تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-10-2025

مذہب‘ جمہوریت اور فساد فی الارض

مذہب و سیاست کے یہ مظاہرصرف نیم خواندہ معاشرے میں پنپ سکتے ہیں۔ ایسے معاشرے ہی میں ممکن ہے کہ اسلام اور سیاست کی تعبیر ان کو سونپ دی جائے جو اِن کے فہم سے عاری ہوں۔
مذہب کیا ہے؟ سادہ لفظوں میں تزکیہ نفس۔ اخلاق کو اتنا پاکیزہ بنانا کہ روزِ قیامت آپ کامیاب قرار پائیں۔ جلوس‘ احتجاج‘ کبھی شریعت کا مطالبہ نہیں رہے۔ شریعت نے علما کی ذمہ داری 'اِنذار‘ بتائی ہے۔ اس کا مطلب ہے: خدا کے سامنے جوابدہی کیلئے انسانوں کو خبردار کرنا۔ ان کو اخلاق کی طہارت کا درس دینا۔ مذہب کے باب میں کوئی اشکال ہے تواس کو دور کرنا۔ یہ سر تا پا دعوت ہے۔ اس کیلئے تمدن کی رعایت سے کوئی جائز طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مگر ایک حد مقرر ہے اور وہ ہے ابلاغ۔ ابلاغ سے آگے کسی اقدام کا مطالبہ علما سے بھی نہیں کیا گیا۔ انہیں دروغہ نہیں بنایا گیا۔ جلسے جلوس‘ سیاست کے مطالبات ہیں‘ مذہب کے نہیں۔ مذہب کو جب سیاست بنایا گیا تو سیاست کے سب مطالبات کو مذہبی مطالبات بنا دیا گیا۔ مذہب کے نام پر جلوس۔ مذہب کے نام پر احتجاج۔
سیاست کیا ہے؟ سماج کی سیاسی تشکیل کیلئے جد وجہد۔ سادہ لفظوں میں ریاست سازی۔ اس کیلئے ادارے بنتے ہیں۔ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے سیاسی جماعتیں قائم کی جاتی ہیں۔ پھر شہری کسی عمرانی معاہدے پر اتفاق کر لیتے ہیں جسے آئین کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ سیاسی سرگرمیوں کیلئے حدود مقرر کرتا ہے۔ جمہوریت دورِ جدید میں اس سیاست و ریاست کو منظم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی وجود کے اثبات اور اپنے مؤقف کے ابلاغ کیلئے جو سرگرمیاں کرتی ہیں‘ جلسے جلوس ان کا حصہ ہیں۔ یہ سیاسی اعتبار سے نیم خواندہ معاشرے ہی میں ممکن ہے کہ احتجاج کے نام پر عوام کی اکثریت کو یرغمال بنا لیا جائے۔ ان کے بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں۔ عام آدمی کی معیشت کو برباد کر دیا جائے۔ ملکی اقتصادیات کو تباہ کردیا جائے۔ شہریوں کے جان و مال کو ارزاں کر دیا جائے۔ پھر اس رویے پر اصرار کیا جائے کہ 'احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘۔ جمہوریت کا یہ مفہوم وہیں رائج ہو سکتا ہے جہاں لوگوں نے جمہوریت کا نام سن رکھا ہو‘ اس کی روح سے واقف نہ ہوں۔ یہی نیم خواندگی ہے۔
اس ملک میں چار دن آرام سے نہیں گزرتے۔ آئے دن احتجاج‘ آئے دن سڑکیں بند۔ دو دن پہلے اسلام آباد کے سب سے بڑے ہوٹل کے سامنے سے گزرا۔ تمام غیرملکی مہمان یہیں ٹھیرتے ہیں۔ کنٹینرز سے گھرا ہوا یہ ہوٹل عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا جیسے دارالحکومت محاصرے میں ہے۔ اس سے ملک کی جو تصویر بنتی ہے‘ اس پر کوئی محبِ وطن پاکستانی خوش نہیں ہو سکتا۔ گویا یہ معاملہ داخلی استحکام ہی کا نہیں‘ بین الاقوامی ساکھ کا بھی ہے۔ اس طرز کا احتجاج‘ مذہب کے نام پر ہو یا سیاست کیلئے‘ ریاست اور سماج کیلئے عذاب اور ناقابلِ قبول ہے۔
جن معاملات میں ہمارا بس نہیں چلتا‘ ان میں ریاست اور عوام کو عذاب میں مبتلا کرنے والوں کو ایک نظر تاریخ پر ضرور ڈالنی چاہیے۔ ایک مرتبہ ہمارے بڑوں نے خلافتِ عثمانیہ کی بقا کیلئے بھی تحریک چلائی تھی۔ یہ خلافت مسلمانوں کی سیاسی وحدت کی علامت تھی۔ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ یہ علامت باقی نہیں رہ سکتی۔ مسلمان مگر تاریخ کی آواز کم اور اپنے جذبات کی زیادہ سنتے ہیں۔ اس وقت بھی ایک ایسی تحریک اٹھا دی گئی جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔ علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے چند ہی تھے جو یہ سمجھ رہے تھے کہ برصغیر کے مسلمان ایک ایسی مہم میں اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں جس کی ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔ سترہ سال کا نوجوان ابوالاعلیٰ بھی یہی سوچ رہا تھا۔ اس کی اُلجھن یہ تھی کہ جو بات اس کی سمجھ میں آرہی ہے‘ محمد علی جوہر جیسے صاحبِ بصیرت کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی؟ پھر خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ خود ترکوں نے کیا کیا اوراس تحریک کا انجام کیا ہوا‘ یہ سب ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔
گزشتہ ہفتے عشرے میں اس ملک میں جو کچھ ہوا‘ نہ ہوتا اگر تحریکِ خلافت کی تاریخ سامنے ہوتی۔ یہ اسی وقت ممکن تھا جب تحریکیں اٹھانے والے‘ تاریخ اور دین کے باب میں خواندہ ہوتے۔ جن کو یہ معلوم ہوتا کہ تاریخ کا بہاؤ کس سمت میں ہے اور ہم اس پر اثر انداز ہونے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی نہیں‘ تحریکوں کی قیادت کرنے والوں کو اپنی اخلاقی ذمہ داری کا احساس ہوتا تو بھی اس نوعیت کی تحریک اٹھانے سے پہلے سو بار سوچتے۔ عوام کے جذبات کو مشتعل کر کے‘ انہیں بلامقصد ریاست سے متصادم وہی کر سکتا ہے جو خدا کے ہاں جواب دہی کے احساس سے عاری ہو۔ جسے اس بات کو کوئی احساس نہ ہو کہ کل اللہ تعالیٰ کی حضور میں اس سے ضائع ہونے والی جانوں اور املاک کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تمام پُرتشدد اور عسکری تنظیموں کے راہنما‘ چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی‘ ان لوگوں کے جان و مال کیلئے مسئول ہوں گے جو ان کے کہنے پر کسی مہم جوئی کا ایندھن بن گئے۔
2014ء سے پاکستان مسلسل اضطراب میں ہے۔ مذہب اور سیاست کا ایسا سوئے استعمال شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ عوام کے جان و مال کی جو ارزانی گزشتہ عشرے میں دیکھی گئی اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ عوام کو مسلسل ہیجان میں رکھا گیا۔ کبھی توہینِ مذہب کے نام پر‘ کبھی سیاسی شعور کے عنوان سے۔ لوگوں کا سکون لٹ گیا‘ معیشت برباد ہو گئی اور سماجی بنت بکھر گئی۔ ریاست بازیچہ اطفال بن گئی۔ سنجیدگی سیاست میں رہی نہ مذہب میں۔ اس پہ مستزاد سوشل میڈیا کی یلغار۔ ایک نیم خواندہ معاشرے میں ادھوری معلومات اور جھوٹ سچ کی آمیزش جو قیامت ڈھاتے ہیں‘ اس کے مظاہر جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ ریاست اور عوام دونوں کواب اندازہ ہو رہا ہے کہ اس طرح کی ہیجانی تنظیمیں مذہب‘ ملک اور قوم کیلئے کتنی خطرناک ہیں۔ ماضی میں اگر ان کو اثاثہ قرار دیا گیا تو حال میں انہیں ریاست کے کندھوں پر بوجھ سمجھا جا رہا ہے۔ ریاست یکسو دکھائی دیتی ہے کہ ایسے عناصر اب اس کیلئے نا قابلِ برداشت ہیں۔ عوامی سطح پر بھی ان تنظیموں کیلئے سرد مہری دکھائی دینے لگی ہے۔ اگر اس موقع پر میڈیا اور علما ساتھ دیں تو انتہا پسندانہ رجحانات کے خلاف قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔
ریاست اور عوام کو ہمیشہ کیلئے طے کرنا ہو گا کہ یہ مذہب ہو یا سیاست‘ اب ایسا احتجاج گوارا نہیں جس سے عوام کے بنیادی حقوق پامال ہوں‘ ریاست کی معیشت کو نقصان پہنچے‘ کاروبارِ زندگی معطل ہو اور سماج خوف اور اضطراب میں مبتلا ہو۔ فساد فی الارض اور جمہوریت کے مابین اب ایک حدِ فاصل قائم ہو جانی چاہیے۔ پارلیمان میں اس کیلئے قانون سازی ہو۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کی سطح پر عوامی آگہی کی مہم چلائی جائے۔ جلسوں کیلئے آبادی سے باہر مقامات کا تعین کر دیا جائے اور میڈیا کو شائستگی کے دائرے میں مکمل آزادی ہو تاکہ ہر کوئی اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے رکھ سکے۔ آبادیوں میں جلسے جلوس پر مکمل پابندی ہو۔ اس پالیسی کا اطلاق ہر مسلک اور سیاسی جماعت پر غیرامتیازی طور پر کیا جائے۔
چند امور پر یکسو ہوئے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ ان میں سے ایک سیاسی و سماجی استحکام ہے جس کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ ریاست‘ مذہبی و سیاسی قیادت‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کو اس بات پر متفق ہونا ہو گا کہ ہیجان کو اب گوارا نہیں کیا جائے گا۔ تشدد ہیجان ہی کا نتیجہ ہے۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولیں ذمہ داری ہے۔ عوام اگر بلوائیوں کے رحم و کرم پر ہوں تو ریاست کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved