تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     15-10-2025

فرسودہ تصورات کا جنازہ

اس بات کا پورا ادراک ہو یا نہ ہو ہم مسلمانوں کی دنیا بدل رہی ہے۔ اب تک جو حقیقتیں سمجھی جاتی تھیں ہمارے سامنے مسمار ہو رہی ہیں۔ شرم الشیخ میں منعقدہ عالمی کانفرنس سے اتنی بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ امتِ مسلمہ کے بیشتر ممالک نے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیا ہے۔ ابراہام معاہدوں کی دوسری قسط ابھی باقی ہے لیکن اتنا تو عیاں ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمتی دائرہ نیست ونابود ہو چکا ہے اور اب اسرائیل کو خطرہ ہو تو اپنے عزائم سے ہو سکتا ہے‘ آس پاس کے ممالک سے خطرے کے تمام آثار مٹائے جا چکے ہیں۔ طاقت اور کمزوری کے مقابلے میں طاقت ہی کی فتح ہونی تھی لیکن نئی بات یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی آنکھیں ذرا کھل گئی ہیں اور جو حقیقتیں تسلیم کرنا اُس کیلئے مشکل ہوا کرتا تھا اب کھلے دل سے قبول کی جا رہی ہیں۔
ہماری عمر کے لوگوں کی زندگیاں بیت گئیں یہ دیکھتے ہوئے کہ مشرقِ وسطیٰ اور اُس سے ملحقہ مسلم ممالک پر دو اثرات حاوی تھے۔ ایک طرف سے سعودی عرب سے جڑی ہوئی قدامت پسندی کی لہریں اور دوسرے وہ اثرات جو انقلابِ خمینی کی وجہ سے نمودار ہوئے۔ سعودی عرب اور اُس جیسی بادشاہتوں نے انقلابِ خمینی کو ایک خطرہ سمجھا اور انقلابِ خمینی نے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے مزاحمت کو اپنا فرض اولیٰ جانا۔ محمد بن سلمان کی زیر نگرانی سعودی عرب کی ہیئت بدل چکی ہے۔ نظریاتی جھمیلوں سے محمد بن سلمان کے سعودی عرب نے اپنے آپ کو دور کر لیا ہے۔ اس نئے سعودی عرب کو روایتی قدامت پسندی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ دوسری طرف حماس کی مہربانیوں سے اسرائیل کو وہ تاریخی موقع ملا کہ اُس نے انقلابِ خمینی اور اُس کے دائرہِ حمایت کی مزاحمتی قوت کو کچل ڈالا۔ پاکستان کا ہمیشہ سے خاصہ رہا ہے کہ بیرونی اثرات کو جلد قبول کر لینا۔ امریکی اثرات کو چھوڑیے وہ ایک الگ موضوع ہے لیکن انقلابِ خمینی کے بعد سعودی عرب اور ایران میں جو نظریاتی جنگ چھڑی پاکستان بھی اُس کی کراس فائر (crossfire) میں آیا۔ اُس زمانے میں نظریاتی اعتبار سے پاکستانی سربراہ جنرل ضیا الحق سعودی عرب کے ہمنوا تھے۔ لیکن کیونکہ یہاں دوسرے مسلک بھی آباد ہیں تو جب نظریاتی ریال پاکستان آنے لگے اور مدرسوں کی بھرمار شروع ہوئی تو نظریاتی ایرانی امداد بھی آنے لگی اور ہم نے دیکھا کہ دوسرے قسم کے مدرسوں کی بھرمار بھی ہونے لگی۔ مدرسوں تک بات رہتی تو کچھ نہ تھا لیکن اس بیرونی نظریاتی کشمکش کے نتیجے میں پاکستان فرقہ واریت کی آماجگاہ بنتا گیا۔ فرقہ واریت کے حوالے سے جو تند وتیز صورتحال پاکستان میں بنی ہوئی ہے یہ اُس ابتدائی کشمکش کا نتیجہ ہے۔
اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہم ہوں گے لیکن جو نئی صورتحال بن رہی ہے اور بہت حد تک بن چکی ہے اس میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ سعودی عرب میں جو کچھ ہوا وہاں کی اندرونی ڈائنامک (Dynamic) کی وجہ سے ہوا اور اگر ایرانی سربراہی میں پلنے والی مزاحمتی قوتوں کا تقریباً صفایا ہوا ہے تو اُس کی وجہ حماس کی عظیم اور تاریخی حماقت بنی۔ اس دو طرفہ انتہا پسندی کی شکست کے اثرات ہم پر بھی پڑیں گے۔ جب بڑے عَلم اٹھانے والوں کی سوچ اور ہیئت بدل رہی ہے تو یہاں کی انتہا پسندی کے مجاوروں کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ اُن کے نعروں اور چھلانگوں کا جواز باقی کیا رہتا ہے؟
مسلمانی ہم نے کسی سے سیکھنی نہیں تھی۔ مسلمان تو ہم تھے ہی‘ لیکن بیرونی ہواؤں کی وجہ سے اور خاص کر اُس کمبخت امر‘ جس کو افغان جہاد کا نام دیا جاتا ہے‘ کی وجہ سے یہاں پر نظریاتی انتہا پسندی کا غلبہ ہوا۔ سربراہِ وقت یعنی جنرل ضیا الحق ویسے ہی نظریاتی طور پر انتہا پسندی کی طرف مائل تھے‘ اوپر سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد بیرونی سہارے اُن کی مجبوری بن گئی۔ لہٰذا نام نہاد افغان جہاد کا غلغلہ پاکستان پر پڑا تو مغرب کو ایک ضیا الحق کی تلاش تھی اور ضیا الحق کو نظریاتی ڈالروں اور ریالوں کی ضرورت تھی۔ اس سارے عمل سے انتہا پسندی کا خول پاکستانی قوم پر ایسا چڑھا کہ پاکستانی معاشرے کی سوچ اور شکل بدل گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک اچھے بھلے معاشرے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا اور یہ کام ایسا مکمل ہوا کہ آج تک حلیہ بگڑا ہوا ہے۔ دنیا نئی جہتوں کو رواں دواں ہے۔ مسلم دنیا تبدیل ہو رہی ہے‘ سعودی عرب میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو پاکستان کے روایتی مولویوں کی سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔ اور اب جو مار اسرائیل کے ہاتھوں مزاحمتی تحریکوں کو پڑی ہے اُس سے تو سارا جیو پولیٹکل نقشہ بدل گیا ہے۔ ہمارے متعلق البتہ یہ نتیجہ نکلا ہے کہ انتہا پسندی اس مسلک کی ہو یا کسی اور کی یتیم اور بے سہارا ہو گئی ہے۔ لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں اور اُن کے حضور سب حاضریاں لگا رہے ہوں اور برادر ایرانی ریاست کو ایسے زخم لگ چکے ہوں کہ پرانے لہجوں میں بات کرنے کی سکت نہ رہے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ یہاں کے مجاور کس رسی کو تھامیں گے؟ نظریاتی سہارا کہاں سے ڈھونڈیں گے؟ نظریاتی سہارے کو بھی کسی نے کیا کرنا ہے جب نظریاتی ڈالروں کی آمد بند ہو جائے؟
پھر بھی یہ گمان نہ کیا جائے کہ مملکتِ خداداد کوئی آسانی سے سدھرنے والی چیز ہے۔ پر اس ساری صورتحال سے ایک کمزور سی امید تو پیدا ہوتی ہے کہ نظریاتی اور نصابی انتہا پسندی جو ایک لحاظ سے یہاں کا وتیرہ رہا ہے‘ میں کچھ نرمی پیدا ہو جائے۔ اور ذہنوں پر جو تالے پڑے تھے آہستہ آہستہ کھلنے لگیں۔ فلسفۂ جہاد کی نزاکتیں تو ویسے ہی الٹ ہو گئیں۔ جن برادر افغان بھائیوں کیلئے ریاستِ پاکستان اور اُس کے جملہ محکمے چالیس سال تک کھپتے رہے وہ پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ اور جس ملک یعنی ہندوستان کے اثر کو افغانستان سے ہم بے دخل کرنے چلے تھے اُس کے روابط افغانستان سے قائم ہو رہے ہیں۔ یعنی الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔
البتہ یہ خطرے کا لمحہ نہیں ایک سنہری موقع ہے۔ ذہنوں پر بندھی زنجیریں ویسے نہ ٹوٹتیں نہ ہمارا خیال اُن کو توڑنے کی طرف جاتا۔ امتِ مسلمہ کی ہیئت جہاں بدل رہی ہے ہمارے لیے موقع پیدا ہوتا ہے کہ پرانے خیالات جن سے ذہن جکڑے ہوئے تھے‘ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔ نظریاتی انتہا پسندی کو خیرباد کہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھیں اور سکہ بند خیالات کی جگہ تعلیم وتدریس‘ سائنس اور ٹیکنالوجی پر قومی دھیان مرکوز کریں۔ صدر ٹرمپ کی موجودگی میں بینجمن نیتن یاہو اپنی پارلیمنٹ سے مخاطب ہوئے تو ایک جگہ کہا کہ اس جنگ میں ہماری فتح کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل واحد جمہوریت ہے۔ جنگ کے تقاضے اور ہوتے ہیں‘ اسرائیل نے عربوں پر مظالم ڈھائے ہیں لیکن داخلی طور پر وہ ایک جمہوریت ہے۔ باقی اسلامی دنیا نے اس سے کیا سبق لینا ہے‘ لیکن ہم پاکستانیوں جن کے ورثے میں جمہوریت رہی ہے‘ کو اس بارے سوچنا چاہیے۔ بمبار جہاز تو عرب ممالک کے پاس بھی بہت ہیں لیکن ایک ریاست اور معاشرے کے لحاظ سے اسرائیل میں وہ جمہوری اقدار ہیں جو اُس خطے میں اور اپنے ہمسائیوں کے مقابل اُسے افضل کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی چاپلوسی اپنی جگہ‘ بڑا چیلنج ہمارے سامنے قوم کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہے۔ ایک بااعتماد قوم تبھی بن سکتی ہے جب اُسے سوچ اور اظہار کی آزادی ہو۔ امتِ مسلمہ میں تاریخی ہوائیں چلنے لگی ہیں۔ ہم ان کا کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved