تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     16-10-2025

روشن اور تِیرہ دستخط

مصر میں جنگ بندی کا معاہدہ دستخطوں کیساتھ مکمل ہو گیا۔ اسرائیلی قیدی اور انکی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فلسطینی قیدی بھی رہا ہو کر اپنے عزیز و اقارب کے پاس پہنچنے لگے۔ مبارکبادیں دی اور وصول کی جانے لگیں۔ اہم مسلم ممالک معاہدے کی تائید میں موجود ہیں اور خود حماس بھی معاہدے کا حصہ ہے۔ معاہدے کو امریکہ اتنا اہم سمجھتا ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہان کی موجودگی بھی ضروری سمجھی گئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی مصر پہنچے۔ ٹرمپ کی تقریر کے دوران ان کے عین پیچھے موجود تھے اور ٹرمپ کے فوراً بعد انہوں نے خطاب کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس امن معاہدے کا کریڈٹ دیا اور ایک بار پھر نوبیل پرائز کیلئے نامزد کرنے کی بات کی۔ سب نے مل کر امن کا سہرا ٹرمپ کے سر باندھ دیا۔
ہم جیسوں کو اس معاہدے پر خوشی ہوئی یا افسوس‘ اسے امن کا معاہدہ سمجھتے ہیں یا دامِ ہم رنگ زمیں‘ یہ بہت تفصیل طلب ہے اور اس معاملے کے اتنے پہلو ہیں کہ کسی ایک کو مدنظر رکھ کر باقی نظر انداز کر دینا بھی ممکن نہیں۔ یہ معاملہ دینی‘ معاشی‘ تاریخی‘ مشرقِ وسطیٰ میں امن اور اسرائیل اور مسلم ممالک کے مستقبل میں تعلقات سمیت بے شمار پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے تو یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اسرائیلی حملے رک گئے‘ مزید بے گناہ اور نہتے فلسطینی مرد‘ عورتیں اور بچے شہید ہونے سے بچ گئے۔ غذا‘ ادویات اور ضروری اشیا کے ٹرک غزہ پہنچنا شروع ہو گئے‘ اور فلسطینی قیدی بھی رہا ہونے لگے۔ لیکن اس معاہدے کے بالآخر جو نتائج ہو سکتے ہیں اس طرف سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ سات اکتوبر 2023ء کو جو نئی لڑائی شروع ہوئی تھی‘ 13اکتوبر 2025ء تک پہنچتے پہنچتے کس فریق نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ بالآخر اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ اور کیا فلسطینی اپنی زمین پر اپنا حق منوانے میں کامیاب ہو گئے؟
پہلے ان دو سالوں اور اس معاہدے کو اسرائیلی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیل کا بار بار اعلان اور نیتن یاہو کا مسلسل مؤقف تھا کہ حماس کو پوری طرح تباہ کر کے‘ یرغمالیوں کو طاقت کے ذریعے رہا کرایا جائے گا اور غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کیا جائے گا۔ جنگ اس وقت بند ہو گی جب اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کر لے گا۔ یہ مقاصد نیتن یاہو کی خواہش بھی تھی اور اس کی سیاسی مجبوری بھی کیونکہ اس کے اتحادی انتہا پسند صہیونی اس پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے۔ ان چاروں مقاصد میں اسرائیل ناکام رہا ہے۔ حماس کی صف اول کی بیشتر قیادت ختم کر دینے کے باوجود حماس آخر تک موجود رہی۔ کئی بار مذاکرات کرنا پڑے اور بالآخر یہ معاہدہ بھی حماس کی منظوری کے ساتھ ہوا۔ اس لحاظ سے یہ اسرائیلی شکست ہے کہ جس گروپ کو وہ دہشت گرد قرار دیتا تھا اور اسے تسلیم کرنے سے انکاری تھا‘ نہ اسے ختم کر سکا اور نہ ہی اس کی منظوری کے بغیر کوئی معاہدہ طے پا سکا۔ دوسرا مقصد بھی بری طرح ناکام ہوا۔ اسرائیل کے ان دعووں کے باوجود کہ حماس کے ٹھکانے‘ تمام سرنگیں ختم کر دی گئی ہیں‘ حماس کو کچل دیا گیا ہے‘ کوئی ایک اسرائیلی قیدی بھی اسرائیلی فوج نے رہا نہیں کرایا۔ جو بھی رہا ہوئے حماس کے ساتھ معاہدوں سے رہا ہوئے۔ حیرت ہے اور عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ 41 مربع کلومیٹر کے اس چھوٹے سے علاقے میں تمام جاسوسی آلات‘ فضائی نگرانی‘ زمینی ایجنٹس کے باوجود کسی ایک یرغمالی کا سراغ اسرائیل کو نہیں مل سکا۔ دو سال کے بعد جب مزید کچھ نہ کیا جا سکتا تھا تو مجبوراً بات چیت سے اپنے قیدی رہا کروائے۔ یہ یرغمالی غزہ کے اندر ہی موجود تھے اور یہیں سے بالآخر حماس نے رہا کیے۔ یہ اسرائیل اور اس کے لوگوں کیلئے بہت بڑا زخم ہے جو بہت دیر تک رِستا رہے گا۔ اسی طرح پوری کوشش کے باوجود کہ غزہ سے لاکھوں فلسطینیوں کو ہمسایہ ملکوں میں بے دخل کر دیا جائے‘ اسرائیل کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہوا۔ کبھی ایک طرف سے نہتے شہریوں کو کھدیڑا گیا‘ کبھی دوسری طرف سے۔ کبھی ایک کونے میں جمع کیا گیا‘ کبھی دوسرے کونے میں۔ لیکن فلسطینی اپنی زمینوں پر موجود رہے‘ تمام تر شہادتوں‘ قربانیوں‘ امداد کی معطلی اور قحط کے باوجود۔ دیکھا جائے تو یہ تنہا بڑی کامیابی ہے کہ اسرائیل کا غزہ پر مکمل تسلط کا خواب پورا نہیںہو سکا۔چوتھا مقصد بھی راکھ بن گیا کہ جنگ اس وقت بند ہو گی جب اسرائیل اپنے مقاصد مکمل طور پر حاصل کر لے گا۔ اسرائیل کو جنگ بند کرنا پڑی اور بغیر اپنے مقاصد حاصل کیے معاہدے پر دستخط کرنا پڑے۔ ایک بہت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ غزہ‘ لبنان‘ شام‘ ایران اور یمن میں اپنے مخالفین کا بہت نقصان کرنے کے باجوود اسرائیلی طاقت کا بھرم کھل گیا جو ایک عرصے سے ناقابلِ شکست سمجھی جاتی تھی۔
حماس اور فلسطینیوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو انہیں بے بہا جانی اور مالی نقصانات کے باوجود اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے۔ اب دنیا بھر کی نظر میں وہ مظلوم قوم ہیں اور اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ملک۔ مسلم دشمن ذہن کی بات الگ ہے لیکن دنیا بھر میں بے شمار لوگ‘ جو اسرائیل کے حامی تھے‘ اب اس کے مخالف ہیں یا کم ازکم غیر جانبدار ہیں۔ حماس نے سر کٹوا کر اپنی حیثیت بھی منوا لی ہے اور اپنے صبر واستقامت کے ذریعے اسرائیل کا گھمنڈ بھی توڑ دیا ہے۔ حماس کا مستقبل شاید کوئی نہ ہو‘ اسے غیر مسلح ہونے سے بالکل ختم ہو جانے تک کے تمام خدشات کا یقینی سامنا ہو گا‘ جیسا کہ ٹرمپ کا منصوبہ ہے کہ غزہ میں ٹونی بلیئر کی قیادت میں ایک انتظامیہ ہو گی۔ ٹونی بلیئر کا فلسطین دشمن سابقہ ریکارڈ سب کے سامنے ہے لہٰذا وہ ایک طرح سے اسرائیلی مفادات کا نگران ہو گا۔ اس کی موجودگی میں حماس اپنا وجود کیسے برقرار رکھ سکے گی۔ اگرچہ حماس تمام فلسطینیوں کی نمائندگی نہیں کرتی اور فلسطینی اتھارٹی بھی اسکی مخالف ہے‘ تاہم اس کیلئے عوامی سطح پر ہمدردی کے جذبات موجود ہیں۔ اصل یہ ہے کہ فلسطینی مفادات اور حقوق کی حفاظت کیلئے لوگ موجود ہونے چاہئیں‘ خواہ ان کا نام حماس نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح آئندہ بھی موجود رہیں گے۔ موجودہ تاریک صورتحال میں جہاں کوئی مسلم ملک زبانی مذمت کے سوا ان کی مدد کیلئے کھڑا نہیں ہوا‘ ان تک اسلحہ تو کیا‘ غذائی مدد بھی نہ پہنچ سکی‘ یہ توقع رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں کہ آئندہ انہیں کوئی مدد پہنچ جائے گی۔ وہ یہ معاہدہ منظور نہ کرتے تو اور کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔ اس لیے غزہ کی لاکھوں جانیں بچا کر براہ راست اسرائیلی تسلط روک دیا گیا تو یہ کامیابی ہی سمجھی جائے گی۔
مسلم ممالک نے اس معاہدے سے کیا حاصل کیا؟ یہ معاملہ مبہم ہے اور شاید مجبوری میں اس وقت باقی معاملات کو چھوڑ کرصرف دو باتیں پیش نظر رکھی گئیں‘ باقی پر زور نہیں دیا گیا۔ ایک‘ غزہ میں فوری جنگ بندی کرانا اور غذائی امداد پہنچانا۔ دوسری‘ ٹرمپ کے مزاج اور خود پسندی کو بھانپ کر اس کے قریب ہونا اور اس کے اور نیتن یاہو حکومت کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنا۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ٹرمپ اپنی افتاد میں سابقہ صدور اور امریکی اسٹبلشمنٹ سے الگ ہیں۔ سابقہ ادوار میں‘ جس میں بائیڈن دور اہم ہے‘ اسرائیل امریکہ کی مکمل حمایت اور مدد حاصل کرتا رہا۔ یہ سلسلہ اگرچہ اب بھی جاری ہے لیکن موجودہ ٹرمپ دور میں تعلقات اسرائیلی من مانی کے نہیں رہے۔ یہ بات بہرحال نظر آتی ہے کہ مسلم ممالک سے بزور اسرائیل کو منوایا جائے گا اور ابراہم اکارڈ پر لایا جائے گا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کی کارروائی پہلی بار پاکستان میں دکھانا بتدریج ذہن ہموار کرنے کے منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔ اس سے پاکستانیوں کو دلی تکلیف ہوئی ہے۔ معاہدے میں کوئی ضمانت نہیں کہ فلسطینی ریاست قائم ہو گی یا صہیونی گریٹر اسرائیل کے نقشے سے دستبردار ہوں گے۔ دو ریاستی نظام کی بات کرنا بھی دراصل اسرائیل کو جواز دینا ہی ہے۔ تو کیا مسلم ممالک اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ بظاہر ایسا ہی ہے اور اسی لیے روشنی اور تاریکی‘ دونوں کے دستخط معاہدے پر موجود ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved