مجھے زندگی میں گاہے گاہے ایسے لوگوں سے ملاقات کا موقع ملتا رہتا ہے جو گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان مسائل کی وجہ سے اپنی زندگی کے بہت سے اہم معاملات پر صحیح طور پر توجہ نہیں دے پاتے۔ گھریلو ناچاقیوں اور اُلجھنوں کی وجہ سے پیشہ ورانہ سرگرمیاں‘ کاروبار اور بہت سے اہم خاندانی معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ایک کامیاب عائلی زندگی گزارنے کے لیے بہت سی باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ شوہر اور بیوی اپنے حقوق اور فرائض کو اچھی طرح پہچانیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کتاب وسنت میں شوہر اور بیوی کے حقوق کو بہت احسن انداز سے بیان کیا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے مرد اور خواتین ان باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
جب ہم شوہر کی ذمہ داریوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شوہر کو بیوی کے ساتھ اچھے طریقے سے رہنا چاہیے اور بیوی کے ساتھ شفقت‘ نرمی اور محبت والا برتائو رکھنا چاہیے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے مرد چھوٹی چھوٹی باتوں پر گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں اور کئی تو دست درازی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایک مرد کو خوش اخلاقی کے ساتھ ساتھ بیوی کے نان نفقے اور دیگر ضروریات کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے اور حتی الوسع اس کے ساتھ نباہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر بیوی کی کوئی بات نا پسند آئے تو اس کے دیگر اچھے اوصاف پر غور کرنا چاہیے اور بے حیائی کے علاوہ کسی اور وجہ سے بیوی سے دوری اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 19 میں ارشاد فرماتے ہیں ''ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو‘ انہیں اس لیے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو‘ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں‘ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود وباش رکھو‘ گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ اس میں بہت ہی بھلائی (پیدا) کر دے‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے بیش قیمت نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں اور اس بات کو واضح کیا کہ کسی بھی طور پر خواتین کا استحصال کرنا درست نہیں ہے۔ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارنی چاہیے اور اگر ان کی کوئی بات ناپسند بھی ہو تو ممکن ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان میں تمہارے لیے خیرِ کثیر رکھی ہو۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت: 34 میں مردوں کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''مرد عورتوں پر حاکم ہیں‘ اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں؛ پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو‘ پھر اگر وہ فرمانبرداری کریں تو ان پر (ایذا کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو‘ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مردوں کی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ عورتوں کے اخراجات کو برداشت کریں اور عورتوں کو نیکی کے راستے پر چلنے کی تلقین کی ہے۔ اگر کوئی عورت (صریح دینی احکامات کے حوالے سے) نافرمانی کے راستے پر چل نکلے تو مرد اس کی اصلاح کیلئے اس پر سختی کر سکتا ہے لیکن اگرعورت اپنی اصلاح کر لے تو اس پر زیادتی کرنا کسی بھی طور پر مرد کیلئے جائز اور درست نہیں ہے۔
جب ہم نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ انتہائی شفقت فرماتے اور گھریلو کاموں میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہو۔ رسول کریمﷺ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد بھی آپ کی محبت اور وفاداری کو ہمیشہ یاد رکھا اور حضرت خدیجہؓ کے اعزہ واقارب کے ساتھ خیر والا معاملہ فرماتے رہے۔ خوشی کے موقع پر رسول کریمﷺ ہمیشہ ان کو یاد رکھتے اور ان کی خدمت گزاری کا ذکرِ خیر بھی فرماتے رہتے۔
جہاں عائلی زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے مرد پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہیں عورت پر بھی ایک مثالی گھرانہ بنانے کیلئے بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔ عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور اس کی جائز باتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے مال‘ عزت اور ناموس کا بھرپور طریقے سے تحفظ کرنا چاہیے۔ بعض احادیث میں عورت کو شوہر کی فرمانبرداری کی تلقین کی گئی کہ اگر خدا کے علاوہ کسی اور کو سجدہ روا ہوتا تو عورت کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جاتا۔ اسی طرح عورت پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ اگر اس کا شوہر اس کو بلائے تو وہ تمام کام چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو۔ عورت کو چاہیے کہ نفلی روزے اپنے شوہر کی اجازت کے ساتھ رکھے۔ اس کا شوہر جن افراد کو ناپسند کرتا ہو ان کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔ بعض عورتیں شوہر کی قدر ومنزلت میں کمی کرتی ہیں اور بلا عذر اس کی جائز باتوں کو پورا کرنے سے کتراتی ہیں۔ اسی طرح کچھ شوہر کے مال کو ضائع کرتی اور جن لوگوں کو شوہر ناپسند کرتا ہے‘ ان سے راہ و رسم بڑھاتی ہیں۔ یہ رویے کسی بھی طور پر پسندیدہ نہیں ہیں اور ان کی وجہ سے بہت سے گھریلو مسائل جنم لیتے ہیں۔
امہات المومنین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن نے مثالی بیویوں کا کردار ادا کیا۔ جب ہم نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنے شوہر نامدار حضرت محمد کریمﷺ کی خوشنودی کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہا کرتی تھیں اور اپنے عہد کی دیگر عورتوں کے ساتھ مسابقت اختیار کرنے کے بجائے اپنے شوہر کی خوشنودی کیلئے وقف رہا کرتی تھیں۔ انہوں نے جہاں نبی کریمﷺ کی اطاعت اور خدمت گزاری کا رویہ اختیار کیا وہیں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد امت کی تدریس اور تزکیہ کیلئے بھی اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ اسی طرح سیدہ فاطمہؓ نے اپنے شوہر حضرت علی المرتضیٰؓ کا زندگی بھر خوب ساتھ نبھایا اورحضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما جیسی عظیم اولادوں کی بے مثال تربیت کا فریضہ سرانجام دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں اور ان کو ایک دوسرے کے مزاج‘ ایک دوسرے کی طبعی‘ نفسیاتی‘ جسمانی اور مادی ضروریات کا خیال کرنا چاہیے۔ بہت سے افراد ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنے کی جستجو توکرتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے حوالے سے غافل نظر آتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے خوشگوار تعلقات کے اولاد پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت میں مضبوطی اور گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے مدمقابل گھریلو ناچاقی اور کشمکش کے اولاد پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ والدین کو آپس میں جھگڑتا دیکھ کر اولاد میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور ان میں سرکشی‘ خود غرضی اور لالچ کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے مثبت تعلقات کے نتیجے میں ایک مثالی گھرانہ وجود میں آتا ہے۔ محبت اور امن سے بھرے ہوئے گھر میں تربیت حاصل کرنے والے بچے معاشرے کی تعمیر وترقی میں بہت مثبت اور نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ گھریلو استحکام سماجی مضبوطی کی بنیاد ہے۔ چنانچہ ہمیں اپنے گھروں میں امن وسکون او پیار اور محبت کو برقراررکھنے کے لیے تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved