ایسٹ انڈیا کمپنی کی توسیع پسندی کے عزائم میں ایک بڑی رکاوٹ بنگال کا نواب سراج الدولہ تھا جس نے سرِ تسلیم خم کرنے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اپنایا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی بڑھتی مداخلت کے راستے میں دیوار بن گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سراج الدولہ کے قریبی ساتھی میر جعفر کی وفاداری خرید لی۔ یوں سراج الدولہ کی بہادری انگریزوں کی مکاری اور میر جعفر کی غداری سے شکست کھا گئی اور اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کے راستے کی بڑی رکاوٹ دور ہو گئی۔ لیکن ابھی ہندوستان پر مکمل قبضے کی راہ میں ایک اور رکاوٹ حائل تھی۔ یہ رکاوٹ میسور کی ریاست تھی جس کا حکمران ایک جہاں دیدہ‘ دور اندیش اور بہادر جنگجو حیدر علی تھا‘ جس نے میسور کو معاشی اور عسکری لحاظ سے ایک مضبوط اور خودمختار ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا اور وہ اس خواب کی تعبیر کیلئے دن رات کوشاں تھا۔ انہی صفحات میں ہم نے حیدر علی کی انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا احوال تفصیل سے تحریر کیا تھا۔ حیدر علی نے اپنی شجاعت‘ سفارتکاری اور دانشمندی سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو میسور کی سرحدوں سے دور رکھا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں اسے کئی جنگیں لڑنا پڑی تھیں۔ انگریزوں کے خلاف میسور کی دوسری جنگ جاری تھی‘ اس جنگ میں اس کا جواں سال بیٹا ٹیپو سلطان بھی شریک تھا اور ایک دستے کی قیادت کر رہا تھا۔ یہ جنگ 1780ء میں شروع ہوئی اور اب 1782ء کا سال شروع ہو چکا تھا۔ پہلے زمانے کی جنگیں اکثر طویل ہوتی تھیں جو برسوں پر پھیلی ہوئی ہوتی تھیں۔ اس جنگ میں حیدر علی کا پلڑا بھاری تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے قدم اُکھڑ رہے تھے۔ تب اسے ایک جان لیوا بیماری نے آ لیا۔ میسور کی فوج کا سربراہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا لیکن اس کی خبر صرف حیدر علی کے چند وفاداروں تک محدود تھی کیونکہ خبر عام ہونے کی صورت میں میسور کی فوج کے مورال پر منفی اثر پڑ سکتا تھا۔ حیدر علی نے بیماری کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ وہ ایک طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج اور دوسری طرف اپنی بیماری سے لڑ رہا تھا۔ لیکن آخر کب تک! ایک دن وہ اپنی جان لیوا بیماری سے ہار گیا اور میسور کی فوج میدانِ جنگ میں اپنے جری سپہ سالار سے محروم ہو گئی۔ یہ میسور کی فوج کیلئے ایک نازک وقت تھا۔ سپہ سالار کی اچانک موت کی خبر فوج کو تتر بتر کر سکتی تھی۔ ایسے میں حیدر علی کے بیٹے ٹیپو سلطان نے اس بھاری ذمہ داری کو قبول کیا۔ حکمرانی کا تاج اس کے سرپر رکھا گیا۔ اس نے اپنے جری والد حیدر علی کے مشن کو آگے بڑھانا تھا۔ انگریزوں سے نفرت اور سامراج کے خلاف مزاحمت اسے ورثے میں ملی تھی۔ کیا نوجوان ٹیپو اپنے بہادر والد کی کمی پوری کر سکے گا؟ یہ سوال سب کے ذہنوں میں تھا۔ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ٹیپو سلطان کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے۔
وہ 20 نومبر کا دن تھا اور 1750ء کا سال جب حیدر علی کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا‘ جس کا نام اس کے داد ا کے نام پر فتح علی رکھا گیا۔ علاقے کی ایک بزرگ مذہبی شخصیت ٹیپو مستان اولیا فتح علی کے نام کی مناسبت سے ٹیپو بھی اس کے نام کا حصہ بنایا گیا۔ ٹیپو اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ اس کی پیدائش کے بعد اس کے والد حیدر علی کو میسور کی ریاست کی حکمرانی مل گئی۔ ننھے شہزادے کیلئے تعلیم و تربیت کا اعلیٰ بندوبست کیا گیا۔ دینی تعلیم کیلئے خاص اہتمام کیا گیا۔ اسے مختلف زبانیں سکھانے کا اہتمام کیا گیا۔ ان میں کناڈا‘ اردو اور فارسی زبانیں شامل تھیں۔ اسے فارسی زبان و ادب کی خاص تعلیم دی گئی۔ شہزادے کو گھڑ سواری اور تلوار زنی کے فنون سکھانے کیلئے اتالیق مقرر تھے۔ ٹیپو سلطان نے بچپن سے ہی اپنے بہادر والد حیدر علی کو عسکری معرکوں میں نبردآزما ہوتے دیکھا تھا اور پندرہ سال کی عمر تک تو وہ خود جنگوں میں حصہ لینے لگا تھا۔ اس سارے عرصے میں اس نے اپنے والد سے نہ صرف عسکری داؤ پیچ بلکہ سفارتکاری کے ہنر بھی سیکھے۔ میسور کی پہلی جنگ جو 1768ء سے 1779ء تک جاری رہی‘ میں ٹیپو نے اپنے والد حیدر علی کے ہمراہ شجاعت کے جوہر دکھائے۔ وقت کتنی تیزی سے گزر گیا تھا‘ بچپن اور جوانی کب آئے اور کب گئے پتا ہی نہیں چلا۔ ٹیپو کی زندگی کے اوائل عمری کے دن جنگوں میں ہی گزر گئے اور اب دوسری اینگلو انڈین جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اس جنگ میں وہ ایک دستے کی قیادت کر رہا تھا۔ اسی جنگ کے دوران حیدر علی کا انتقال ہو گیا۔ والد کے بعد ٹیپو کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آ پڑی۔ ٹیپو نے اس چیلنج کو قبول کیا اور Pollilur اور دوسرے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں ٹیپو نے راکٹ بھی استعمال کیے جو اُس زمانے میں ایک بالکل نیا ہتھیار تھا۔ راکٹ سازی کا آغاز ٹیپو کے والد حیدر علی نے کیا تھا اور اس کو بڑھاوا ٹیپو نے دیا۔ ٹیپو نے تمام تر قوت کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی پر حملہ کیا اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ انگریزوں کیلئے یہ ایک غیرمتوقع صورتِ حال تھی۔ جنگ میں پسپائی نے انہیں جنگ بندی کی درخواست پر مجبور کر دیا۔ یوں 11مارچ 1784ء کو ٹیپو سلطان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان معاہدہ طے پا گیا جس کے مطابق فریقین مفتوحہ علاقے واپس کرنے کے پابند تھے۔ اس معاہدے کو' معاہدۂ بنگلور‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جنگ کا اختتام ہوا تو ٹیپو کے سامنے ایک اور چیلنج تھا۔ اب وہ ریاست میسور کا حکمران تھا اور اس نے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے میسور کی ریاست کو ایک جدید‘ خود کفیل اور خود مختار ریاست بنانا تھا۔ ٹیپو سلطان کو معلوم تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے اور کسی بھی وقت کوئی نئی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ وہ تین دشمنوں میں گھرا ہوا تھا۔ ایک طرف ایسٹ انڈیا کمپنی اس کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی تھی‘ دوسری طرف مرہٹے اس کی جان کے درپے تھے اور تیسری طرف دکن کا نظام اس کا نام و نشان مٹانا چاہتا تھا۔ ان سب خطرات کی موجودگی میں ہی اسے میسور کی ریاست کو ایک جدید اور مضبوط ریاست بنانا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ میسور اور انگریزوں کی جنگ صرف اس کے اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ اسے ہندوستان کو غلامی سے بچانے کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی کو توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ٹیپو نے میسور کو ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک جدید ریاست بنانے پر کام شروع کر دیا۔ اس نے فوج کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا اور راکٹ سازی کی صنعت کو فروغ دیا۔ وہ میسور کو سیاسی طور پر خود مختار ریاست بنانا چاہتا تھا‘ اس کیلئے اس نے خارجہ پالیسی پر توجہ دی اور فرانس‘ سلطنتِ عثمانیہ‘ افغانستان سے تعلقات استوار کیے۔ انتظامی محاذ پر اس نے ریونیو اکٹھا کرنے کا مؤثر نظام بنایا جس میں کرپشن کی کم سے کم گنجائش تھی۔ زراعت‘ صنعت اور تجارت پر خاص توجہ دی گئی اور ریشم کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے اہم اقدامات کیے گئے۔ ٹیپو کے دور میں تعمیرات پر توجہ دی گئی‘ نئی عمارات اور باغات بنائے گئے۔ اس دور کی ایک یادگار عمارت مسجد ِاعلیٰ ہے جو انتہائی خوبصورت‘ دلکش اور پُرشکوہ ہے۔ ٹیپو کی شخصیت کے بہت سے پہلو تھے‘ وہ ایک بہادر جنگجو‘ ایک زیرک رہنما‘ ایک موثر منظم اور ایک عملی مسلمان تھا۔ ٹیپو سلطان کو معلوم تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اصل منصوبہ سارے ہندوستان کے وسائل پر قابض ہونا ہے لیکن ٹیپو کو یقین تھا کہ وہ اپنی زندگی میں فرنگیوں کا یہ خواب پورا نہ ہونے دے گا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved