئی داغ نہیں تھا؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ خان صاحب کا کوئی غالی معتقد بھی یہ رائے نہیں رکھتا کہ اپنے اوصافِ حمیدہ کے باعث وہ خان صاحب کا انتخاب بنے۔ پھر ان کو وزیراعلیٰ کیوں بنایا گیا؟
سہیل آفریدی صاحب اب عمران خان کا انتخاب کیوں ہیں؟ کیا وہ صوبائی اراکینِ اسمبلی میں سب سے زیادہ نیک اور پرہیزگار ہیں؟ کیا وہ امانت اور دیانت میں ممتاز ہیں؟ کیا سب سے زیادہ باصلاحیت اور حکیم ہیں؟ کیا کے پی کی ترقی اور عوامی بہبود کے لیے وہ سب سے بہتر منصوبہ ساز ہو سکتے ہیں؟ کیا سیاسی اعتبار سے ان کا حلقۂ اثر دوسروں سے زیادہ ہے؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ خان صاحب کا کوئی مریدبھی یہ نہیں کہے گاکہ اپنی شخصی خوبیوں اوراعلیٰ کردار کے باعث وہ قائد کی نگاہ میں آئے۔ پھر ان کو وزیراعلیٰ کیوں بنایا گیا؟ اس فہرست میں آپ عثمان بزدارصاحب‘ پرویز خٹک صاحب اور محمود خان صاحب کو بھی شامل کر لیں۔ ان کے معاملے میں بھی یہی سوال اٹھے گا کہ خان صاحب نے ان کو یہ ذمہ داری کیوں سونپی؟
یہ پنجاب ہو یا کے پی‘ وزرائے اعلیٰ کا انتخاب سو فیصد عمران خان صاحب کا اپنا فیصلہ تھا۔ ان پر کوئی دباؤ تھا نہ ان کی کوئی سیاسی مجبوری تھی۔ اگر صوبے کی بہتری ان کے پیشِ نظر ہوتی تو وہ ایسے آدمی کا انتخاب کرتے جو انتظامی صلاحیت میں دوسروں سے ممتاز ہوتا اورکے پی کو ایک مثال بنا دیتا۔ اگر ان کا مسئلہ حکومتی انصرام کو کرپشن سے پاک کرنا ہوتا تو وہ سب سے دیانتدار آدمی کو تلاش کرتے۔ ایسا رکن اسمبلی جس کی شہرت بے داغ ہوتی۔ اگر سیاست کو اخلاقی قدروں پر استوار کرنا اور سیاسی ماحول کو پاکیزہ بنانا مقصود ہوتا تو اخلاق اور رویے میں سب سے بہتر کو وزیراعلیٰ بنایا جاتا۔ اگر وہ علی امین صاحب یا سہیل آفریدی صاحب کو وزیراعلیٰ بنا سکتے تھے تو کسی کے بھی سر پر یہ تاج رکھ سکتے تھے۔ اس باب میں انہیں کسی کی مزاحمت کا سامنا نہ ہوتا۔
جب خراب شہرت کے حامل کسی سیاستدان کو منصب دیا جاتا ہے تو سیاسی جماعتوں اور قیادت کا رویہ معذرت خواہانہ ہوتا ہے۔ وہ کوئی عذر پیش کرتی ہیں۔ خان صاحب نے کوئی عذر پیش کیا نہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ مریدین میں تو کوئی سوال نہیں اٹھاتا کہ مرید کہتے ہی اسے ہیں جو اندھا مقلد ہو۔ مرشد کے کسی فعل پر سوال اٹھ جائے تو وہ مرشد نہیں رہتا۔ اس لیے مرشد پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سماج لیکن سوال اٹھاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ عمران خان صاحب نے ان کا انتخاب کیوں کیا؟ میں جب سوچتا ہوں تو اس کا ایک ہی جواب سامنے آتا ہے: اقتدار کی سیاست۔
عمران خان صاحب کے یہ تمام انتخاب‘ ان کی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ علی امین گنڈاپور کو جب وزیراعلیٰ بنایا گیا تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتے تھے۔ خان صاحب ایک طرف سیاسی دباؤ بڑھا رہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے مفاہمت کا دروازہ بھی بند نہیں کیا تھا۔ اس کے لیے انہیں علی امین جیسے کسی شخص کی ضرورت تھی۔ وہ جو اسٹیبلشمنٹ سے ربط وضبط رکھتا ہو اور اس کے ساتھ ڈیل میں معاون بن سکے۔ عمران خان صاحب کا مستقل مؤقف رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے مگر اس ہائبرڈ نظام کے سیاسی فریق سے کوئی مکالمہ نہیں کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ اس پر آمادہ نہ ہوئی۔ دو سال میں مفاہمت کا باب کھل سکا نہ مقتدرہ نو مئی کے واقعات کو بھولنے پر آمادہ ہوئی۔ معاملات خراب تر ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ مفاہمت کا دروازہ بظاہر بند ہو گیا۔
اس کے بعد خان صاحب کے پاس واحد راستہ مزاحمت کا ہے۔ ان کی افتادِ طبع کا مطالبہ بھی یہی ہے۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ دوسرے صوبوں سے کوئی مزاحمتی تحریک نہیں اٹھ سکتی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں ان کی حمایت موجود نہیں۔ ان سے محبت کرنے والے ہیں مگر بوجوہ مزاحمت نہیں ہو سکی۔ ایک وجہ مخالف صوبائی حکومتیں ہیں جو ہر احتجاج کو انتظامی قوت سے ناکام بنا دیتی ہیں۔ دوسری بڑی وجہ پی ٹی آئی کا تنظیمی انتشار ہے جس کے سبب کوئی احتجاج منظم نہیں ہو سکا۔ اس لیے مزاحمت کے لیے اب کے پی کا صوبہ ہی باقی ہے۔ اگر وہاں سے مرکز پر چڑھائی کی جائے تو‘ ان کا خیال یہ ہے کہ ریاست کو مشکل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ طالبان کی طرف خان صاحب کا جھکاؤ‘ اس مزاحمت میں تصادم اور فساد کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے جس سے ان کا خیال ہے کہ ریاست مزید مشکلات میں گھر جائے گی۔ اس مزاحمت کے لیے خان صاحب کا انتخاب ایسا آدمی ہو سکتا ہے جو تصادم کو انتہا تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جو احتجاج کو پُرتشدد بنا سکتا ہو۔ طالبان کی حمایت حاصل کر سکتا ہو اور ہیجان کی اس آگ کو بھی بھڑکا سکتا ہو جو ان کی حکمتِ عملی کا مستقل حصہ ہے۔ اس کے لیے سہیل آفریدی صاحب سے بہتر انتخاب کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
اس حکمتِ عملی کو اگر اقتدار کی سیاست کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ قابلِ فہم ہے۔ اقتدار کی کشمکش میں مطلوب ومقصود اقتدار تک پہنچنا ہے۔ اس میں اخلاقیات‘ قانون‘ ضابطے اوردیانت وامانت کی حیثیت ضمنی ہوتی ہے۔ عام آدمی کے جان ومال‘ اس کی عزت وآبرو‘ سماجی امن اور استحکام سب بے معنی ہوتے ہیں۔ اس جنگ میں دو چار عام شہری مارے جائیں تو ان کی 'شہادت‘اس جنگ کو کامیابی کے قریب لے جاتی ہے۔ اس معرکے میں لاشیں اثاثہ ہوتی ہیں۔ اس سیاست میں خان صاحب کا کوئی استثنا نہیں۔ عام طور پر اقتدار کی سیاست اسی نہج پر آگے بڑھتی ہے۔ یہ ہر کسی کا اپنا اپنا ظرف اور طریقہ ہے۔ کوئی آئین اور قانون کی پامالی تک جاتا ہے اور کسی کے لیے انسانی جانوں کا زیاں بھی بے معنی ہوتا ہے۔
اگر آج کچھ تجزیہ کار سہیل آفریدی صاحب کے انتخاب کو خان صاحب کا 'ماسٹر سٹروک‘ قرار دے رہے ہیں یا ان کے حامی اسے ان کی سیاسی بصیرت کا نمونہ بتا رہے ہیں تو یہ مقدمہ اسی صورت میں قائم کیا جا سکتاہے جب اس فیصلے کو اقتدار کی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے۔ اس سیاست میں 'ماسٹر سٹروک‘ وہی ہوتا ہے جو آپ کو ایک بہتر سیاسی کھلاڑی ثابت کرتا ہو۔ اس کے لیے مگر یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اخلاقیات‘ قانون‘ انسانیت جیسی اقدار کا اس سیاست سے زیادہ تعلق نہیں۔ یہ سیاست کا وہ پامال راستہ ہے جس پر ان گنت اقتدار پرستوں کے قدموں کے نشان ہیں۔ خان صاحب بھی اسی راستے کے مسافر ہیں۔ مجھے اس سیاسی شعورپر افسوس ہوتا ہے جو اقتدار کی اس سیاست کو اقدار کی سیاست سمجھے اور اس پر اصرار کرے۔ جو یہ سوال اٹھانے کی جرأت نہ رکھتا ہو کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب صوبے کے عوام کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے یا کسی سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے؟ وزیراعلیٰ کا کام صوبے کی فلاح وبہبود ہے یا مرکز سے تصادم اور اس پر چڑھائی؟ جہاں مذہب جیسا مقدس اور پاکیزہ تصور اقتدار کی سیاست کی نذر ہو جائے وہاں یہ سوال کون اٹھائے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved