مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کا طے پا جانا اور اس پر عملدرآمد شروع ہو جانا اطمینان بخش ہو سکتا ہے‘ اگر اس معاہدے کا دوسرا مرحلہ بھی طے پا جائے اور اس پر عملدرآمد بھی یقینی بنا لیا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا گہرے معنی رکھتا ہے کہ پاکستان کی سب سے اہم ترجیح غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی کی مہم کو فوری طور پر روکنا تھا‘ دیگر برادر اقوام کے ساتھ مل کر اس ترجیح کو تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا اور تقویت دی گئی۔ وزیراعظم اپنی اس کوشش میں یقینا سرخرو ٹھہرے ہیں۔ وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کی غزہ امن معاہدے سے متعلق کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو توقع تھی کہ امریکی صدر اس ظلم کو ختم کریں گے‘ اور انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اللہ کرے کہ ٹرمپ اپنے وعدے پر قائم رہیں کیونکہ حماس کو غیر مسلح کرنے کے معاملے پر وہ خاصے سخت بیانات دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہو گا؟ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں لیکن خدشات‘ اندیشوں اور ابہام کے بادل ابھی چھٹے نہیں ہیں۔ یہ ابہام کیسے ختم ہوں گے؟ جس روز یہ ابہام ختم ہو جائیں گے اسی روز مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہو جائے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے کیوں جاری ہیں؟ ابھی آج (بدھ) کی ہی اطلاع ہے کہ پانچویں روز اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے غزہ میں مزید چھ فلسطینی شہید ہو گئے۔ غزہ سول ڈیفنس کے مطابق شجاعیہ میں پانچ شہری اپنے گھروں کا معائنہ کرتے ہوئے کواڈ کاپٹر ڈرون حملے میں مارے گئے۔ ایک اور شہری خان یونس کے نواحی علاقے الف خاری میں شہید ہوا۔ فائرنگ سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ یہ کیسی جنگ بندی ہے جس میں فلسطینی بدستور صہیونی فوج کی گولیوں اور گولوں کی زد میں ہیں؟
اگلا مرحلہ غزہ کی تعمیر نو ہے۔ دفترِ اقوام متحدہ برائے پروجیکٹس سروسز کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد تعمیر نو شروع کرنے کے لیے 52ارب ڈالر درکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ کے 80فیصد بنیادی ڈھانچے کو قابض اسرائیل کی بربریت نے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے جنگ سے تباہ حال غزہ کی تعمیرنو کے لیے ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جو ظاہر ہے اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کے مترادف ہے۔ غزہ کے عوام کے ساتھ ہمدردی کا دم بھرنے والوں کو اب دل کھول کر ان کی تعمیر نو کے حوالے سے مدد کرنی چاہیے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ عرب ممالک غزہ کی بحالی کے پروگرام میں کتنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا ہے کہ امریکہ‘ عرب اور یورپی ممالک کی جانب سے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے 70ارب ڈالر لاگت کے منصوبے میں مالی تعاون کی ابتدائی یقین دہانیاں حوصلہ افزا ہیں۔ اگر اتنی رقوم مل جائیں تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکے گی کہ غزہ میں انسانی دھارا پھر سے بہنے لگے گا اور زندگی اپنے پورے رنگوں میں پھر سے موجزن نظر آنے لگے گی۔
معاہدہ طے پا گیا‘ جنگ بندی ہو گئی اور غزہ کی تعمیر نو کے سلسلے میں فنڈز ملنا شروع ہو گئے تو بھی ایک سوال جواب طلب رہے گا۔ وہ سوال یہ ہے کہ فلسطین میں دو الگ الگ اور آزاد ریاستوں کے قیام کے سلسلے میں آگے کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب جتنا جلدی تلاش کر لیا جائے گا اتنا ہی مشرقِ وسطیٰ کے بحران سے جلد نکلنے کے امکانات روشن تر ہو جائیں گے۔
آج فیس بک پر ایک خبر نظر سے گزری جس نے مجھے جکڑ لیا‘ آگے نہیں بڑھنے دیا۔ خبر یہ ہے کہ دنیا کی لگ بھگ 10فیصد آبادی ہر رات بھوکے پیٹ بستر پر سونے کے لیے لیٹتی ہے۔ ورلڈ او میٹر (Worldometer) پر جا کر دیکھا تو آٹھ ارب 25کروڑ 24 لاکھ دو ہزار کے اعداد و شمار نظر آئے‘ یعنی آج دنیا کی آبادی اتنی ہو چکی ہے۔ یہ سوا آٹھ ارب ہے۔ حساب کتاب میں آسانی کے لیے ہم اسے صرف آٹھ ارب ہی تصور کرتے ہیں۔ اس حساب سے روزانہ 80کروڑ افراد خالی پیٹوں کے ساتھ بستر پر لیٹتے ہیں۔ پتا نہیں انہیں نیند آتی ہو گی یا نہیں؟
دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ روزانہ لاکھوں نئے نفوس روئے ارض پر آ جاتے ہیں اور اپنے حصے کی خوراک کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کام ان کی پیدائش کے بعد چند منٹوں میں شروع ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سلسلہ ان کے سانسوں کی ڈور ٹوٹنے تک برقرار رہتا ہے۔ زمین پر ہر سال مزید زندگیاں وارد ہونے کے باوجود قدرت اتنی مہربان ہے کہ اتنی وافر خوراک پیدا کر دیتی ہے جو پوری نسلِ انسانی کے لیے کافی ہو‘ لیکن آگے خوراک کے تقسیم کار انصاف سے کام نہ لیں تو اس میں لوگوں کا کیا قصور؟ اس وقت بھی زمین پر اتنی خوراک ہر سال پیدا ہوتی ہے جو 10ارب انسانوں کے پیٹ بھر سکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ خوراک سب کو نہیں مل پا رہی۔ اقوام متحدہ کے عالمی ماحولیاتی ادارے (The United Nations Environment Programme) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ خوراک گھروں میں ضائع ہوتی ہے جس کا سالانہ حجم 631ملین ٹن ہے۔ یہ ضائع ہونے والی مجموعی خوراک کا تقریباً 60فیصد ہے۔ بیرونِ خانہ کھانے پینے کی جگہوں پر اور خوردہ فروشی کے دوران بالترتیب 290اور 131ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کا ہر فرد سالانہ اوسطاً 79کلوگرام خوراک ضائع کرتا ہے۔ یہ خوراک کی اتنی بڑی مقدار ہے کہ اس سے دنیا میں بھوک سے متاثرہ ہر فرد کو روزانہ 1.3کھانے مہیا کیے جا سکتے ہیں۔
ہر سال 16اکتوبر کو خوراک کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ آج بھی منایا جا رہا ہے لیکن کبھی کسی نے سوچا کہ جدید اور ترقی یافتہ دور میں ہم نے اسلحے کے انبار تو لگا لیے ہیں لیکن سارے بھوکے پیٹ بھرنے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے۔ میری نظر میں اس کی تین وجوہ ہیں۔ پہلی‘ آبادی میں ہر سال تیز رفتار اضافہ۔ دوسری کھیتوں میں پوری گنجائش کے مطابق خوراک پیدا نہ ہو پانا۔ اور تیسری وہی کہ پیدا کی گئی خوراک کا ایک بڑا حصہ ضائع کر دیا جانا۔ اگر آبادی میں اضافے کی رفتار کو فی الحال نہیں روکا جا سکتا تو جدید طریقوں کے تحت خوراک کی پیداوار بڑھا کر اور ضائع ہونے والی خوراک بچا کر ہی ہم یہ نعرہ بلند کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں کہ ''کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘۔
خوراک کے بحران پر عالمی رپورٹ (The Global Report on Food Crises 2024) 2030ء تک بھوک کے خاتمے کے ہدف کو حاصل کرنے کے بڑے چیلنج کی تصدیق کرتی ہے۔ 2023ء میں 59ممالک یا علاقوں میں تقریباً 282ملین افراد کا تجزیہ کیا گیا۔ 21.5فیصد آبادی کو اعلیٰ سطح کے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہدف پورا کیا جا سکتا ہے؟ اور جب یہ ہدف پورا ہو جائے گا تو پھر اگلا ہدف کیا ہونا چاہیے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved