تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     14-10-2025

حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ…(4)

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب صحابہ نے حضرت علیؓ کی بیعت کی تو حضرت عدیؓ بن حاتم ان صحابہ میں پیش پیش تھے۔ آپؓ نے حضرت علیؓ کے مختصر اور پُرآشوب دورِ خلافت میں خلیفۂ راشد کے ساتھ بہت قریبی تعلق رکھا۔ حضرت علیؓ آپ کی رائے کا بہت احترام کرتے تھے۔ حضرت عدیؓ نے خلیفۂ راشد کے ساتھ جنگ جمل‘ جنگ صفین اور خارجیوں کے خلاف معرکہ نہروان میں بھرپور حصہ لیا۔ جنگ جمل میں آپؓ کی ایک آنکھ پھوٹ گئی اور ایک جوان بیٹا محمد بن عدی لڑائی کے دوران شہید ہو گیا۔ جنگ صفین میں آپؓ نے آنکھ زخمی ہونے کے باوجود بہت بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ خلیفۂ راشد کا ساتھ دیا۔ جنگِ نہروان میں آپؓ کا دوسرا بیٹا طریف بن عدی بھی شہادت پا گیا۔ حضرت علیؓ اور حضرت عدیؓ کی باہمی محبت بہت گہری اور مثالی تھی۔ جب حضرت علیؓ کو ابن ملجم خارجی لعین نے شہید کیا تو گویا اسلام اور اس کے نظامِ حکومت پر سخت وقت آ گیا۔ سعادت وعظمت کا زریں دور بیت گیا۔ خلافت راشدہ کی مدت جو حدیث پاک میں حضور اکرمﷺ کی زبانی بتائی گئی تھی‘ تقریباً اختتام پذیر ہو گئی۔ اس سانحہ پر حضرت عدیؓ بہت زیادہ غمزدہ ہوئے۔ شہادت علیؓ کے وقت آپ کوفہ میں مقیم تھے۔ خلیفۂ راشد کے جنازے میں شریک ہوئے تو آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ آپؓ نے اپنے شہید ساتھی کے مناقب بیان کیے اور فرمایا کہ آج اسلام کے مضبوط قلعے میں بہت بڑا شگاف پڑ گیا ہے۔ شیرِ خدا جیسی شخصیت اب امت کو کبھی نہ مل سکے گی۔ بقیہ ساری زندگی آپؓ نے یہیں کوفہ ہی میں گزار دی اور سب سرگرمیوں سے دستبردار ہو کر اپنے گھر ہی میں یہ ماہ و سال بسر کیے۔ آپؓ کے گھر کا صحن کافی وسیع اور بیٹھک بہت بڑی تھی۔ نوجوان اور بزرگان آپؓ سے علم ونصیحت حاصل کرنے آتے تو علمی مجلس سے پورا گھر چمک اٹھتا۔ مہمانوں کے لیے علمی غذا کے ساتھ عام تواضع بھی آپ کا معمول تھا۔
حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ حکومت میں ان کے مقرر کردہ گورنر کوفہ وبصرہ زیاد بن ابیہ نے حضرت عدیؓ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہؓ بن خلیفہ طائی کو اس الزام میں گرفتار کرنا چاہا کہ وہ حکومت کے خلاف خفیہ سازش کر رہا ہے۔ آپؓ کا یہ چچا زاد بھائی آپ کے گھر میں مقیم تھا۔ زیاد بن ابیہ ظلم وزیادتی کی وجہ سے بہت بدنام تھا۔ اس کے مظالم سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ حضرت عدیؓ کو پتا چلا تو آپ بڑھاپے کے باوجود فوراً گورنر کے دربار میں چلے گئے اور پورے رعب ودبدبے کے ساتھ اس سے کہا کہ تُو کس جرم کی بنا پر عبداللہ کو گرفتار کرنا چاہتا ہے؟ اس نے جب اپنا مؤقف پیش کیا تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ظن کی بنیاد پر کوئی فیصلہ اسلام میں قبول نہیں کیا جاتا۔ ظلم کی طرف بڑھو گے تو ہم بھی اپنا دفاع کریں گے۔ زیاد بن ابیہ ایک ظالم شخص تھا جس نے اپنے مخالفین کو بڑی تعداد میں قتل کیا جن میں کئی صحابہ کرامؓ بھی تھے۔ مشہور صحابی حضرت حجرؓ بن عدی اور ان کے کئی ساتھیوں کو اس ظالم نے بڑی بے دردی سے شہید کیا۔ (ابن خلدون‘ جلد: 3، ابن الاثیر‘ جلد: 3)
ظالم اور سنگدل زیاد نے کہا: آپ عبداللہ کو میرے حوالے کر دیں‘ میں آپ کو کچھ بھی نہیں کہوں گا۔ حضرت عدیؓ کا مقام و مرتبہ اور جرأتِ ایمانی ایسی تھی کہ اس کے سامنے کھڑا ہونا اس ظالم گورنر کے لیے ممکن نہ تھا۔ آپؓ نے بڑی جرأت کے ساتھ فرمایا: میں اپنے بھائی کو تمہارے حوالے کر دوں کہ تم ظلم وستم کے ساتھ اس بے گناہ کو قتل کر دو؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ قبیلہ بنو طے ایسی ذلت برداشت نہیں کرے گا۔ تمہیں جو کچھ کرنا ہے کر لو۔ یہ کہہ کر آپ مزید کچھ کہے سنے بغیر وہاں سے اٹھ آئے۔ زیاد کو اس کے درباریوں اور قریبی ساتھیوں نے بتایا کہ یہ صحابی رسول بھی ہیں اور قبیلہ طے کے سردار بھی‘ اس معاملے میں خاموشی اختیار کر لو ورنہ عوام کا غم وغصہ کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پس اس ظالم کے ستم سے ایک بے گناہ صحابی محفوظ رہے۔
حضرت امیر معاویہؓ صحابی رسول اور کاتبِ وحی تھے۔ آپ کے اندر بہت سی خوبیاں تھیں۔ آپؓ کے دورِ حکومت میں حضرت عدیؓ نے آپ کی حکمرانی کے بارے میں تحفظات کے باوجود ازراہِ حکمت خاموشی اختیار کی اور ان کے خلاف کبھی عوام میں کچھ کہنے سے گریز کیا۔ اس کے باوجود آپ حضرت امیر معاویہؓ کو خلیفہ راشد نہیں بلکہ ایک بادشاہ سمجھتے تھے۔ اور جب کبھی آپ سے کوئی سوال پوچھتا تو جواب میں فرماتے: خلافت کا دور حدیث رسولِ مقبول کے مطابق بیت چکا ہے‘ اب دورِ ملوکیت ہے۔ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہؓ سے حضرت عدیؓ کی ملاقات ہوئی تو دونوں صحابہ کے مابین ایک مکالمہ ہوا جسے اکثر سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ نے علیک سلیک کے بعد حضرت عدیؓ سے کہا ''حضرت! آپ نے علی بن ابی طالب کے ساتھ بہت وقت گزارا اور جنگوں میں بھی شریک رہے، آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ حضرت عدیؓ نے بڑی جرأت کے ساتھ جواب دیا ''میں عملی سیاست اور معاملاتِ حکومت سے کنارہ کش ہو چکا ہوں لیکن آپ نے جو طعنہ دیا ہے اس کا جواب سن لیجیے۔ واللہ وہ دل جو آپ کی مخالفت کا جوش رکھتے تھے ابھی تک ہمارے سینوں میں دھڑک رہے ہیں اور وہ تلواریں جن سے ہم نے خلیفۂ راشد کی امارت میں آپ کے خلاف جنگ لڑی تھی ابھی تک ہمارے قبضے میں ہیں۔ ہمارے درمیان علیؓ موجود نہیں ہیں مگر ان کی محبت ہمارے دلوں میں موجزن ہے۔ وہ خلیفۂ راشد تھے اور خلیفۂ راشد کے حق میں کوئی نازیبا بات سننے کے ہم روادار نہیں ہیں‘‘۔
حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھی اس گفتگو پر ناگواری محسوس کر رہے تھے مگر حضرت معاویہؓ کے اندر بڑی خوبیاں تھیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آپ حکیم وحلیم اور مدبر وبردبار تھے۔ حکمران ہونے کے باوجود آپؓ طیش میں کبھی نہیں آتے تھے۔ آپ بہت صاحب فراست اور حلیم الطبع انسان تھے۔ آپ حضرت عدیؓ کے مقام ومرتبہ کو خوب جانتے تھے۔ آپؓ نے حاضرین سے کہا ''عدی بن حاتم نے جو باتیں کی ہیں ان میں وزن ہے۔ ان کی باتوں کو لکھ لو‘‘۔ اس طرح حضرت امیر معاویہؓ نے بڑی حکمت ودانائی کے ساتھ اس معاملے کو کنٹرول کیا۔ پھر اسی مجلس میں حضرت عدیؓ سے بڑی دیر تک آپ نہایت نرمی اور محبت کے ساتھ گفتگو کرتے رہے اور حضرت عدیؓ بھی اختلافِ رائے کے باوجود حضرت معاویہؓ کی مجلس میں تشریف فرما رہے اور باہم بات چیت ہوتی رہی۔ رضی اللہ عنہما!
حضرت عدیؓ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے فیاض حاتم بن عبداللہ بن سعد طائی کے بیٹے تھے۔ آپ کے اندر بھی اپنے باپ کی طرح اعلیٰ درجے کی فیاضی تھی۔ آپؓ کے پاس کوئی شخص بھی آتا اور اپنی ضرورت پیش کرتا تو آپ اسے کبھی خالی ہاتھ واپس نہ بھیجتے۔ انسان تو انسان ہیں‘ آپ نے جانوروں‘ پرندوں اور چیونٹیوں کے لیے بھی مستقل طور پر خوراک فراہم کرنے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ چیونٹیوں کے لیے روٹی کے ٹکڑوں کو باریک پیس کر ان کے بلوں پر ہر روز پہنچا دیتے تھے۔ اسی طرح پرندوں کیلئے بھی ان کی خوراک کا اہتمام کرتے تھے۔ اپنے خادموں سے فرماتے کہ اللہ کی یہ مخلوق اگر بھوکی ہو گی تو ہمارے خلاف شکایت کرے گی اور اگر یہ پیٹ بھر کر کھائے گی تو ہمارے حق میں نیک گواہی دے گی‘ اس کام میں کبھی سستی نہ کیا کرو۔
حضرت عدیؓ نے طویل عمر پائی۔ بعض روایات کے مطابق آپ کی وفات 120 برس کی عمر میں ہوئی۔ آپؓ کی قبر کوفہ کے قبرستان میں ہے۔ آپؓ کا جنازہ کس نے پڑھایا‘ اس بارے مستند معلومات میسر نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ کوفہ میں موجود کسی صحابی نے یا پھر کسی تابعی نے پڑھایا ہو۔ البتہ اموی گورنر یا کسی عہدیدار کے پڑھانے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ آپؓ کے اور آپ کے خاندان کے ان سے گہرے اختلافات تھے۔ حضرت عدیؓ روایتِ حدیث میں بہت محتاط تھے۔ آپؓ نے آنحضورﷺ سے کُل 66 احادیث روایت فرمائیں۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved