تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     17-10-2025

سرحدی کشیدگی اور قومی یکجہتی

خیبرپختونخوا میں علی امین گنڈا پور کے استعفے کے بعد سہیل آفریدی صوبے کے نئے وزیراعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں۔ کے پی اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے فوری بعد انہوں نے اپنے منصب کو لے کر جس قسم کے عزائم کا اظہار کیا ‘اس سے خیبرپختونخوا اور وفاقی حکومت کے مل کر چلنے کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دیے؛ تاہم گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے مابین ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو سے کچھ امید پیدا ہوئی ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور وفاق کم از کم دہشت گردی کے معاملے پر ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ خیبرپختونخوا اس وقت دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2025ء کی پہلی تین سہ ماہیوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات کی تعداد 2024ء کے پورے سال سے بڑھ چکی ہے۔ اس دوران دہشت گردی کے واقعات میں 67 فیصد جبکہ اموات میں 71 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے بھی باعثِ تشویش ہے کہ دہشت گردی کے اضافے کے پیچھے صرف خارجی عوامل نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام‘ گورننس کا بحران اور حکومتی سطح پر کمزور ردِعمل بھی کارفرما ہے۔ پچھلے چند برسوں میں خیبر پختونخوا کے سیاسی ماحول میں مسلسل تناؤ دیکھا گیا ہے۔ صوبائی حکومت اور وفاق کے درمیان سیاست‘ اختیارات اورمالی وسائل کے معاملات پر جاری کشیدگی نے ایک ایسا خلا پیدا کیا جس کا فائدہ فتنہ الخوارج اٹھا رہا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ سیاسی یکجہتی‘ انتظامی تسلسل اور عوامی اعتماد کے بغیر نامکمل ہے۔اس لیے نو منتخب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو چاہیے کہ صوبے سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وفاق کے ساتھ ہم آہنگی اور یکجہتی کی پالیسی اپنائیں۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل کچھ سیاسی تجزیہ کار بالخصوص ملک سے باہر بیٹھے اپنا چورن بیچنے کے لیے ایسے تبصرے کر رہے تھے کہ خیبر پختونخوا میں اب گورنر راج نافذ کر دیا جائے گا‘ جس سے عوام سڑکوں پر اتر آئیں گے اور ملک ایک نئی کشمکش کا شکار ہو جائے گا مگر نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ علی امین گنڈاپور کے وزیراعلیٰ کا عہدہ چھوڑنے کے بعد اب کچھ حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں اپنا اور اپنے خاندان کا مفاد آگے بڑھانا آتا ہے۔ یہ ایک معمہ ہے کہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے علی امین گنڈاپور کیسے عمران خان کے اتنے قریب پہنچے۔ 2013ء میں بظاہر تحریک انصاف میں رہتے ہوئے انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایسے امیدواروں کی معاونت کی جن کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں تھا۔ ان کے ماموں طارق کنڈی پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے اور ان کے کزن فیصل کریم کنڈی آج گورنر خیبر پختونخوا ہیں۔ فیصل کریم کنڈی کے بھائی احمد کنڈی کی بھی انہوں نے کئی مواقع پر مدد کی۔ خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے بعد اب وفاق کو گورنر کی بھی تبدیلی کا سوچنا چاہیے کیونکہ وہ اپنے صوبے کے معاملات سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا مرکز اسلام آباد اور توجہ محض پیپلز پارٹی پر ہے ۔
اُدھر افغان چوکیوں سے پاکستان پر حملوں کے بعد پاکستان نے ان حملوں کا ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ افغان طالبان نے سفید جھنڈے لہرا کر جنگ بندی کی گزارشات میں ہی عافیت جانی۔ افواجِ پاکستان نے پاک افغان بارڈر کے قریب موجود فتنہ الخوارج اور داعش کے دہشت گرد کیمپوں اور ہائیڈآؤٹس کو بھی نشانہ بنایا ۔ ان حالات کے پیشِ نظر اپنی افواج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے بجائے ایک ایسے معاملے پر ملک میں پُر تشدد احتجاج کرنا‘ جو حماس‘ فلسطین اتھارٹی‘ مسلم‘ عرب اور مغربی ممالک کی کوششوں سے جنگ بندی پر ختم ہو چکا ہے‘ سمجھ سے بالاتر ہے۔
جب غزہ میں جنگ بندی‘ قیامِ امن اور غزہ کے باسیوں کی اپنے گھروں کو واپسی پر غزہ سمیت تقریباً پوری دنیا میں جشن منایا جا رہا تھا اور اندرونِ ملک مغربی سرحد پر صورتحال کافی کشیدہ ہے‘ایک مذہبی جماعت کا فلسطین مارچ کا فیصلہ حیران کن تھا۔ مارچ کے نام پر ہونے والی پُرتشدد کارروائیوں میں سرکاری اور نجی املاک‘ پولیس اور شہریوں کی گاڑیوں کو بھاری نقصان پہنچا‘ کئی روز تک راستے بند ہونے کی وجہ سے عوام کے معمولاتِ زندگی متاثر ہوئے‘ مریضوں کو ہسپتال پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ علاوہ ازیں کارکنوں کی پُرتشدد کارروائیوں سے ایک پولیس اہلکار شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ملک کی بقا اور استحکام کیلئے ضروری ہے کہ سیاستدان‘ فوج اور عوام ایک صف میں کھڑے ہوں؛ دہشت گردی کوئی سیاسی تنازع نہیں بلکہ قومی خطرہ بن چکی ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت اور جماعتیں اگر قومی قیادت کا کردار ادا کریں‘ مفادات سے بالا تر ہو کر سب ہم آواز بنیں تو وہ ملک کی بڑی طاقت بن سکتی ہیں؛ لیکن جب وہ اپنی سیاست اور مفادات کو قومی سلامتی پر ترجیح دیتی ہیں تو ریاستی استحکام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
پاک افغان کشیدگی کا معاملہ پاک بھارت جنگ والا نہیں ہے‘ اس لیے اس میں جنگ اور فتح کا وہ تصور نہیں جو بھارت کے ساتھ ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں‘ وہ مجبوراً کی ہیں کیونکہ افغانستان کی عبوری حکومت ان وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جو اس نے اپنی زمین کو دوسروں کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دینے کے ضمن میں دوحہ (قطر) میں کیے اور بعد میں بہت سے بین الاقوامی فورمز پر ان کا اعادہ بھی کیا۔ اگر یہ معاملہ افغانستان کے اندر تک محدود رہتا تو اور بات تھی لیکن ان گروہوں نے پاکستان میں مسلح کارروائیاں شروع کر دیں اور وہ پاکستان کے سویلین اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے لگے۔ پاکستان کی افغانستان کے خلاف حالیہ کارروائی اپنی سلامتی کیلئے صرف دہشت گردوں اور دراندازوں کے خلاف ہے۔ افغانستان یا افغانوں سے پاکستان یا پاکستانیوں کی کوئی جنگ نہیں۔ حالیہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے میں بھارت کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ آپریشن سندور کے جواب میں پاکستان سے معرکۂ حق میں شکست فاش کھانے کے بعد بھارت افغان طالبان کو پاکستان میں پراکسی وار کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل بھی موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح پاکستان کو نقصان پہنچا سکے۔ ایسے نازک وقت میں جب ملک کو اتحاد اور یکجہتی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ پوری قوم کو اپنی فوج اور ریاست کے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔
شنید ہے کہ بھارت کے بارڈر پر تعینات تمام کورز کے کمانڈرز کو آرڈر جاری کیا گیا ہے کہ پاکستان پر بھارت کے نیوی‘ میزائل‘ فضائی اور بحری‘ کسی بھی قسم کے حملے کی صورت میں ہائی کمان کے آرڈر کا انتظار کیے بغیر فوری طور پر بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے اور انٹرنیشنل بارڈر یا کنٹرول لائن عبور کر کے بھارتی علاقوں میں داخل ہو کر چوکیوں پر قبضہ کیا جائے۔ یہ حکم نامہ پاک فوج کی پالیسی میں بڑا شفٹ ہے۔ ملکی تاریخ میں دفاع کے لحاظ سے ایڈوانس آرڈر تو جاری ہوتے رہے ہیں لیکن ایسا ایڈوانس آرڈر شاید پہلے کبھی جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اس آرڈر کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اگر 3500 کلومیٹر طویل پاک بھارت بارڈر پر کہیں سے بھی بھارتی حملے کی اطلاع ملتی ہے تو پاکستان کی طرف سے پورے بارڈر پر ہر جگہ سے بھارت کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یعنی اگر بھارت سرکریک کی طرف سے سندھ یا کراچی پر حملہ کرے تو جنگ صرف وہاں نہیں ہوگی بلکہ پورے مشرقی بارڈر سے بھارت پر حملہ کیا جائے گا‘ جس کا پیشگی حکم جاری کر دیا گیا ہے اور اس کیلئے آن گرائونڈ فورسز کو کسی مزید حکم یا اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved