تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     17-10-2025

دنیا کہاں اور ہم کدھر

سائنسی علوم اور فطری اصولوں کی طرح انسان اور معاشروں کے آگے بڑھنے کے اصول صدیوں سے وضع ہو چکے ہیں۔ جو لوگ ان کا ادراک رکھتے ہیں‘ دل میں تڑپ ہے‘ افکار اور کردار کی بلندی اور قدموں میں سکت ہے تو منزلیں طے کرکے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ ان کی ترقی کا سفر کبھی تھما نہیں۔ اگر ایسا کبھی ہوا تو وہ ضروری اور غیر ضروری جنگوں میں کودنا تھا۔ دورِ جدید‘ جس کی ابتدا آج نہیں گزشتہ چار صدیوں کو محیط ہے‘ سب قوموں‘ مذہبوں‘ نسلوں اور ملکوں کا مشترکہ تہذیبی ورثہ ہے۔ سب نے اس کی ترویج میں اپنے طور پر اور اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالا ہے‘ کسی نے کم تو کسی نے زیادہ۔ آج جہاں ہم دنیا کو دیکھ رہے ہیں‘ وہ کئی رشتوں میں مربوط ہے‘ جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی‘ صنعت‘ تعلیم‘ ادب‘ معیشت اور تجارت ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا تھا کہ پلک جھپکتے میں دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے کسی عزیز اور دوست یا تجارتی شراکت دار سے فون ملا کر وڈیو پر لائیو بات چیت کر سکیں گے۔ میری نسل کے لوگوں کو وہ وقت یاد ہے جب لاہور سے گوجرانوالہ کے لیے آپریٹر کے ذریعے ٹیلی فون کال بک کرائی جاتی تھی۔ ہمارے ایک دوست‘ جن کا وہاں سینما گھر تھا‘ ٹیلی فون آپریٹروں کی باقاعدہ دعوتیں کرتے اور تحائف دیتے تھے تاکہ بوقتِ ضرورت انہیں لائن میں لگ کر اپنی کال کے لیے انتظار نہ کرنا پڑے۔ اب آگے جو ہونے جا رہا ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس شعبے‘ جسے مصنوعی ذہانت کہتے ہیں‘ میں سرمایہ کاری کی رفتار سے لگا سکتے ہیں۔ گزشتہ ایک دو سالوں میں سرمایہ کاری اور تعلیم کے شعبے میں جو تحقیق اور ترقی ہو رہی ہے‘ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ سائنسی انقلاب در انقلاب کا لامتناہی سلسلہ ہمیں مزید حیران کرنے کے لیے اپنی نوید سنا رہا ہے۔ اس کے اشارے واضح ہوتے جا رہے ہیں۔
ہماری پوری زندگی اپنے علمی میدان میں جدیدیت کی جانب پیشرفت اور عالمی سطح پر اس میں تفریق کو سمجھنے میں گزری ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی دعویٰ یہ درویش نہیں کر سکتا کہ ہم آپ سے کچھ زیادہ سمجھ دار ہیں۔ اس لیے کہ معاشرتی ترقی اور انسان کے آگے بڑھنے کا عمل کوئی راز ہے نہ کسی سے پوشیدہ ہے۔ روزِ روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔ صرف غافل اور جاہل ہی جدید دور کی روشن خیالی‘ خوشحالی‘ امن وسلامتی اور روز مرہ کی آسودگی سے محروم رہتے ہیں۔ اس کا فیصلہ تو آپ پر چھوڑتا ہوں کہ ہم آج قوموں کی صف میں کہاں کھڑے ہیں اور کن کن بحرانوں سے کیوں گزرے ہیں‘ مگر جو سماجی ترقی‘ انصاف اور اقتصادی ترقی کے مروجہ عالمگیر پیمانے ہیں‘ ان کے مطابق ہم متوسط درجے کے ممالک کی فہرست میں کئی برسوں سے آخری درجے پر ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس لکیر سے بھی نیچے اتر آئے ہوں۔
اوپر کچھ معاشرتی سائنس کے حتمی اصولوں کی بات کی‘ جن کی روشنی میں ترقی اور خوشحالی کی منازل کئی اپنے جیسے ممالک کو طے کرتے دیکھا ہے۔ چین تو آپ کے سامنے ہے اور خلیجی ریاستیں‘ جو آپ سے اوجھل نہیں اور اشرافیہ اور حکمرانوں کا دوسرا گھر بھی ہیں‘ زیادہ فاصلے پر نہیں۔ یہ دونوں نوعیت کی مملکتیں مغربی تہذیب کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوئیں‘ بلکہ اپنی اپنی تہذیبی شناخت رکھتی ہیں۔ وہ تمام مفروضے جو کسی زمانے میں علمی میدانوں میں گردش کرتے تھے کہ صنعتی اور معاشی ترقی صرف گورے لوگوں کے ٹھنڈے اور کرۂ ارض کے شمال مغرب میں واقع ایک خاص مذہب کے لوگوں کی میراث ہے‘ اور صرف وہاں ہی ممکن ہے‘ اب دم توڑ چکے ہیں۔ دیگر ملکوں‘ جغرافیائی خطوں اور تہذیبوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اس میں اگر کوئی فرق ہے تو فقط تدبیر کا ہے‘ اور جس نوعیت کی تدبیر کی ہے‘ جو ترقی یافتہ ممالک کرتے رہے ہیں اور ان کی منزل کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
ہمارے اپنے ملک میں سماجی اور سیاسی ماحول کچھ ایسا بن چکا ہے کہ ترقی کے اس عمل کے کچھ بنیادی اصول‘ جنہیں دنیا نے اپنایا اور آگے بڑھ گئی‘ کا ذکر کرنا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہاں کے حکمران اور بااثر حلقے جو بھی فیصلہ کریں‘ ہم کون ہیں ان کے سامنے کھڑے ہونے والے‘ مگر ان سے گزارش تو کی جا سکتی ہے کہ آپ جن ممالک میں جا کر طاقتور لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملانے‘ مسکراتے ہوئے تصویریں بنوانے اور وہاں سے سرمایہ کاری لانے میں فخر محسوس کرتے ہیں‘ وہاں مذہب اور ریاست کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ اگر آپ کسی اور طریقے سے آگے بڑھنے کا سوچ رہے ہیں‘ اور ایسا آپ گزشتہ 77 برسوں سے کر رہے ہیں تو خود ہی بتائیں کہ آپ کا کتنا سفر کٹا ہے۔ جدید دور میں نہ مذاہب ختم ہوئے ہیں‘ نہ ہی یہ جدیدیت کا مقصد ہے‘ اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے۔ لیکن لازم ہے کہ ریاست وہ کام کرے جو معاشرے کو آگے لے جائیں‘ جیسے سرمایہ کاری کے لیے سازگار سیاسی اور سماجی فضا‘ انصاف کی فراہمی اور امن وامان کی ضمانت۔ جو حالیہ واقعات ہم گزشتہ دنوں سڑکوں کی بندش‘ شہروں کی بندش اور قومی شاہراہوں کی بندش کی صورت میں دیکھ رہے ہیں‘ اور کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں‘ ایسی فضا میں کون اس ملک میں سرمایہ کاری کرے گا اور کون یہاں بطور سیاح آئے گا۔ لوگ تو یہاں سے جوق در جوق بھاگ کرکہیں اور جا رہے ہیں‘ تاکہ اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنائیں۔ ایسے میں ہم کیسے اپنے باہنر لوگوں کو‘ جو دیگر ملکوں کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کام کر رہے ہیں‘ واپس آنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ یہ سوال ہیں جن کا جواب سب کے دل میں ہے‘ مگر فضا اتنی گھٹن زدہ ہے کہ ایسی بات منہ پر لائی نہیں جا سکتی۔ اب یہ ڈر زیادہ تر ان بپھرے ہوئے گروہوں کی طرف سے ہے جنہوں نے صرف ایک بنیاد پر جتھے بنا کر خوف وہراس کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ حکومتی ادارے ان کی طاقت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ جب چاہیں وہ کسی سرکاری زمین‘ پارک اور سبز خطے پر قبضہ کرکے راتوں رات ایک ادارہ کھڑا کر لیں۔ باتیں تو کچھ اور بھی تلخ ہیں‘ مگر وہ جانیں جن کا کام حکومت کرنا ہے‘ اور یہ جتھے۔ البتہ یہ واضح کرتا چلوں کہ جہاں اور جن ملکوں میں یہ جتھے بنے ہیں‘ اور ان کی تشدد آمیز کارروائیاں جاری ہیں‘ وہاں سے ترقی اور خوشحالی کے سب پرندے اُڑ کر کہیں اور آباد ہو گئے ہیں۔
اپنے ملک کی بات کرنے کی تو اب ہم میں ہمت نہیں رہی‘ مگر ان ملکوں میں جہاں سرکاری دفتروں میں عوام کو دھکے کھانے پڑیں‘ رشوت دینی پڑے اور حکمران نسل در نسل کرپشن میں ملوث ہوں‘ اپنی لوٹی ہوئی دولت کے زور پر سیاست کریں اور موروثی سیاسی جماعتیں بنا کر گٹھ جوڑ کر لیں‘ وہاں اور تو سب کچھ ہو گا مگر سرمایہ کاری نہیں ہو گی۔ جہاں بلاتفریق رنگ ونسل ترقی کے چراغ ہم روشن دیکھ رہے ہیں‘ وہاں فرد اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور یقینی انصاف کی فراہمی کی بنیاد پر نظم وضبط پیدا ہوا ہے۔ بدعنوان افسروں اور سیاستدانوں کی اقتدار میں گنجائش نہیں ہوتی‘ سرکاری تعلیم سب کے لیے اور ایک معیار کی مفت فراہم ہوتی ہے۔ لوگوں میں اتنا شعور اجاگر کر دیا جاتا ہے کہ خاندان میں بچوں کی تعداد دو سے زیادہ نہ ہو‘ وسائل کے مطابق فیصلہ کریں‘ آزادیٔ نسواں پر کوئی قدغن نہیں ہوتی اور مذہبی اقلیتوں کو برابر کے حقوق ملتے ہیں۔ سرکاری تعیناتیاں اور فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں‘ اور اگر انتخابات کی گنجائش آئین میں موجود ہے تو پھر آپ عوام کے فیصلے کا احترام مقدس ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ کوئی نئی بات تو نہیں کی اور نہ اس بارے میں ضرورت ہے۔ فقط شعور‘ احساسِ ذمہ داری اور گریبان میں جھانکنے کی ہلکی پھلکی گزارش کی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved