تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-10-2025

شہباز شریف کا ٹرمپ کارڈ

صدر ٹرمپ کی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت سوشل میڈیا پر جو جگتیں لگا رہی ہیں اس پر حیران ہوں کہ کیا تبصرہ کیا جائے۔ بلّے بلّے واہ واہ کا تقاضا تو یہی ہے کہ میں بھی شامل باجا ہو جائوں۔ جب سے فیس بک‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب پر لکھنے‘ بولنے کے ڈالرز ملنے شروع ہوئے ہیں‘ صرف وہ بات لکھی اور بولی جاتی ہے جو لوگ سننا یا پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایک ہجوم ہے جو ہر وقت بلّے بلّے چاہتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف سے 2007ء میں لندن کی جلاوطنی میں ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ایک دو دفعہ تو وہ مجھے اور ارشد شریف کو ایک ایرانی ریسٹورنٹ پر بھی لے گئے۔ پاکستان واپسی پر وہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور ان کی گورننس اور فیصلوں پر لکھنا شروع کیا تو وہ ورکنگ تعلق بھی ختم ہو گیا۔ لندن میں انقلابی نعروں کے بعد جس طرح انہوں نے پاکستان میں پلٹا کھایا وہ حیران کن تھا۔ یاد نہیں پڑتا کہ 2009ء کے بعد کبھی شہباز شریف سے کوئی ملاقات یا رابطہ ہوا ہو۔ برسوں بعد جب وہ وزیراعظم بنے تو شاید مریم اورنگزیب صاحبہ نے میرا نام بھی اُس فہرست میں ڈال دیا جن کو وزیراعظم ہاؤس بلایا گیا تھا۔ وہاں تیس چالیس سے زائد اینکرز؍ صحافی موجود تھے۔ شہباز شریف نے بڑی مشکل سے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ پتا لگ رہا تھا کہ میرے کالموں اور ٹی وی شوز کی رنجش ہے۔ اُن کی تقریر کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے چند سوالات پوچھے اور پھر مجھے بین کر دیا گیا۔ یوں 2022ء کے اس ملاقات کے بعد آج تک کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ جو سوالات میں نے پوچھے تھے ان میں ایک یہ تھا کہ آپ وزیراعظم بن گئے ہیں‘ حالانکہ آپ پر 16 ارب کا منی لانڈرنگ کیس چل رہا ہے۔ آپ خود وزیراعظم‘ آپ کا بیٹا پنجاب کا وزیراعلیٰ‘ کیا پوری پارٹی میں صرف شریف خاندان ہی اقتدار کے قابل اور قابلِ اعتماد ہے اور وزیراعظم بنتے ہی اپنے گھروں کو کیمپ آفس بنوا دیا۔ خیر یہ کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے کہ بغیر ناراض ہوئے چاروں سوالوں کے جواب دیے؛ اگرچہ پھر اپنی ٹیم کو منع کر دیا کہ آئندہ اسے نہیں بلانا۔ ایک اور بات کہ مجھے کبھی شہباز شریف کی پنجاب حکومت یا وزیراعظم بننے کے بعد سوشل میڈیا سیل یا کسی ادارے کی طرف سے ہراساں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی حالانکہ آئے روز کوئی نہ کوئی شو کر رہا یا کالم لکھ رہا ہوتا ہوں۔ دو وزیراعظم دیکھے جنہوں نے اس معاملے میں صبر دکھایا؛ ایک یوسف رضا گیلانی‘ دوسرے شہباز شریف۔ میں عمران خان کو ہٹانے کے خلاف تھا اور جب شہباز شریف وزیراعظم بنے تو ان کے بھی خلاف پروگرامز کیے۔ میرا خیال تھا کہ عمران خان مزید چھ ماہ یا سال وزیراعظم رہتے تو سیاسی طور پر ختم ہو جاتے۔ اپنے دور میں وہ 18 میں سے 17 ضمنی الیکشن ہار گئے تھے۔ ایک ڈسکہ کا الیکشن جیتا اور وہ بھی جس طرح جیتا‘ سب جانتے ہیں۔ شہباز شریف اور آصف زرداری کی جلد بازی نے خان کو دوبارہ کھڑا کر دیا۔ اب بھی خان کو واپس لائیں تو وہ چھ ماہ بعد اسی پوزیشن پر کھڑے ہوں گے جہاں 11 اپریل 2022ء کو کھڑے تھے ۔ میری کوئی نہیں مانتا‘ ورنہ عمران خان کو پورے پانچ سال وزیراعظم بنائیں تاکہ پوری قوم خود ان کی اور ان کی ٹیم کی ''غیر معمولی‘‘ قابلیت کا پورا مزہ لے سکے۔ خیر شہباز شریف کئی وجوہات کی وجہ سے خوش قسمت نکلے۔ ان کے دور میں دو جنگیں ہو چکی ہیں‘ ایک بھارت اور دوسری افغانستان سے۔ شاید ہی کوئی وزیراعظم ہو جس کے دور میں جنگ ہوئی ہو اور وہ بھی بھارت سے۔ اگرچہ کارگل جنگ ہوئی تھی لیکن وہ بہت محدود جنگ تھی۔ مئی کی پاک بھارت جنگ نے شہباز شریف کی قسمت کا نیا دروازہ کھول دیا۔ چین‘ امریکہ اور سعودی عرب سے تعلقات جو خراب تھے وہ ٹھیک ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم مودی کی اَنا نے ہمیں نیا موقع فراہم کیا‘ جب جنگ کے بعد اس نے ٹرمپ سے ٹکر لی اور سیز فائر کا کریڈٹ نہیں لینے دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی تاریخ کا اگر اچھا کارڈ کھیلا گیا تو وہ ٹرمپ کی تعریف اور سیز فائر کا شکریہ اور نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی تھی۔ شہباز شریف نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا لیکن اس پر پاکستانی خوش نہیں۔
پہلے بھٹو اور بعد میں عمران خان نے اس قوم کو یقین دلایا کہ یہ بہت بڑی قوم ہے‘ جو دنیا پر حکمرانی کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ بھٹو اگر پاکستان کو مسلم دنیا؍ تھرڈ ورلڈ کا لیڈر سمجھتے تھے تو عمران خان خود کو دنیا کے بڑے لیڈروں میں شمار کرتے تھے۔ ہمارا مزاج دیکھیں‘ اگر آج ٹرمپ وہی ٹویٹ کر رہا ہوتا جو وہ بھارت کے خلاف کر رہا ہے تو بھی اس قوم نے ناراض ہونا تھا کہ دیکھا یہ ہے ہماری اوقات اور اگر وہ ہمارے حق میں ٹویٹ کر رہا ہے تو بھی ہم خفا ہیں۔ آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ ہم خود کو گندا کر کے کیوں خوش رہتے ہیں؟ کبھی کبھار لگتا ہے کہ ہمارے اندر بہت زیادہ ہوا بھر دی گئی ہے۔ ابھی یوکرین کی جنگ پر دنیا نے جو مناظر دیکھے ان سے کسی نے کچھ سبق سیکھا ہے؟ یورپ کے تمام اہم ممالک بشمول برطانیہ‘ جرمنی اور فرانس کے سربراہان صدر ٹرمپ کے دفتر کے باہر لائن بنا کر بیٹھے تھے کہ وہ روسی صدر پوتن سے انہیں کیا ڈیل لے کر دیتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ پاکستان کا وزیراعظم صدر ٹرمپ کے دفتر کے باہر انتظار کرتا پایا جاتا تو ہمارے ملک میں کیا قیامت آ جاتی۔ طعنے مار مار کر مار ڈالتے۔ کیا آپ نے برطانوی اور یورپی ملکوں کے میڈیا‘ سیاستدانوں یا شہریوں کو سوشل میڈیا یا میڈیا پر یہ کہتے سنا کہ ہم بے غیرت ہو گئے ہیں‘ ہمارے منتخب وزیراعظم صدر ٹرمپ کے دفتر کے باہر قطار بنا کر انتظار کر رہے تھے؟ کیا ہمیں بھی وہی حماقت کرنی چاہیے جو وزیراعظم مودی نے کی اور اپنی قوم کو بانس پر چڑھا دینا چاہیے؟ آج کل وہی مودی صدر ٹرمپ سے رابطے بحال کرنے کے لیے خوشامدی ٹویٹس کر رہا ہے مگر بات نہیں بن رہی۔ پاکستانی قوم کو کچھ زیادہ ہی اونچے بانس پر چڑھا دیا گیا ہے۔
اس وقت مسئلہ شہباز شریف کا نہیں‘ اس وقت مسئلہ پاکستان کا ہے۔ پہلی دفعہ پاکستان کو عالمی سطح پر بڑے ممالک بشمول عرب دنیا عزت دے رہی ہے۔ ہمیں شہباز شریف پسند ہے یا نہیں لیکن اس وقت ملکی مفادات کا یہی تقاضا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اپنے ساتھ رکھیں۔ میں کچھ برطانوی پاکستانیوں کا رویہ دیکھ کر حیران ہوں جنہیں برطانیہ کے وزیراعظم کو صدر ٹرمپ کے دفتر کے باہر انتظار گاہ میں بیٹھے دیکھ کر کوئی مسئلہ نہیں یا کنگ چارلس کو چھوڑ کر ٹرمپ گارڈ سے باتیں کرتا رہا لیکن پاکستانی وزیراعظم سے انہیں شدید مسئلہ ہے۔ امریکی افغانستان سے نکلنے کے بعد ہمیں چھوڑ جائیں تو ہم بے وفائی کے طعنے دے کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور اگر ٹرمپ ہمیں گلے لگا لے تو بھی ہمارا رونا دھونا ختم نہیں ہوتا کہ وہ ہمیں لوٹ لے گا۔ ہم وہ معشوق بن چکے ہیں جو محبوب کی وفا اور بے وفائی‘ دونوں برداشت نہیں کر سکتا۔ امریکہ کی بے رخی اچھی لگتی ہے نہ ہی اس کی محبت۔ امریکہ ہمیں چھوڑ دے تو بھی ہم روتے ہیں اور اگر قریب لائے تو بھی ماتم کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ ہمارے مفادات پورے کرے لیکن اُس کے مفادات پورے نہ ہوں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ مفادات ہی ہوتے ہیں جن سے (ذاتی زندگی میں) لوگ اور ملک قریب آتے ہیں۔ پہلے ہم امریکہ سے برابری چاہتے تھے اور اب ٹرمپ برابری دے رہا ہے بلکہ بھارت پر ہمیں فوقیت دے رہا ہے تو بھی ہمارا رونا ختم نہیں ہو رہا۔ ہم عجیب نفسیاتی مرض یا خود کو اذیت دے کر لذت لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ نہ محبوب کی جدائی برداشت ہوتی ہے نہ اس کی قربت۔ یہ طے ہے کہ جس اونچے بانس پر اس قوم کو بڑی محنت سے چڑھایا گیا ہے اس سے یہ جلد نیچے اترے گی۔ بھارت میں رونا چل رہا ہے کہ مودی نے بھارت امریکہ کے پچاس سالہ تعلقات خراب کر کے پاکستان کو امریکہ کے قریب کر دیا اور پاکستان میں رونا دھونا ختم نہیں ہو رہا کہ امریکہ نے ہمیں اپنے قریب کیوں کر لیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved