تحریر : عرفان صدیقی تاریخ اشاعت     14-10-2025

عمران خان چاہتے کیا ہیں؟

افغانستان میں خوں آشام دہشت گردوں کی پرورش ونمو کرنے والی تربیت گاہوں اور محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف ایک فیصلہ کن آپریشن ناگزیر ہو گیا تھا۔ سو حکومت اور مسلح افواج نے ایک دلیرانہ فیصلہ کیا۔ مشن جاری ہے۔ عین اُس وقت خیبر پختونخوا میں عمران خان نے ایک ایسی متوازی حکمت عملی کا فیصلہ کیا ہے جو وفاقی حکومت اور عساکرِ پاکستان کے اہداف ومقاصد سے نہ صرف مطابقت نہیں رکھتی بلکہ بڑی حد تک متصادم ہے۔ اس حکمتِ عملی کی تمام تر ہمدردیاں ان عناصر کے ساتھ ہیں جو شہریوں اور مسلح افواج پر حملے کرکے‘ کچھ دلوں میں پائی جانے والی نفرت وکدورت کے لیے آسودگی کا سامان کر رہے ہیں۔
یہ 29 جنوری 2014ء کا ذکر ہے‘ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں سے مشاورت کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبان پاکستان) کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھولا جائے۔ کوئی ایسی بات نہیں مانی جائے گی جو پاکستانی ریاست اور اس کی حاکمیت اعلیٰ سے متصادم ہو۔ اس موقع پر وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں ہی چار رکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا جس کی منظوری ایوان نے ڈیسک بجا کر دی۔ سب سے پرجوش ردعمل عمران خان کا تھا۔ چار رکنی کمیٹی میں مجھے حکومتی نمائندے کے طور پر شامل کیا گیا۔ دیگر ارکان میں افغان امور کے ماہر اور معروف صحافی رحیم اللہ یوسفزئی‘ سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور افغان امور سے گہری آگاہی رکھنے والے میجر (ر) محمد عامر شامل تھے۔
خلافِ توقع ٹی ٹی پی نے اس پیش رفت کو فوری طور پر خوش آمدید کہا۔ اگلے ہی دن انہوں نے باضابطہ طور پر اطلاع دی کہ سرکاری کمیٹی سے بات چیت کے لیے ہم نے بھی چار ارکان کی کمیٹی نامزد کر دی ہے۔ اب جگر تھام کے اس تاریخی حقیقت کے کچوکے کے لیے تیار ہو جائیے کہ وہ چار شخصیات کون سی تھیں جن پر طالبان نے نہ صرف اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا بلکہ اُنہیں اپنی نمائندگی کا اعزاز بھی بخشا۔ٹی ٹی پی کی نامزد کردہ کمیٹی میں پہلا نام تحریک انصاف کے بانی عمران خان کا تھا۔ دوسرا مولانا سمیع الحق مرحوم کا‘ تیسرا اسلام آباد لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کا اور چوتھا جماعت اسلامی کے راہنما پروفیسر محمد ابراہیم کا۔ میں نے مولانا سمیع الحق سے پوچھا کہ کیا واقعی ٹی ٹی پی نے عمران خان کو اپنی مذاکراتی کمیٹی کے نمائندے کے طور پر نامزد کیا ہے؟ مولانا نے مجھ سے تھوڑا وقت لیا اور تصدیق کرتے ہوئے کہنے لگے ''انہوں نے نامزد ہی نہیں کیا‘ اصرار بھی کر رہے ہیں‘‘۔ جب میں نے یہ بات وزیراعظم نواز شریف کو بتائی تو وہ تصویرِ حیرت بنے مجھے دیکھتے رہ گئے۔ پھر بولے ''کیا واقعی؟‘‘ میں نے کہا ''جی ہاں‘‘۔ کہنے لگے ''آپ ری چیک کر لیں۔ مجھے تو یہ بہت عجیب سی بات لگتی ہے‘‘۔ 'ری چیک‘ نے اسے مزید مستند ٹھہرا دیا۔ خان صاحب تک بات پہنچی تو انہوں نے پارٹی سے مشاورت کے بعد طالبان مذاکراتی کمیٹی کا رُکن بننے سے معذرت کر لی تاہم انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ رستم شاہ مہمند کو تحریک انصاف کا نمائندہ سمجھ لیا جائے۔
عمران خان ٹی ٹی پی کمیٹی کے رکن تو نہ بنے لیکن افغان طالبان کے بازوئے شمشیر زن کے طور پر کام کرنے اور پاکستان میں دہشت گردی کی ہولناک وارداتیں کرنے والی ٹی ٹی پی کمیٹی کی طرف سے اُن کی نامزدگی‘ دونوں کے باہمی اعتماد‘ گہرے تعلق اور مفادِ باہمی کی کہانی ضرور بیان کرتی ہے۔ اس بات کو اب گیارہ سال ہو چکے ہیں۔ کروٹیں بدلتے سیاسی حالات و واقعات کی تُرشی دونوں کے نشے کو نہیں اُتار سکی۔ عمران خان کے عشقِ فراواں میں کوئی کمی آئی نہ وہ ٹی ٹی پی کے دل سے اُترے۔ تازہ ترین حالات سے لگتا ہے کہ حُسن کی شوخیاں بھی قائم ہیں اور عشق کی گرمیاں بھی۔
ٹی ٹی پی سے عمران خان کی لگاوٹ اور ہمدردی کا ایک بڑا واقعہ اُن کے عہدِ اقتدار کے آخری مہینوں میں ٹی ٹی پی جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد کو صوبہ خیبر پختونخوا لا بسانا تھا۔ یہ تصور کس نے پیش کیا؟ اس امر کی ضمانت کس نے دی کہ جن کی تلواروں کو خون کی چاٹ لگ گئی ہے وہ پاکستان آکر معصومیت کے سانچے میں ڈھل کر امن وآشتی کے سفیر کیسے بن جائیں گے؟ کیا ان لوگوں کی باضابطہ رجسٹریشن اور بعد ازاں نگرانی کا کوئی ٹھوس بندوبست بھی بنایا گیا؟ عمران خان کے بقول چالیس ہزار کے لگ بھگ ان جنگجوئوں کے اہلِ خاندان لا بسائے گئے‘ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟
فروری 2023ء میں وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے 'ڈان‘ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ''جب افغان جنگ ختم ہوئی تو عمران خان نے بتایا کہ تیس سے چالیس ہزار پاکستانی قبائلی جنگجو واپس آنا چاہتے ہیں‘‘۔ عمران نے مزید کہا ''پی ٹی آئی حکومت کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ ان سب جنگجوئوں کو ہلاک کر دے یا پھر اُن کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچے اور اُنہیں صوبے (خیبر پختونخوا) میں آباد ہونے کا موقع دے۔ واپس آنے والے ان جنگجوئوں کو اور بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنا ضروری ہے تاکہ صوبے میں امن قائم کیا جا سکے‘‘۔ ریاض پیرزادہ نے یہ بھی بتایا کہ ''ایک 'اِن کیمرا میٹنگ‘ میں جنرل باجوہ نے ٹی ٹی پی کو واپس پاکستان لانے کی وکالت کی تھی‘‘۔ اس پر بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ یہ لوگ بینظیر بھٹو شہید سمیت کئی اہم شخصیات کے قتل میں ملوث ہیں لیکن فیصلہ کر لیا گیا۔ اس میں خاصی سرگرمی جنرل (ر) فیض حمید نے دکھائی۔
آج جبکہ اپنے پیاروں کی ہزاروں لاشیں اٹھانے کے بعد پاکستان کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا ہے اور اُس نے دہشت گردوں‘ سرپرستوں اور اُن کی پناہ گاہوں پر ضربِ کاری کا فیصلہ کر لیا ہے‘ عمران خان ایک بار پھر تاریخ کی غلط سمت جا کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ انہوں نے یکایک علی امین گنڈاپور کو ہٹا کر ایک ایسے مرغِ دست آموز کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا ہے جس کا سارا زورِ بیاں دہشت گردوں کی ہمنوائی پر صرف ہوتا رہا‘ جو اُن کے خلاف کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں اور جو ان جنگجوئوں کو اپنی سیاسی سپاہ کا ہراول دستہ سمجھتا ہے۔ کیا عمران خان حکومت گرانے اور انقلابِ عظیم بپا کرنے کے لیے جلسوں‘ جلوسوں‘ دھرنوں‘ لانگ مارچز‘ 9 مئی‘ فائنل کالز‘ سول نافرمانی‘ آئی ایم ایف اور سمندر پار پاکستانیوں سے اپیلوں سے مایوس ہوکر یہ انتہائی خطرناک حربہ استعمال کرنے جا رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج کو دہشت گردوں کے ہاتھوں زچ کر دیا جائے؟ انتہائی مستند شواہد اور معتبر ذرائع تک رسائی رکھنے والے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے دو دن قبل کہے گئے اس جملے کا ترجمہ کرنے کے لیے کسی لُغت کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا ''ایک فرد دہشت گردی واپس لایا۔ ریاست عوام کو اُس کے فیصلے اور اُس کی خواہش پر نہیں چھوڑ سکتی‘‘۔ کیا عمران خان جنگجوئوں کی محبت میں خود بھی ایک خوفناک جنگی مہم کے الائو تک آن پہنچے ہیں؟
اُدھر عمران خان کی سوچ میں لتھڑے ''تحریک تحفظ آئین پاکستان‘‘ کے اعلامیے میں دُشنام طرازی کی گئی ہے کہ ''قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں‘‘۔ یہ پاکستان کے اُن بیٹوں کو ''خراجِ تحسین‘‘ ہے جو وطن اور اہلِ وطن کے لیے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں... اور اُن دہشت گردوں کی پیٹھ پر تھپکی‘ جو کئی دہائیوں سے ہمارا لہو پی رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved