تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     20-11-2013

مو لا نا فضل الرحمن اور مو لانا تقی عثمانی کی خدمت میں

دیوبند بر صغیر کی عظیم الشان علمی،سیاسی اور دعوتی تحریک کا عنوان ہے۔انگریز مسلط ہوئے تو کچھ لوگوں کو خیال ہوا کہ زوال کے اس لمحے میں،مسلم شناخت کی بقا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اس کی تہذیبی و علمی روایت کو محفوظ کر لیا جائے۔اگر ماضی سے تعلق قائم رہا تویہ مسلمانوں کے سیاسی وتمدنی احیاکی اساس بن جائے گا۔اس احساس کے ساتھ دارالعلوم دیوبندکی پہلی اینٹ رکھی گئی۔تدریجاً یہ احساس ایک ہمہ جہتی تحریک بن گیا۔اب اسے ایک کلامی و مذہبی مسلک سمجھا جا تا ہے۔ مسلکِ دیوبندکے کام کا انداز فطری ہے۔انہوں نے اپنے مذہبی خیالات اور تفہیم ِمذہب کے فروغ اور اشاعت کے لیے دینی مدارس قائم کیے۔اب پورے بر صغیر میں پھیلے دیوبندی مدارس، دارالعلوم کے معنوی بیٹے ہیں۔عام آ دمی کی سطح پر اس تعبیرِ دین کو پھیلانے کی ذمہ داری تبلیغی جماعت نے اٹھالی۔ مسلک کے سیاسی کام کو جمعیت علمائے اسلام کے فورم سے منظم کیا گیا۔یہ پاکستان کے سیاسی تناظر میں جمعیت علمائے ہند کا تسلسل ہے۔یوں علمی، دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مشترکہ نتیجہ اس اندازِفکر کی آبیاری کر رہا ہے۔تعبیرِ مذہب کے اختلاف کے ساتھ،یہی تینوں کام جماعت اسلامی نے بھی کرنے کی کوشش کی۔تاہم جماعت کا کام تنظیمی اعتبار سے غیر فطری تھا۔اس نے تینوں کام ایک ساتھ اور ایک نظم کے تحت کیے۔ یوں وہ ان کاموں کے تضادات میں الجھ کر رہ گئی۔دیوبندی مسلک نے انہیں تنظیمی طورپر الگ رکھااور یوں تبلیغی جماعت کی دعوت، مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کے مضر اثرات سے محفوظ رہی۔ میرا خیال ہے کہ آج مسلک دیوبند کو ایک بڑی علمی اور سیاسی آزمائش کا سامنا ہے۔مذہب کی پرتشدد اور انتہا پسندانہ تعبیریں یہیں سے پھوٹ رہی ہیں۔اس سے جہاں دین کا عمومی تعارف طرح طرح کے اعتراضات کی زد میں ہے وہاں خود اس مسلک کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔اِسے تقسیمِ ہند سے قبل کی روایت کے ساتھ جوڑا جار ہا ہے جب جمعیت علمائے ہند کانگرس کی ہم نوااورمتحدہ قومیت کی حامی تھی۔میرے نزدیک چند شخصیات کی حد تک ممکن ہے یہ فکری تسلسل قائم ہو لیکن پورے مسلک پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔اہلِ دیوبند کی حب الوطنی مجھ سمیت کسی دوسرے پاکستانی سے کسی طور کم نہیں۔اس اعتراف کے باوصف دیوبند سے وابستہ بعض حضرات اور تنظیموں کے رویے نے اس مسلک کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھادیے ہیں۔اس دور میں دیوبند مسلک کی علمی اور سیاسی قیادت مولانا تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے۔مو لانا تقی عثمانی کے والدِ گرامی مفتی محمد شفیع مر حوم نے تقسیمِ ہند کے وقت مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور اپنے اکابر کے سیاسی موقف سے بصد احترام اختلاف کیا۔ان دونوں حضرات کی دوسروں سے زیادہ آج یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسلک سے وابستگان کے رویے کا جائزہ لیں اور ان خطرات کا تدارک کریں جو اسے لاحق ہو رہے ہیں۔میں محسوس کرتا ہوں کہ دوسرے مسالک ان سے خائف اور ان کے خلاف متحد ہورہے ہیں۔ یہ مسئلہ اب صرف مسلک کا بھی نہیں رہا،اس نے قومی سلامتی کو بھی شدیدخطرے میں ڈال دیا ہے اوراس ملک میں مذہب کے مستقبل کو بھی۔میری ان دو نوں شخصیات سے یہ درد مندانہ درخواست ہے کہ وہ اس صورتِ حال کی سنجیدگی کومحسوس کریں اوراس باب میں منصبِ قیادت کا حق ادا کریں۔ میرے نزدیک چند متعین سوالات ہیںجو بطورِ خاص ان حضرات کی تو جہ چاہتے ہیں: 1۔ملک میں نفاذِ شریعت کی مسلح جدو جہد کے علم بر دار،مو لانا تقی عثمانی کے ہم مسلک ہیں۔اس باب میں اہلِ دیوبند کا علمی نقطہ نظر کیا ہے؟لال مسجد کے معاملے میں اگر چہ ان علماء کا ایک موقف سامنے آیا تھا لیکن وہ واضح نہیں تھا۔اسی طرح حال ہی میں تحریکِ طالبان کے بارے میں بھی ان کی رائے اسی ابہام کو لیے ہوئے تھی۔اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ ریاست اور ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والوں میں تمیز نہیں کرتے۔اب ضرورت ہے کہ ہر ابہام سے پاک رائے سامنے لائی جائے؟وقت کے حکمرانوں کاطرزِ عمل ان کے سامنے ہے۔کیا ان کے خلاف مسلح اقدام جائز ہے؟اگر نہیں تو جو اس کے مرتکب ہیں،ان کی حیثیت کیا ہے۔۔باغی یا کچھ اور؟ 2۔ مسلمان سمجھے جانے والے گروہوں کی تکفیر کے باب میں اہلِ دیوبند کاموقف کیا ہے؟کیا کسی جماعت یا فرد کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی گروہ کی تکفیر کرے اور سماج میں اس کے لیے تحریک چلائے؟اگر اہلِ دیوبند اس کو جائز نہیں سمجھتے تو ان لوگوں کے بارے میں ان کا موقف کیا ہے جو دیوبندی دینی مدارس کا حصہ ہیں اور یوں وفاق المدارس میں بھی شامل ہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ سانحہ راولپنڈی کے تناظر میں وفاق المدارس کے ذمہ دار تکفیری مہم کی مذمت کر رہے ہیں۔یہ مذمت کیا کسی عملی اقدام کی متقاضی نہیں؟ 3۔طالبان اپنا نقطہ نظر دینی دلائل کے ساتھ بیان کر چکے۔ انہوں نے علماء کو بطورِ خاص مخاطب کیا ہے۔ان کا کوئی جواب مولانا تقی عثمانی صاحب کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔طالبان کے اس شرعی استدلال کے باب میں وہ کیا رائے رکھتے ہیں؟ 4۔موجودہ مسلمان حکمرانوں کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ان کی خارجہ پالیسی اور دوسرے اعمال کو دیکھتے ہوئے،ایک مسلمان شہری کو کیا طرزِ عمل اختیار کر نا چاہیے؟ 5۔ سماج یا ریاست میں نہی عن المنکر اور امربالمعروف کے باب میں علماء اور اہلِ مذہب کی ذمہ داری کیا ہے؟ 6۔جو لوگ ان مسائل میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں،کیا دیوبندی اکابر ان سے اظہارِ برأت کے لیے تیار ہیں؟ میں پوری درد مندی کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت اہلِ مذہب میں سے، اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ذمہ داری مسلکِ دیوبند کے اکابر کی ہے۔مو لا نا تقی عثمانی علمی قیادت کر رہے ہیں اور مو لانا فضل الرحمٰن سیاسی۔مو لا نا کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بین المسالک ہم آہنگی کے معا ملے میں انہوں نے ہمیشہ مثبت رویہ رکھا ہے اورتشدد کی نفی کی ہے۔تاہم اب یہ معا ملہ ان سے اجمالی مذمت نہیں، ایک واضح مو قف کا متقاضی ہے۔اس سماج اور اس کی روایات کو بچانااس وقت سب سے زیادہ، ان کافریضہ ہے۔وہ چاہیں یا نہ چاہیں،تشدد کے حامی خود کو ان کا ہم مسلک قرار دیتے ہیں۔ (پس نوشت:کالم کی آ خری سطور لکھ رہاتھا کہ گجرات یونیورسٹی کے ڈائریکٹر شبیر حسین شاہ صاحب کے قتل کی الم ناک خبر کانوں میں پڑی۔سلسلہ خیالات کو مربوط رکھنا میرے لیے آسان نہیں رہا۔مشکل کے ساتھ کالم کی تکمیل کر سکا۔برسوں سے شاہ صاحب کے ساتھ شناسائی تھی۔ بہت سی علمی مجالس میں اُن کے ساتھ شریک ہوا۔ میں کبھی ان کا ہم خیال نہ ہو سکا لیکن انہوں نے میری بات ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ سنی اور علمی اختلاف کو کبھی سماجی تعلقات میں حائل نہ ہو نے دیا۔وہ علمی مزاج کے آدمی تھے اور ان کا قتل ایک فرد کا نہیں، مکالمے کا قتل ہے۔میرا خیال ہے کہ اس حادثے نے اس کالم کی معنویت میں اضافہ کر دیا ہے۔اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کی مغفرت کرے اور ان کے لواحقین کو صبرِجمیل سے نوازے۔ میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین اور شیخ عبدالرشید صاحب جیسے،شاہ صاحب کے احباب کی خدمت میںبھی تعزیت پیش کرتا ہوں)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved